لاس اینجلس میں بدامنی، مگر پھر بھی کوئی گولی نہ چلی!

سلیم سید
پچھلے ہفتے سے لاس اینجلس میں آئس کے خلاف ہونے والے مظاہرے اب تقریباً امریکہ کے تمام بڑے بڑے شہروں تک پھیل گئے ہیں۔ ہفتے والے دن ملک بھر میں بیک وقت اٹھارہ مقامات پر امیگریشن کے خلاف، ٹرمپ کے خلاف اور آئس کے خلاف مظاہرے ہوئے، ہم ہر ہر منٹ پر کبھی لاس اینجلس، کبھی شکاگو اور کبھی نیویارک میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان منہ در منہ بحث مباحثہ سڑکوں پر ہوتا دیکھتے رہے۔ مظاہرین نے سکیورٹی فورسز کو کھلے عام گالیاں دیں۔ ایک ویژویل میں تو ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ افراد سڑکوں پر گزرنے والی نیشنل گارڈز اور یو ایس میرنیز کی گاڑیوں پر کئی افراد اینٹیں اور پتھر بھی ماررہے تھے۔ ڈائون ٹائون ایل اے میں نہ صرف پرائیویٹ گاڑیوں بلکہ پولیس کی گاڑیوں پر بھی بوتل بم پھینک کر آگ لگائی گئی۔ پولیس اور سکیورٹی کے پاس لاٹھیاں بھی تھیں اور لوڈڈ اسلحہ بھی تھا مگر وہ سب برداشت کرتے رہے اور آپے سے باہر مظاہرین کو کمر کے پیچھے ہتھکڑیاں پہنا پہنا کر موقع پر موجود قیدیوں کی گاڑیوں میں دھکیلتے رہے حالانکہ ان کے پاس بھی جدید اسلحہ موجود تھا، بکتر بند گاڑیوں بھی تھیں اور بعض مقامات پر ٹینک بھی دیکھے گئے۔ جس وقت ہم یہ سب مناظر مختلف امریکی ٹی وی چینلز پر دیکھ رہے تھے نہ معلوم کیوں آنکھوں کے سامنے اسلام آباد کے ڈی چوک کے مناظر سامنے آتے رہے۔ نہ لاس اینجلس میں، نہ شکاگو میں اور نہ ہی نیویارک میں، کہیں کسی سکیورٹی اسنائپر نے مظاہرین کے سروں پر براہ راست گولیاں نہیں ماریں۔ کہیں پر کوئی ٹرک اور بڑے بڑے لوہے کے کنٹینرز لگا کرر استے بند نہیں کئے گئے۔ کہیں پر کسی شخص کو تین منزلہ کنٹینر سے دھکا دے کر نیچے نہیں گرایا گیا۔ کہیں کسی بھی علاقے کی بتیاں بند نہ کی گئیں اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ امریکہ اور دنیا بھر کے نیوز چینلز پر کوئی سینسر شپ اور براہ راست ٹی وی کوریج دینے پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ کسی بھی مقام پر اندھا دھند گولیاںچلاناتو دور کی بات، ایک بلٹ بھی نہیں داغی گئی۔ ہاسپٹلز سٹینڈ بائی رہے مگر کہیں بھی کوئی ایک زخمی نہ لایا گیا اور نہ ہی لاشیں دکھائی دیں۔
ہم سوچتے رہے کہ 26 نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں تو مظاہرین بالکل پرامن تھے، نہ کوئی فوجیوں کو گالیاں دے رہا تھا، نہ کوئی بوتل بم پھینک رہا تھا، نہ کوئی سرکاری، پرائیویٹ، پولیس، رینجرز یا آرمی کی گاڑیوں کو آگ لگا رہا تھا۔ مظاہرین تو اسلام آباد کی رات فوج اور رینجرز کی طرف سے سروں پر سیدھی گولیاں مارے جانے سے قبل لاس اینجلس کے مظاہرین کے برعکس، اپنے فوجی بھائیوں کو گلے لگارہے تھے تو پھر ایسی کیا وجہ ہوئی ہو گی کہ ان نوجوان اور نہتے مظاہرین پر یوں بتیاں بجھا کر ان کے سروں پر سیدھی گولیوں کی برسات کر دی گئی؟ یہ سب کچھ ظلم اور فسطائیت کامظاہرہ کس کے کہنے پر کیا گیا؟ ہسپتالوں سے لاشیں کیوں غائب کرائی گئیں؟ ایک اٹھارہ سالہ مقتول لڑکے کے والد کا سوشل میڈیا پر بتایا واقعہ بھلائے نہیں بھولتا۔ اس جواں سال لڑکے نے پاس سے گزرنے والے شخص سے جس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی عمران خان کی تصویر تھی، اُسے روک کر اپنے ساتھ ایک سیلفی بنوائی، ابھی وہ سیلفی لیکر ہٹا ہی تھا کہ اوپر سامنے کی بلڈنگ کی چھت سے ایک اسنائپر کی گولی اس لڑکے کی گردن سے آر پار ہو گئی۔ لاس اینجلس میں تو لوگ غیر قانونی طور پر میکسیکو کے پرچم لہرا رہے تھے، ان کے سروں پر اسنائپرز نے گولی کیوں نہ چلائی؟ اسنائپر سے لیکر مولانا طارق جمیل کے لندن جا پہنچے کے پیچھے صرف اور صرف ایک شخص کا ہاتھ ہے جو اپنے آپ کو حافظ بھی کہتا ہے اور فیلڈ مارشل بھی کہلواتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو میڈیا پر آکر لوگ ذہنی مریض کہہ رہے ہیں مگر ہمارے ملک کے ذہنی مریض اور سائیکو پاتھ جنرل عاصم منیر کو ایک بیمار جنرل، کون اور کب ٹی وی پر آ کے کہے گا؟