ہفتہ وار کالمز

اکیسویں صدی کا پوشیدہ ولی

میں ذاتی طور پر اس مفروضے پر یقین نہیں رکھتا کہ اسلام آباد شہر کا مخفی انتظام و انصرام چند "بابوں” یعنی چند ضعیف العمر اور کشادہ کمر بڈھوں کے ہاتھ میں رہا ہے یا اب بھی ہے۔ اس مفروضے کو بنیاد بنا کر کئی سفید ریش اور گریز ریش نفوس نے علم و ادب کی دکان بھی سجائی اور انواع و اقسام کی تحریریں بیچ کر منافع بھی کمایا۔مگر ؛ چونکہ یہ کاٹھ کی ہنڈیا تھی ، زیادہ نہ چڑھ سکی اور بالآخر جل گئی ، کہ اس طرح اور طرز کے تحریری اور تقریری تماشوں کو دوام نہیں ملتا۔ ہاں البتہ یہ بات قرین قیاس ہے کہ ہر شہر کی تعمیر اور توقیر میں قد آور شخصیات ،دانشوروں ، عالموں اور ادیبوں کی مساعی شامل حال رہتی ہے ،اور ایسے ہی نام وروں کو مرزا غالب "پوشیدہ ولی ” قرار دیتے ہیں ، جو کہ ؛ وہ خود بھی تھے ۔اسلام آباد جیسے ہجوم گریز اور کم آمیز شہر کے مزاج اور ماحول پر اثر انداز ہونے والے عصرِ رواں کے پوشیدہ ولی کا نام قاسم بگھیو ہے، قاسم بگھیو لسانیات کے ڈاکٹر اور انسانیت کے اسیر ہیں ۔ انسان دوستی عقیدہ اور انسان پرستی ان کا مذہب ہے ۔قاسم بگھیو سندھ دھرتی کی جملہ خوبیوں کا مجموعہ اور متعدد خرابیوں کی عمدہ مثال ہیں، خوبیوں کو آپ خود تلاش کرلیں،خرابیاں میں بتا دیتا ہوں ۔ان کی سب سے بڑی خرابی دوست داری اور محفل سازی ہے۔دوست داری کی بنیاد یک طرفہ اعتماد اور بلا وجہ کا اعتبار ہے۔ یہ خرابیاں قاسم بگھیو کی کمزوریاں بننے کی بجائے ان کی طاقت بن کر سامنے آتی ہیں۔ان کی ایک خرابی نت نئے راستوں کی تلاش ہے۔حیرت اس وقت ہوتی ہے جب نت نئے راستوں کی تلاش کی ہر مہم قاسم بگھیو کو بھٹکانے کی بجائے کسی نئی منزل تک پہنچا دیتی ہے ۔قاسم بگھیو کی ایک اور خرابی عقل گریزی اور عشق شماری ہے۔لیکن یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ وہ عقل اور عشق کی باہم آویزش کے نازک نکات اور باہم التفات کے مقامات سے بخوبی واقف و آگاہ ہیں ،قاسم بگھیو کے ہاں عقل اور عشق یمین و یسار کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ رانجھا بن کر بھی جوگی نہیں بنتے، وہ مرزا جٹ ہو کر بھی نہ تو نیند کے حصار میں آتے ہیں ،اور نہ ہی اپنے تیر تڑواتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت کسی نئے اور جدا خیال کی تجسیم میں مصروف رہتے ہیں ۔ سوچنے اور تخلیق کرنے والے عموماً کم آمیز اور محفل گریز ہوتے ہیں۔لیکن جب بات قاسم بگھیو کی ہو رہی ہو تو پھر سارے اصول و قیاس ایک طرف منہ لپیٹ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ قاسم بگھیو نے اسلام آباد کو اپنی جائے قرار بنا کر یہاں کی فضا اور یہاں کے ماحول میں ایک طرح کا تحرّک اور ایک طرز کا جوش و جنون پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ،اور یہ بھی کوئی چھوٹی برائی تو ہے نہیں۔وہ جو مرزا غالب نے کہا تھا کہ؛
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں
تو بالکل اسی طرح قاسم بگھیو کے ورود اسلام آباد نے یہاں کی ذہنی فضا پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔اور کتنی ہی بلبلیں غزل خواں ہو چکی ہیں۔
حال ہی میں مجلس ترقی ادب لاہور کے زیر اہتمام ان کی ایک سندھی زبان میں لکھی کتاب شخص و عکس کا اُردو ترجمہ’’ تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو ‘‘کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے ۔میں شاید اس کتاب کے چند ابتدائی خواستگاروں میں شامل ہوں ،کیونکہ میں نے مجلس ترقی ادب سے فوری طور پر یہ کتاب منگوا لی تھی،اور ایک دو روز کی تاخیر کے باعث جب مجلس کے دفتر سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ پریس سے آتے ہی پہلی کتاب آپ کو ارسال کی جائے گی۔یوں میرے پاس پہنچنے والی کتاب پہلی ہو یا نہ ہو ، ترو تازہ ضرور ہے۔قاسم بگھیو جیسے زبان شناس اور سماج فہم دانشور کی سندھی زبان و ادب اور ثقافت و سماج سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات کے حوالے سے باتیں اور یادیں یقینی طور پر دلچسپی کے ہزار سامان اپنے اندر رکھتی ہوں گی ، یہی خیال اس کتاب کا بے چینی سے انتظار کرنے کا باعث بنا تھا۔میرا تاثر ہے کہ ،کتاب کے اُردو ترجمے کا عنوان کتاب کے مندرجات کی بجائے کتاب کے مصنف کی شخصیت کو سامنے رکھ کر منتخب کیا گیا ہے۔ اگرچہ مجھے نہیں لگتا کہ اکیسویں صدی کے فرشتوں کو وضو کرنے کے لیے کسی "تر دامن” پر شیخ کی دراز دستی کا محتاج ہونا پڑے گا۔اور پھر شیخ بے چارے کو تو کیا کہیں کہ وہ ہماری ادبیات کا مطعون اور معتوب ترین کردار ہے ہی ،اور یہ سعادت بھی شیخ کو اپنے الٹے سیدھے اعمال کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو کی مبینہ تر دامنی سے قطع نظر ؛ ان کی شیخ شناسی اور شیخ شکنی ہمیشہ مثالی رہی ہے ۔وہ جو میر تقی میر نے کہہ رکھا ہے کہ؛
تمہیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور
خدا ہے شیخ جی ہم بھی گناہگاروں کا
تو اسی اعتماد کی بنیاد پر ڈاکٹر قاسم بگھیو بھی تر دامنی اور شیخ کے بیانیے کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔ سندھی دانش اور بصیرت کی نقاب کشائی کے لیے ڈاکٹر قاسم بگھیو نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ،اور متنوع خوبیوں سے متصف سندھی شخصیات پر گاہے گاہے لکھے گئے شخصی خاکوں اور تاثراتی مضامین کو یکجا کر کے عکس و شخص کے عنوان سے کتابی صورت میں یکجا کیا تھا۔سندھی زبان کا یہ مجموعہ مقبول ہوا اور بے حد پسند کیا گیا تھا۔اب پروفیسر ساجد سومرو نے ڈاکٹر قاسم بگھیو کے سندھی میں لکھے شخصی خاکوں کی اس کتاب کو ’’تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو ‘‘کے عنوان سے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ساجد سومرو نے اپنے رواں اُردو ترجمے کے ذریعے ہمیں ڈاکٹر قاسم بگھیو کی زمین سے جڑی اور آسمان تک پھیلی دانش کے روبرو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اس کتاب میں علامہ آئی آئی قاضی پر دو مضامین کے بعد تیسرا مضمون مرزا قلیچ بیگ پر ہے۔ مرزا قلیچ بیگ کو مضمون نگار نے سندھ کا سدا روشن سورج قرار دیا ہے۔لیکن میرے لیے مرزا قلیچ بیگ کی سب سے نمایاں خوبی اور کارنامہ یہ ہے کہ وہ پروفیسر قاسم بگھیو کے ساتھ میرے تعارف ، تعلق اور دوستی کا باعث بنے تھے۔قصہ 2009 ء کا ہے۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں مرزا قلیچ بیگ کی علمی ،ادبی اور ثقافتی خدمات پر انٹرنیشنل کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔مجھے اس کانفرنس میں مقالہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ اس کانفرنس سے آغاز کرتے ہوئے آج تک ڈاکٹر قاسم بگھیو کی دوستی ، توجہ اور التفات کا لطف جاری ہے۔شیخ ایاز ڈاکٹر قاسم بگھیو کے ممدوح اور مربی تھے۔ ایک مشرقی عاشق کے برعکس ،ڈاکٹر قاسم بگھیو نے شیخ ایاز کے ساتھ اپنی عقیدت ،مروت اور محبت کو کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ان پر لکھے دونوں مضمون اس بات کی گواہی پیش کرتے ہیں ۔ڈاکٹر قاسم بگھیو کی تحریر میں اختصار کے باوجود کمال درجے کا ابلاغ پایا جاتا ہے۔تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو میں شامل مختلف مضامین اور خاکے مختلف اوقات اور جدا جدا مزاج میں لکھے گئے تھے ،اس لیے ان تمام تحریروں میں وحدت تاثر کو تلاش کرنا مناسب نہیں ۔ہر مضمون ایک الگ محل اور الگ تاثر کا حامل ہے ،لیکن ان سب میں مصنف کی شخصیت اور انداز کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔میں نے شروع میں ڈاکٹر قاسم بگھیو کی چند برائیوں کا ذکر کیا تھا۔ان برائیوں میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ، وہ لکھتے ہوئے اور بات کرتے ہوئے اپنی رائے اور اپنی فہم کو مستور نہیں رکھتے۔کسی کو اچھا لگے یا برا محسوس ہو ،وہ لکھ جاتے ہیں ،وہ بات کر گزرتے ہیں۔وہ عمومی طور پر اپنے دل کو پاسبان عقل کی قربت کی بجائے تنہا رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو کی باتیں اور یادیں جابجا میرے اس تاثر کی تصدیق کریں گی۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو کبھی کسی ناصح یا محتسب کو قریب نہیں آنے دیتے، اور یہ کوئی چھوٹی برائی نہیں ہے۔اس کے برعکس ان کا دل اور در ،دونوں دوستوں کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ان کے سارے دوست از راہ احتیاط و مروت ؛ مرزا غالب کے اس شعر کو ہمہ وقت پیش نظر رکھتے ہیں، کہ؛
دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button