ہفتہ وار کالمز

بجٹ کی تپش

جب جیب خرچ پر کنٹرول کسی دوسرے کے اختیار میں چلا جائے تو پھر بدن پر پہنے کپڑے بھی اپنی ملکیت نہیں لگتے ایسی کسمپرسی میں بندہ جیب میں پیسے رکھ کر بھی فقیر ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی ضروریات کے لئے بغیر پوچھے خرچ کرنے کی جسارت نہیں رکھتا گویا سانس لینے کی بھی پیشگی اجازت طلب کرنا ضروری ہے آنے والے بجٹ کے لئے تمہید اس لئے باندھی کہ قارئین کو علم ہو جائے کہ بجٹ عوام کے لئے نہیں ہے بلکہ جن سے قرضہ لے کر ترقی کے ڈھول بجائے ہیں بجٹ اُن کرم فرمائوں کے مفادات کے بھرپور تحفظ کے لئے آنے والا ہے جسے گلے لگا کر کوئی جئے یا مرے قبول کرنے کا جبر سہنا پڑے گا آمدن نہ ہو تو اخراجات کی تپش جھیلنا بن مانس کی دم کھینچنے کے مترادف ہوتا ہے انسانی پیار و محبت ،گھریلو امور پر توجہ ،کھیلتے بچوں کو آنے والی زندگی کے تفکرات سے معاشی ابتری سے بچا کر رکھنا یہ سب پیش بندیاں بھول سی جاتی ہیں حال اتنا مجروح کر دیتا ہے کہ مستقبل میں جینے کی اُمید دم توڑتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ آمدن کا توازن ضروری اخراجات کے مقابلے میں انتہائی ہلکا ہوتا ہے نتیجہ اس کا قرضدار ہونا ،بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگی بھی قسطوں میں پوری کرنا اور دنیا میں بکھری اللہ کی اکثریتی نعمتوں سے محروم رہنا ہی زندگی کا حصہ ہیں خفا خفا سی زندگی اور قدم قدم پہ پھیلی الجھنیں اگر ہمارے ساتھ اللہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا !!!تاریخ اس دہشت گردی کی گواہ ہے کہ کسی بھی طرز کی حکومت نے کبھی عوامی مسائل کو سامنے رکھ کر بجٹ نہیں بنایا اور نہ ہی اپنی شاہ خرچیوں میں کمی کے اقدامات کو قانونی شکل دی ہے فقیروں کی طرح مانگنا اور شاہوں کی طرح خرچ کرنا ہمارا وطیرہ روزگار ہے جس سے جمہوریت ناتواں اور معیشت قرض کی سانسوں پر اٹھکیلیاں لیتے دیکھی جا سکتی ہے گزشتہ دنوں معاشی بہتری کا ایک شور برپا کیا گیا تھا لیکن اُس کے اثرات سے عوام ابھی تک محروم و محتاج ہیں آنے والے قومی بجٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایک ہزار ارب روپے کے 118 ترقیاتی منصوبوں کو ختم کیا گیا ہے محدود وسائل کی وجہ سے متوقع بجٹ کو گزشتہ بجٹ کے مقابلے 100ارب روپے کم رکھا گیا ہے اب دیکھیں گے کہ وہ کونسے انتہائی اہم اور قومی مفاد کے منصوبے ہیں جنھیں شامل رکھا گیا ہے جن منصوبوں کو اہمیت کا حامل جان کر بجٹ کا حصہ بنایا گیا وہ عوامی ضروریات اور قومی اُمنگوں کو پورا کر بھی سکیں گے یا نہیں ؟ کیونکہ نصف سے زائد بجٹ تو قرضوں کی ادائیگیوں کی نذر ہو جائے گا اور باقی ماندہ بجٹ تنخواہوں کے ساتھ بھاری مراعات پر و دیگر شاہانہ اخراجات پر خرچ ہوں گے ذرائع کہتے ہیں کہ اس آنے والے بجٹ میں صحت کے شعبے میں 13ارب روپے اور تعلیم و اعلی تعلیم کے شعبے میں 20ارب روپے کی کمی کی گئی ہے حالانکہ ملک پہلے سے ہی تعلیم و صحت کی بہتر سہولیات سے محروم ہے بنیادی تعلیم سے محروم رہنے والے بچے اور پینے کے صاف پانی کی قلت نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر تندرست رہنے کی سہولیات سے مبرا کر دیا ہے ان آلامی کیفیات کی موجودگی میں متوقع بجٹ میں کمی کی گئی ہے تو میری نظر میں ممکن نہیں کہ بنیادی ضروریات کو حکومت عوامی سطح پر بہتر کر سکے گی معاشی ماہرین ملکی بجٹ کو پس پشت ڈالیں اور اپنی نظر ِ کرم کرتے ہوئے موجودہ آمدن و اخراجات کے تناظر میں ایک سفید پوش گھر کا بجٹ بنا کر دکھائیںقرض کی رقوم لے کر یا سودی قرضے لے کر بجٹ ترتیب دینا ان کے لئے آسان ہے لیکن جہاں ڈاکٹروں کی فیسیں،دوائیاں سکول و کالج کی ماہانہ فیسیں و نصابی کتب کے اخراجات ایک عام آدمی کی تنخواہ یا ذرائع آمدن سے مطابقت ہی نہ رکھتے ہوں تو ان حالات میںکیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ آنے والا بجٹ قومی امنگوں کا ترجمان ہو گا ؟جب کہ پچھلے بجٹ کی تپش سے جھلسے بدن مندمل ہونے کا نام نہیں لے رہے آئی ایم ایف کی ہدایات اپنی جگہ مگر خلق ِ خدا کی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی تو حکمران کے فرائض ِ منصبی میں شامل ہے جسے اہمیت باتوں میں تو دی جاتی ہے لیکن عملی طور پر خط ِ غربت سے نیچے گرنے والوں کو بجٹ میں بنیادی سہولتوں میں آسانیاںنہیں دی گئیں ہیں جس سے عوامی سطح پر بجٹ کی تپش کو محسوس کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح کا خاموش احتجاج ابھی جاری ہے اللہ کرے کہ موجودہ حکمران عوام کی معاشی پریشانیوں سے نجات والا بجٹ دے دیں تو بجٹ کی تپش مہنگائی میں کمی سے کم ہو سکتی ہے ضرورت عملی کوشش کی اگر ہو تو ۔!!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button