ہفتہ وار کالمز

زیاد ہ پاکستانی، غربت کی لکیر سے اوپر

کہتے ہیں پاکستان میں غربت بڑھ رہی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غریب کو جتنا کھانا ملنا چاہیے وہ نہیں ملتا۔ اس کو جینے کے لیے جتنی آمدنی چاہیے وہ نہیں ملتی انکے تن پر پھٹے پرانے کپڑے ہیں۔انکے جوتوں میں سوراخ ہیں۔ ان کے سر پر چھت بھی نہیں۔یا اگر ہے تو اس میں بارش کا پانی ٹپکتا ہے۔ انکے بچے سکول نہیں جاتے۔ بلکہ اگر ذرا بڑے ہیں تو کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے جاتے ہیں یا بھیک مانگنے۔ نہ ان کا کوئی ماضی ہے اور نہ مستقبل۔اگر بیمار ہیں تو دوا دارو کی رقم نہیں۔گندا پانی پینے کے لیے اور ناقص غذا کھانے کے لیے صحت کو خراب رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔دو نمبر کی دوائیاں اور دو نمبر کی غذا ان کی تکلیفوں میں اضافہ کرتی ہیں۔اگر بجلی ہو تو شاید پنکھا گرمی کی شدت سہارنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن بجلی بھی تو کئی کئی گھنٹے چلی جاتی ہے۔موسم کی شدت سہارنا کوئی آسان کام نہیں۔سردیوں میںٹھٹھرتے ہیں، گرمیوں میںبھنتے ہیں۔سب سے بڑی بات کہ ہر رات اس فکر میں گذرتی ہے کہ کل کا کھانا کہاں سے آئے گا؟بیوی ،بچوں کا پیٹ کیسے بھرے گا؟
مجھے نہیں یاد کہ پاکستان کی کسی بھی حکومت نے، سوائے ایک مختصر سے وقفے کے، غریبوں کی حالت بہتر کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہو۔کہتے ہیں ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ غریب ہیں، لیکن آبادی کے تناسب کے لحاظ سے، پاکستان کا مقابلہ نہیں۔ یہ نہیں کہ پاکستانی حکمرانوں کو غربت دور کرنے کا احساس نہیں،صرف ان کی ترجیحات کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے حکمران اپنے ہم وطنوں سے ٹیکس اکھٹانہیں کر سکتے کیونکہ جن لوگوں نے ٹیکس دینا ہوتا ہے وہ ٹیکس کلکٹرز کو دے دلا کر یا مکمل چھوٹ لے لیتے ہیں یا ٹیکس خاصا کم کروا لیتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو اتنا مالیہ نہیں ملتا کہ وہ ایک سال کی ضروریات پوری کر سکے۔ اس لیے جب بھی بجٹ بنتا ہے خسارے کا بنتا ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے بجائے کرپشن کم کرنے کے، وہ دائیں ، بائیں اوپر نیچے سب سے قرض لینا شروع کر دیتی ہے۔ مطلب یہ کہ وہ پاکستانی بینکوں سے اور غیر ملکی حکومتوں اور عالمی اداروں سے قرض لیتی ہے۔ پھر اپناکا م چلاتی ہے۔بجٹ میں سب سے بڑی رقم تو پہلے سے لیے گئے قرضوں کی قسطیں ادا کرنے پر خرچ ہوتا ہے۔ اس کے بعد محکمۂ دفاع کے اخراجات جو ہر سال بڑھ گئے ہوتے ہیں۔پھر انتظامیہ اور صوبوں کی ضروریات۔ بچی کھچی رقم سے محکمۂ صحت ، تعلیم اور معاشرتی کاموں پر دیا جاتا ہے، وہ بھی ایسے کہ بجٹ میں مختص کیا جاتا ہے لیکن محکمہ مال کے افسران اس پیسے کو یا بالکل جاری نہیں کرتے یا اتنی دیر سے کہ اس کے استعمال کا موقع ہی ضائع ہو جاتا ہے۔
اب آپ سمجھ ہی گئے ہوںگے کہ غریبوں کی مدد کے پروگراموں کی باری کہاں سے آئے گی؟ اگر ایسے پروگرام ہیں بھی تو وہ بجائے غریبوں کے، سیاسی کارکنوں میں پہلے امداد تقسیم کرتے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ملک کہا جاتا ہے لیکن اس میں اسلام پر عمل کم ہی ہوتا ہے۔ ورنہ اسلام میں جو احکامات ہیں اگر ان پر عمل کیا جائے تو کوئی بھی کنبہ کم از کم رات کو بھوکا نہ سوئے۔پتہ نہیں ذکات کا پیسہ کہاں جاتا ہے؟ صدقہ ، فطرہ اورخیرات کا پیسہ کہاں استعمال ہوتا ہے، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ جہاں تک گداگروں کا تعلق ہے ، ان میں سے کتنے واقعی ضرورت مند ہیں اور کتنے پیشہ ور، یہ کیسے پتہ چلے؟ زیادہ غریب لوگ تو مانگتے بھی نہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کہیں مزدوری مل جائے اور چار پیسے مل جائیں؟ورنہ جو نفسا نفسی کا عالم ہے، غریبوں پر غزہ کے فلسطینیوں کی طرح بم تو نہیں پھٹتے، یہ صرف آہستہ آہستہ بھوک سے مر رہے ہیں۔ آخر آبادی کے بے تحاشہ بڑھنے کے وہ نتائج آ رہے ہیں جن کی وارننگ چالیس ، پچاس سال پہلے دی گئی تھی۔طامس مالتھئس نے کہا تھا کہ اگر آبادی بے روک ٹوک بڑھتی رہی تو قدرت اسے قحط، فصلوں کی تباہی اور مہلک بیماریوں سے کم کرے گی۔اور اب وہ وقت آ گیا لگتا ہے۔مالتھس نے اسے آبادی کا بم کہا تھا جوپاکستان میں پھٹنا شروع ہو گیا ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ کرپشن ہے، جو سرکاری اداروں میں گھن کی طرح لگ چکی ہے۔ جس پیسے سے غریبوں کو روزگار مل سکتا تھا وہ ان ملازمین کی جیبیں گرم کر رہا ہے۔خیر، یہ دردناک کہانی ہم پہلے بھی کئی دفعہ سنا چکے ہیں۔
آج غریبوں کا ذکر کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، جو کہ عالمی بینک جیسے معتبر ادارے نے شائع کی ہے، پاکستان کے 45فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے ہیں۔ یہ کارنامہ شہباز شریف اور اس سے پہلے جو غیر سیاسی حکومت تھی، ان کا ہے۔ یعنی عمران خان کی حکومت کے بعد سے۔ جو لوگ شدید غربت کا شکار ہیں ان کا تناسب تقریباً5 فیصد سے بڑھ کر ساڑھے سولہ فیصد ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس تبدیلی کی وجہ میں وہ پیمانہ بھی ہے جو اب ۳ ڈالر ہو گیا ہے اور پاکستانی روپے کی قیمت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔اس سے قبل یہ پیمانہ دو ڈالر پندرہ سینٹ تھا۔لیکن یاد رہے کہ اسی اثنا میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔جو غربت کی لکیر پہلے تھی وہ چار ڈالر بیس سینٹ تھی اس کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریباً چالیس فیصد سے بڑھ کر تقریباً 45فیصد ہو گئی ہے۔اس تبدیلی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غربت کی سطح میں تبدیلی ہے لیکن اس کے رحجان میں نہیں۔نئے معیار کے مطابق روزآنہ آمدنی 1,176روپے سے کم ہو تو وہ شخص غربت کی نئی لکیر کے نیچے تصور ہو گا۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس قومی جائزے کی بنیاد پر یہ حکم لگائے گئے ہیں وہ 2018ء اور 2019 میں کیے گئے تھے۔اب نیا جائزہ لیا جا رہا ہے۔جس سے گذشتہ بیس سال کے حالات کا پتہ چلے گا۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح 6.2فیصد اتنی کم ہے کہ اس سے غریوں کی زندگی میں کوئی اثر نہیں پڑتا۔اور آبادی کی افزائش سے ہر سال 19لاکھ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ملک کی معیشت زراعت سے چلتی ہے، اس سال بارشیں چالیس فیصد کم ہوئی ہیں۔اگر غریبوں کی نصف تعداد زراعت میں کام کرتی ہے تو ان کی آمدنی میں اور بھی کمی ہوئی۔خوراک کی کمی کا سب سے برا اثر دیہی علاقوں میں ہو گا جہاں غریبوں کی تعداد زیادہ ہے۔اندازے کے مطابق ایک کروڑ غریب اس کمی سے متاثر ہونگے ۔اسی طرح تعمیراتی کام میں کمی سے 17 فیصد غریب لوگ جو مزدوری کرتے ہیں، متاثر ہو نگے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سال باہر سے آنے والی ترسیلات میں 33 فیصد اضافہ ہوا ، لیکن ان دیہی غریبوں کو صرف 2.3 فیصد ترسیلات ملتی ہیں۔ جو لوگ خط غربت سے اوپر ہیں ان کو ان بیرون ملک ترسیلات سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ان حالات میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہی غریبوں کا ایک سہارا رہ جاتا ہے۔تحریک انصاف نے جتنے پروگرام غریبوں کی امداد کے لیے چلائے تھے وہ سب بند ہو چکے ہیں۔
اگر حکومت کو یہ باتیں بتائیں تو بھلا کیا جواب ملے گا؟ جی۔ ہم اس مشکل میں اکیلے نہیں۔ ہمارے ہمسائے میں بھی بڑی غربت ہے۔ اب چلیے، ہمسایہ میں بھی جھانک لیں۔
غربت جانچنے کا ایک پیمانہ ہے اسے گنی (Gini Index) کہتے ہیں۔ یہ پیمانہ آمدنی میں فرق کو پرکھتا ہے۔ اگر یہ فرق بالکل نہ ہو یہ0 ہو گا اور فرق اگر بالکل سب سے زیادہ ہو تو یہ1ہو گا۔مطلب ہے کہ یہ صفر سے جتنا قریب ہو گا، اتنا ہی اچھا تصور کیا جائے گا۔ بھارت میں غریبوں کی تعداد پاکستان سے زیادہ ہے لیکن پاکستان میں غربت کی لکیر کے نیچے آبادی کے تناسب سے زیادہ لوگ ہیں۔ مثلاً بھارت میں 4.33 کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے ہیں (جتنی پاکستان کی کل آبادی ہے)۔ پاکستان 3.9کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے ہیں۔پاکستان میں، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 45فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے ہے اس کے مقابلہ میں بھارت کی صرف 3.5فیصد آبادی اس لکیر کے نیچے تھی۔ایک رپورٹ کے مطابق۔ بھارت نے پچھلی دہائی میں انتہائی غربت کو 2.16 فیصد سے کم کر کے 3.2فیصد پر پہنچا دیا۔ اس طرح سے17 کروڑ انسانوں کو انتہائی غربت سے باہر نکالا۔دیہی علاقوں میں غربت 4.18فیصد سے کم کر کے 8.2 فیصد کر دیا۔ اور شہری علاقوں میں، 7.10فیصد سے کم کر کے 1.1فیصد پر لے آئی۔ اس سے اوپر کی سطح پر، بھارت نے تقریباً 38کروڑ لوگوں کو غربت سے نجات دلائی۔بھارت کے مفلس پانچ صوبوں میں ہیں، جنہیں بیمارو صوبے کہتے ہیں۔ یعنی بہار، مغربی بنگال، اتر پردیش، مہاراشٹرا، اور مدھیہ پردیش۔ جن میں 65 فیصد انتہائی غریب رہتے تھے۔ اور ان میںغربت میں دو۔تہائی کی کمی ہوئی۔اگرچہ ملک میں عورتوں کی کام کرنے والی افرادی قوت میں 31 فیصد کا حصہ ہے، لیکن یہ جنسی تفاوت ابھی بھی زیادہ ہے۔سکول کی عمر کا کم از کم ایک بچہ سکول میں نہیں۔ 8.13فیصد بالغوں نے بنیادی تعلیم مکمل نہیں کی۔ فیصد کو بنیادی ٹٹی کی سہولت نہیں۔ پاکستان میں یہ اعداد و شمار کوئی زیادہ بہتر نہیں۔
غربت کو امریکی ڈالر سے نانپنا کافی سوالات بھی کھڑے کرتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں ایک ڈالر کے 280روپے بنتے ہیں۔ اس میں کو ئی شخص روز مرہ کی ضروریات کس حد تک خرید سکتا ہے؟اس میں آٹا، چینی، چائے کی پتی، دودھ، سبزی اور دالیں، شامل کر لیں تو یہ رقم کافی نہیں پڑے گی۔ اگر نئے پیمانے کو استعمال کریں تو ایک ہزار ایکسو چیھتر(1.176) روپے میں یہ سودا تو خرید لے گا لیکن پھر ایندھن،بجلی کا بل،مکان کا کرایہ، دوا دارو، کپڑے، اور سکول کی کتابیں، وغیرہ کہاں سے پورا کرے گا؟اس کے لیے وہ لا محالہ کہیں نہ کہیں کاٹی تو مارے گا، جیسے بچوں کو سکول سے اٹھا لینا، دوا دارو نہ کرنا، کپڑے جوتے مانگے تانگے کے پہن لینا یا انہی کو مرمت کرتے رہنا، وغیرہ۔ اگر کبھی کوئی مزدوری مل گئی تو اس سے باقی ضروریات کو پورا کرنا۔ بیٹیوں کی جلد از جلد شادی کر دینا بھی اس تنگدستی سے نبٹنے کا ایک طریقہ ہے۔اور بیٹوں کو چھوٹی عمر سے ہی کسی دوکان، کارخانے یا مرمت کرنے والے کے پاس شاگردی میں دے دینا بھی اس میں شامل ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں غربت بجائے گھٹنے کے، بڑھ کیوں رہی ہے؟ اس سوال کے جواب کئی اطراف سے دیکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے تو آبادی کی افزائش کی تیز رفتاری ہے، جس پر حکومت کی نا اہلی اور کرپشن نے کم ہونے سے روکا۔ حکومت نے مذہبی رہنمائوں کو بجائے سمجھانے کے، فیملی پلاننگ پروگرام پر کبھی کھل کر حمایت نہیں کی۔ پاکستان کے مقابلہ میں انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور کئی اسلامی ممالک نے حکومتی حکمت عملی کو پُر زور طریقے سے بڑھایا۔اور پیدائش کی شرح کم کی۔اب بہت وقت گزر چکا ہے کہ ملائوں سے پوچھا جائے کہ ان کی مخالفت سے جو حالات پیدا ہو گئے ہیں، ان کا کیا جواب ہے؟
کسی بھی ملک میں صنعتی ترقی اور خدمات کے شعبے ملازمت کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔لیکن پاکستان میں صنعتی ترقی کی رفتار بہت سست ہے کیونکہ سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری جائیدادوں ، زمینوں اور سٹاک مارکیٹ میں لگاتے ہیں بجائے بزنس اور صنعتیں لگانے کے۔ ایک بڑا مسئلہ ایک تہائی یا اس سے زیادہ آبادی کا تعلیم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ اور جوتھوڑا بہت پڑھ لیتے ہیں ان کو کوئی ایسا ہنر نہیں آتا جس سے وہ کوئی روزگار لے سکیںیا کاروبار کر سکیں۔ پاکستان کی اشرافیہ نے حالات ہی ایسے پیدا کیے کہ لوگوں میں تعلیم کا رحجان ہی نہ بنے۔ غالباً اسی لیے کہاگیا پڑھ لکھ گئے تو ان میں اپنے حقوق کا احساس پیدا ہو گا اور وہ انسانی حقوق مانگ سکیں گے۔اب اس سے اچھا کیا ہے کہ یہ غیر تعلیم یافتہ افراد ، جو جسمانی طور پر زندہ لاشیں ہوں گی، ان کے جسمانی مشقت والے کام کریں گی۔ اور بچے جو پستہ قد اور خوراک کی کمی کے باعث، پوری عقل بھی نہیں رکھتے، ان کے لیے بہترین ملازم بنیں گے۔اگر تو یہ واقعی کوئی حکمت عملی ہے، جسے ہمارے جاگیر دار سیاستدان اسمبلیوں میں بیٹھ کر چلا رہے ہیں تو پھر اس ملک میں نہ خوشحالی آئے گی اور نہ ہی ترقی۔جو قوم افرادی قوت کو ناکارہ بنائے وہ کبھی بھی ترقی کا خواب پورا نہیں ہونے دے گی۔

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button