0

ایٹم بم اور کچھ دوسرے خطرناک حقائق

پیارے پاکستانیو۔ یہ راقم ایک عرصہ سے اپنے کالموں کے ذریعہ سمجھانے کی سعی لا حاصل میں مصروف ہے کہ پاکستان کے مسائل کی جڑیں کہاں ہیں؟ اب عمران خان کے مصائب کا بھی سن لیں۔ یہ سب پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروںکا کیا دھرا ہے۔وہ کیسے؟
بات شروع کہاں سے ہوتی ہے؟ یہ بنی اسرائیل کی قوم یہود کی کہانی ہے۔ یہود کے ساتھ ہر جگہ عناد کیا گیا، جس کی ایک مثال حضرت عیسیٰ کی تھی جنہوں نے بیت المقدس میںجا کر یہود کی کرنسی تبادلہ کے کاروبار الٹا دئیے تھے اور انہیں معتوب قرار دیا تھا کہ یہ خانہ خدا میں بجائے عبادت کے، کرنسی کا کام کرتے تھے۔یہ بات ان کو بالکل پسند نہیں آئی اور انہوں نے رومن گورنر سے جا کر شکایت کی کہ یسوع مسیح کو صلیب پر چڑھایا جائے۔ چنانچہ رومن گورنر نے یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے، حضرت عیسٰی کو صلیب پر چڑھا دیا۔ لیکن اس سے پہلے حضرت عیسیٰ اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا چکے تھے، جو ان کے حواریوں نے پھیلانا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ عیسائیوں کی تعداد بڑھنی شروع ہو گئی۔
یہود جو یورپ میں آباد تھے، ان کو نازی پارٹی نے مارا۔ اس لیے کہ جنگ عظیم اوّل کے بعد اتحادیوں نے جرمنی پر بہت بھاری تاوان لگا دیا۔ اس وقت نازی پارٹی طاقت میں آ چکی تھی اور ان کو تاوان کی رقم دینی تھی۔ جب انہوں نے خالی خزانہ دیکھا تو پتہ چلا کہ پیسہ تو سارا یہودیوں کے پاس ہے۔ ہٹلر نے فیصلہ کیا کہ ان سے یہ پیسہ اور دولت چھین کر تاوان کی رقم اد کی جائے ۔ اس طرح، یہودیوں کی جائدادوں کو لوٹا گیا اور بحق سرکار ضبط کیا گیا۔ اس کشمکش میںبہت سے یہودی مارے گئے۔لیکن معاملہ اوربگڑ گیا اور دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی ۔ یہودی جرمنی سے بھاگے اور کچھ یورپ میں چلے گئے اور کچھ امریکہ میں ۔ یہ بربادی بہت سخت تھی۔ اس کو آئندہ روکنے کے لیے یہود ی علماء اور مشائخ نے ایک کونسل بنائی جس نے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس منصوبہ میںسب سے اہم فیصلے یہ تھے کہ یہودیوں کو یورپ اور امریکہ کے نظام تعلیم میں جو ان پر جرمنی میں ظلم کیا گیا اس کی تعلیم دی جائے، اس پر ہالی ووڈ میں فلمیں بنائی جائیں، کتابیں لکھی جائیں اور علمی نصاب میں شامل کیا جائے ، تا کہ بچوں میں اور بڑوں میں ان پر ظلم کی دردناک داستانیں رقم ہو جائیں اور لوگ ان کی مظلومیت پر ترس کھائیں۔ یہودیوں نے ایک کہانی گھڑ لی کہ ان کے ساٹھ لاکھ افراد کو ہٹلر نے مروایا۔ یہ تعداد اتنی مرتبہ دہرائی گئی کہ اس کو سچ سمجھا جانے لگا۔اسی منصوبہ کے مطابق ، یہودیوں نے اپنے بچوں کوطب،وکالت، اور بینکاری کی تعلیم لینے کی پالیسی بنائی۔ اس کے علاوہ ایک بڑی کوشش کی کہ ذرائع ابلاغ میں ان کا غلبہ ہو۔ہالی وڈ اور نیو یارک میں فلمیں بنانے کا ہنر بھی لیا اوراس پورے شعبہ کو قابو میں کرلیا، ذرائع ابلاغ میں اخبار، رسالے ، ریڈیو اور ٹی وی سب پر یہ حاوی ہو گئے۔جب ان کی اولادیں تعلیم حاصل کر لیتی تھیں تو ان کو ایسی جگہ ملازمت کرواتے تھے جہاں وہ حکومت کے مختلف شعبوں میں قیادت حاصل کر سکیں۔اس سارے منصوبے کو نہایت خاموشی کے ساتھ اور صبر کے ساتھ عمل پیرا کیا گیا ۔ اس کام میں ان کی عبادت گاہیںبہت کام آئیں جہاں انہیں سلیقہ سے جستہ جستہ احکامات دئے جاتے تھے۔ان پر عمل کرنا، بلا چوں وچرا ، ہر یہودی کا فرض تھا۔یہ کام ابھی بھی جاری و ساری ہے۔
ان یہودیوں کی اول ترجیح امریکہ کی حکومت کو قبضہ میں کرنا تھا۔ انہوں نے نہ صرف ایک منصوبہ کے مطابق تمام حکومتی محکموں میں اپنے بندے لگوائے جو اس محکمہ کی چیدہ چیدہ کرسیوں پر یہودی نسل کے قابل کارکن لا کر بٹھاتے تھے۔اس کے علاوہ انہوں نے پورے امریکہ میں یہودی مفادات کی دیکھ بھال کے لیے ایک قومی سطح پر گروہ بنایا جسے امریکہ اسرائیل سیاسی عمل کی لابی (AIPAC) کی ذمہ واری سونپی گئی۔ یہ گروہ اپنی ہدایات اسرئیل سے براہ راست لیتی ہے اور اس کو اپنے سارے ملک میں پھیلے ہوئے نظام کے ذریعے عمل درآمد کرواتی ہے۔اس کے لیے ایک نظام کے تحت یہ سینیٹ، ہائوس اور مقامی حکومتوں کے تمام سیاسی امیدواروں کو نہ صرف نقد اس کے ساتھ ساتھ میڈیا میںپوری سپورٹ دلواتی ہے جس سے وہ امیدوار جیتنے کے بعد ان کے غلام بن جاتے ہیں۔
یہ تھا ایک مختصر جائزہ۔ یہودیوں نے امریکہ کے ساتھ ساتھ یوروپین ممالک میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ اور 1948میں انہی کی مدد سے اسرائیل کی ریاست بنائی۔ یہودی بضد تھے کہ ان کی پہلی ریاست فلسطین میں بنے گی۔ چنانچہ یہی کیا گیا۔ عرب ریاستوں اور فلسطینیوں کویہ زبردستی کی تقسیم پسند نہیں آئی جس میں سات لاکھ پچاس ہزار فلسطینی بے گھر ہو گئے۔ پانچ عرب ریاستوں نے اسرائیل پر حملہ کر دیا لیکن اسرائیلی بہادری سے لڑے بلکہ کچھ عرب علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا۔یہ سب کچھ 1948میں ہی ہو گیا۔ اس ریاست کو امریکہ نے گود لے لیا۔ پھر امریکہ اور یوروپ نے ملکر اس کو ایک مضبوط فوجی ملک بنا دیا۔ اس لیے کہ یہودیوں کو یہ خوف کھائے جاتا تھا کہ عرب، خصوصاً فلسطینی ان پر حملے کریں گے اور ان کا وجود ختم کر دیں گے۔اسرائیل اور عربوں کی دوسری جنگ 1959میںسوئز کنال پر ہوئی جس میں اسرائیل نے مصر پر حملہ کر دیا،اور برطانیہ اور فرانس بھی جنگ میں شامل ہو گئے لیکن مصر کوروس کی حمایت ملنے پر جنگ رک گئی۔         1967میں مشہورِ زمانہ اسرائیل اور عربوں کی جنگ ہوئی جو چھ دن میں بند ہو گئی۔اس جنگ میں عربوں کو حزیمت اٹھانا پڑی اور بہت سے علاقے ان سے چھن گئے۔ 1973 میں یوم کپور اور رمضان کی تیسری جنگ اسرائیل اور عربوں میں ہوئی۔ اس جنگ کے بعد امریکہ نے مصر اور اسرائیل کے درمیان امن کا معاہدہ کروایا جس میں اردن بھی شامل تھا۔ اس معاہدے سے ان تینوں ملکوں کو مالی فائدے پہنچے اور وہ چپ کر کے بیٹھ گئے۔ان جنگوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کے پاس غزہ کا ایک علاقہ بچا یا مغربی کنارہ۔ غزا میں حماس کی حکومت بن گئی اور مغربی کنارے میں یاسر عرفات کے حامیوں کی۔لیکن اسرائیلیوں کو یہ دونوں علاقے نا پسند تھے۔ نیتن یاہو نے اپنے منصوبے کے مطابق، غزہ کو فلسطینیوں سے پاک کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ایک سال میں اس کو تہس نہس کر دیا۔ اس جنگ میںحماس کو سزا دینے کی آڑ میں، اس نے 45ہزار فلسطینی شہید کر دئیے اور لاکھوں زخمی اور تقریباً سب بے گھر، بے آسرا، پانی، خوراک اور دوا، دارو سے محروم۔دنیا بھی اب اسے نسل کشی کا نام دیتی ہے۔
اگر چند لفظوں میں اس تاریخ کا کچھ نتیجہ نکلتا ہو تو وہ اس راقم کے خیال میںایک ہی ہے اور وہ یہ کہ یہودیوں کو ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ عرب اور مسلمان ان پر دوبارہ ایک بڑا حملہ کریں گے جو وہ سنبھال نہیں سکیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے ایٹم بم بنا لیے ہیں، جس کا تجربہ کچھ سال پہلے انہوں نے جنوبی افریقہ کے سمندر میں کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک سو سے زیادہ یہ بم ہیں۔ لیکن وہ ان کو استعمال تو کر سکتے ہیں لیکن اس کے جواب میں اگر ایک ایٹم بم بھی اسرائیل پر داغ دیا گیا تو یہ چھوٹا سا ملک ختم کیا ملیا میٹ ہو جائے گا۔ اور ان کو جس ملک سے اس بات کا ڈر ہے وہ ہے، آپ سمجھ ہی گئے ہونگے، وہ ہے پاکستان۔ جب تک پاکستان کی حکومتیں اور فوج ان کے قابو میں ہیں وہ با حفاظت رہ سکتے ہیں۔ اس لیے وہ امریکہ کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہیں، اور پاکستان میں کوئی ایسی حکومت نہیں بننے دیتے جس سے یہ خطرہ بڑھ جائے۔
اگر قارئین ، آپ نے یہ ساری داستان پڑھ لی ہے تو آپ سمجھ گئے ہو نگے کہ اسرائیل کسی قیمت پر عمران خان کو پاکستان کا حکمران نہیں بننے دے گا کیونکہ عمران خان وہ کرشماتی شخصیت ہے جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل موہ لیے ہیں۔ اگر وہ دوبارہ وزیر اعظم بن جاتا ہے تو اس کے حکم پر ایٹم بم کسی بھی گروہ کو دیا جاسکتا ہے، جو اسے کہیں بھی پہنچا سکے۔ اس لیے، اس کا اس صفحۂ ہستی سے مٹا دینا اسرائیل کی پہلی اور شدیدخواہش ہے، جسے پاکستانی فوج کو پورا کرنا ہے۔ چونکہ عمران خان پاکستانیوں کاہر دلعزیز قائد ہے، فوج کے لیے یہ آسان نہیں۔ اس ناجائز کام سے بچنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ خان خود راستے سے ہٹ جائے ۔ یہ وہ کرے گا نہیں۔ اسے مرنا قبول ہے لیکن کسی سازش کا حصہ بننا نہیں۔
اس ناچیز کو، خان کو مارنے کے علاوہ، تو ایک ہی حل نظر آتا ہے ، کہ یا تو پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیار بیچ کراپنے قرضے اتار لے، یا پھر ایک دو بم استعمال کر لے۔آپ کا کیا خیال ہے؟ جب تک پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کو گلے سے لگا کربیٹھا رہے گا، دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتا رہے گا اور اس کی مالی ترقی رکی رہے گی۔رہا مسئلہ بھارت کا۔ اس نا چیز کی رائے میں بھارت پاکستان پر فوجی قبضہ نہیں چاہتا۔ وہ تو نواز شریف جیسی کوئی بے ضمیر اور کوڑھ مغز حکومت چاہتا ہے تا کہ اس کے تجارتی مقاصد پورے ہو سکیں، اور بھائی چارے کی فضا بن سکے۔جب تک پاکستانی بھارت کی مرضی کے کا م کرتے رہیں گے ان کو پاکستان پر حملہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر پاکستانی فوج غلام نہیں، تو کیا وہ امریکی دبائو کو رد کر سکتی ہے؟ کیا اس میں اتنی جرات ہے کہ وہ امریکہ سے ملنے والی مراعات، مالی فوائد ، اور دیگر تحائف کو ٹھکرا کر عمران خان کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اسلامی دنیا کا قائد بنانے پر تیار ہو جائے؟ ہمارا خیال تو ہے کہ ہاں، ایسا ہو سکتا ہے لیکن وہ ایک لالچی، خود غرض اور ہوس کی پجاری فوج ہے۔ وہ ساٹھ سال سے اپنی بہتری پر کام کر رہی ہے، اس کو پاکستان کی بہتری تب ہی نظر آتی ہے جب اس میں اس کا بھی کوئی فائدہ ہو۔ اس لیے خان کو قربان کر دینا اس کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی فتنہ دفساد ہوتا ہے تو وہ ایک عارضی معاملہ ہو گا، جیسا کہ بینظیر کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔شاید اتنا بھی نہ ہو۔ پنجابی اتنے غیرت مند بھی نہیں جتنے کے سندھی تھے۔
اگر فوج پاکستان کا سوچے اور اپنا نہ سوچے، اور ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائے، اس پر اگر امریکہ بندشیں لگائے تو قوم انکو بھی برداشت کر لے گی۔ البتہ فوج امریکہ کو یہ یقین دہانی تو کروا سکتی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کبھی بھی اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہو نگے اور نہ کسی اور ملک کے۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے دوسروں کو حملہ سے باز رکھنا (deterrent) ۔ دوسرا یہ کہ خان اگر اسلامی دنیا کی قیادت لیتا ہے تو اس کا مقصد اسلامی ملکوں کی اقتصادی اور معاشی ترقی ہو گا نا کہ کسی بھی ملک پر جارحانہ کاروائی۔اگر ایسا ہو تو مغرب کے پاس اتنی فوجی قوت تو ہے کہ وہ کسی بھی ایسی کاروائی کو دبا سکیں۔اس لیے ، فوج کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ پاکستان کے حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ ان کو خان ہی سنبھال سکتا ہے۔ورنہ بلاول کیا کرے گا، اس سے فوج بھی اپنی مرضی کے کام نہیں کروا سکے گی اور معیشت بالکل ڈوب جائے گی۔ فوج اس قدر بد نام ہو چکی ہے کہ عوام سے کسی بھی تعاون کی امید رکھنا حماقت ہو گی۔اللہ بس، باقی ہوس ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں