بشارالاسد خاندان کے چون سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد شام میں علاقائی اور عالمی طاقتوں نے اپنے قدم جمانے کے لیے سفارتی کوششیں شروع کر دی ہیں۔دمشق سے روس اور ایران کی رخصتی نے طاقت کے جس خلاء کو جنم دیا ہے اسے پُر کرنے کے لیے امریکہ اور ترکیہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن اردن میں خلیجی ممالک سے صلاح مشورے میں مصروف ہیں اور وائٹ ہائوس کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیون اسرائیل میں نتن یاہو حکومت سے گفت و شنید کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کی توجہ کے مرکز دمشق میں ایک طرف اسد آمریت کے ستائے ہوے لوگ جشنِ آزادی منا رہے ہیں تو دوسری طرف فاتح باغی گروپ ہیئت تحریر الشام اقتدار کی راہداریوں میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسکے راستے میں بظاہر تو کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی مگر شام کی تباہ حال معیشت اور اسکے کئی علاقوںپر مختلف عسکری تنظیموں کے قبضے نے اسے ایک ایسا ملک بنا دیا ہے جس پر حکومت کرنا چو مکھی جنگ لڑنے والی بات ہے۔ مشرق وسطیٰ کا ہر وہ ملک جو اسرائیل کا ہمسایہ ہے آجکل سخت اندرونی خلفشار اور بیرونی مداخلت کے نرغے میں ہے۔آٹھ دسمبر کو دمشق سے روسی طیارے میں بشارالاسد کے فرار ہونے کے فوراًبعد اسرائیل نے شام کی فوجی تنصیبات پر فضائی حملوں کا جو سلسلہ شروع کیا وہ اب تک جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے گزشتہ چند دنوں میں سینکڑوں حملے کر کے شام کی فضائی اور بحری طاقت کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے اور اسکے ساتھ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوے گولان کی پہاڑیوں کے اس حصے پر بھی قبضہ کر لیا ہے جو 1974 میں شام‘ اسرائیل معاہدے کے بعد ایک بفر زون کے طور پر اقوام متحدہ کی افواج کی زیر نگرانی ہے۔ اب گولان پہاڑیوں کی بلند چوٹیاں اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ اس جگہ سے ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع دمشق اب اسرائیلی توپوں کے نشانے کی زد پر ہے۔
ہئیت تحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع جو ابو محمد الجولانی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں نے ہفتے کے روز شام کے ایک نجی ٹیلیویژن چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل کے پاس اب شام کے خلاف جارحیت کا کوئی جواز نہیں رہا۔ الشرع نے شام کی تیرہ سالہ خانہ جنگی کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ ان کے ملک کو امن اور ترقی کی ضرورت ہے اور وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ گفت وشنید کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ نظر یہ آ رہا ہے کہ الشرع کو اپنے امن ایجنڈے پرکام کرنے کے لیے امریکہ سے لین دین کرنا ہو گی۔ شام کے تیل اور گیس کے بیشتر ذخائر اس کی مشرقی سرحد پر واقع شہر دیرلزور میں ہیں۔ یہ علاقہ گذشتہ تیرہ برسوں سے امریکہ کی سرپرستی میں چلنے والی کرد تنظیم سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے قبضے میں ہے۔ الجزیرہ ٹیلیویژن کی رپورٹ کے مطابق امریکہ تیل کی اس دولت کا سب سے بڑا شراکت دار ہے۔ احمد الشرع کو امریکہ نے2013 سے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ اسوقت الشرع القاعدہ کے سر گرم رکن تھے۔ بعد ازاں وہ داعش میں شامل ہو گئے تھے لیکن ابو بکر بغدادی سے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے الشرع نے داعش کو چھوڑ کر جنوری 2017 میں کئی عسکری گروہوں کو ملا کر ہیئت تحریر الشام قائم کی تھی۔صدر ڈونلد ٹرمپ نے 2018میں ہیئت الشام کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر احمد الشرع کے سر کی قیمت دس ملین ڈالر مقرر کی تھی۔ اب نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے بارے میں کی ہوئی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے Do Not Get Involved بائیڈن انتظامیہ کی مشرق وسطیٰ میں حالیہ سفارتی سرگرمیاں ایک مختلف کہانی سنا رہی ہیں۔ یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ امریکہ کئی ماہ پہلے سے ترکی کے ذریعے ہیئت تحریر الشام کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ حقان فدان نے چودہ دسمبر کو مقامی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ انکی حکومت نے دوحہ مذاکرات میں روس اور ایران کو بشار الاسد کی حمایت سے دستبردار ہونے کا مشورہ دیا تھا اور شام کو ایک نئی خانہ جنگی سے بچانے کے لیے بشار الاسد کی محفوظ رخصتی کی ضمانت دی تھی۔ حقان فدان کے مطابق روس اور ایران کے نمائندوں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا کہ اب دمشق میں رہنا انکے لئے ممکن نہیں رہا۔ شام کے حالات میں اس جوہری تبدیلی کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ روس کی بحیرہ روم میں اکلوتیNaval Base شام کے شہر طرطوس میں واقع ہے۔ یہ بندر گاہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میںکئی برسوں سے روس کی طاقت کے استعمال کا ذریعہ چلی آ رہی ہے۔ مغربی میڈیا کے مطابق روس نے تیرہ دسمبر کو یہاں سے اپنے بحری جہاز ہٹا لئے ہیں۔ روس کے اس بندر گاہ پر واپسی کے امکانات اس لیے کم ہیں دمشق کی نئی حکومت خلیجی ممالک سے کثیر سرمایہ کاری کی امید رکھتی ہے اور یہ ممالک طویل عرصے سے بشار الاسدکو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ قطر سے ترکیہ کے راستے یورپ تک گیس کی نئی پائپ لائن کا معاہدہ کر لے۔ اس سے روس کے مفادات کو شدید نقصان پہنچ رہا تھا اس لیے بشارلاسد راضی نہ تھے۔اب احمد الشرع کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ترکی اور خلیجی ممالک کے دست تعاون کو نظر انداز نہیں کر نا چاہتے۔ شام کے سنی عرب ممالک کے اتحاد میں شامل ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ روس اور ایران کے دائرۂ اثر سے آزاد ہو جا ئیگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے اس نئے توازن پر کیسے اثر انداز ہو تا ہے۔
0