ہفتہ وار کالمز

ایران کی خیر ہو

اسرائیل کی تازہ جارحیت اور غارت گری نے دنیا میں جنگوں کا ایک نیا اور جدا کلچر متعارف کرا دیا ہے۔اگرچہ اسرائیلی ریاست امریکہ اور اپنے یورپی حمایتیوں کی شہ پر اس طرح اور اس طرز کی مشق ستم فلسطین، لبنان، شام پر آزماتی چلی آرہی ہے اور اکتوبر 2023ء کے بعد سے شروع کر کے آج تک غزہ کو ملیا میٹ کرنے میں مصروف ہے۔ غزہ میں اس کے غیر انسانی جرائم پر دنیا بھر کے پرامن شہریوں نے شدید احتجاجی مظاہرے بھی کئے ، لیکن امریکہ اور یورپ سمیت کسی ملک کے شہری اپنی حکومتوں کو اس بات پر آمادہ نہیں کر سکے کہ وہ اسرائیل کا گریبان پکڑ کر اسے مظالم سے روک سکیں۔ اسی پس منظر کے ساتھ اس سال چھ مئی کو اسرائیل کی شہ پر ہندوستان کے انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کو "غزہ” اور خود کو اسرائیل تصور کرتے ہوئے پاکستان کے سول ٹارگٹس پر میزائل اٹیک لانچ کر دیا۔پاکستان کے چھ یا نو مقامات کو نشانہ بناتے ہوئے ہندوستان نے جواز پیش کیا کہ انہوں نے صرف دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس کو تباہ کیا ہے۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ ؛انتہا پسند ہمیشہ اپنے ملک کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں ۔یہاں بھی یہی ہوا ، اور پاکستان کے موثر اور شافی جواب نے آج ہندوستان کو دفاعی قوت کے اعتبار سے ٹکے سیر سے بھی سستا ملک بنا کر رکھ دیا ہے ۔ اس واقعے سے کچھ سیکھنے کی بجائے اسرائیل نے ایران جیسے آزاد و خودمختار ملک پر ،تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پیہم حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ جس رات اسرائیلی حملے شروع ہوئے ،اس رات میری اس معاملے پر بے چینی عروج پر تھی اور میں رات بھر باخبر یا ان معاملات سے دلچسپی رکھنے والے دوستوں سے سوشل میڈیا پر بات چیت کرتا رہا۔عمومی تاثر یہ تھا کہ،چونکہ ایران کے امریکہ کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں اور اتوار کے روز مذاکرات کا اہم دور ہونے والا ہے ،اس لیے اسرائیل یہ جلد بازی نہیں کرے گا۔لیکن اسرائیل کوئی ملک تو ہے نہیں ، اسرائیل ایک ایسا منہ اور جسم ہے، جسے امریکہ اور مسیحی ممالک نے شرق اوسط کے مسلمانوں کو طعن و دشنام ، گالی گلوچ اور بوقت ضرورت دھول دھپا کرنے کے لیے بنایا ہوا ہے۔اسرائیل کے ایران پر حملے نے، آزاد و خودمختار ممالک کی جغرافیائی حدود کی پامالی کے طریقے کو رائج کر دیا ہے۔ اس جنگ کا آغاز حریف ملک کے دفاعی کمانڈ اینڈ کنٹرول سے متعلق اہم ترین عہدے داروں کے منظم قتل عام سے کیا گیا ہے ۔یہ شاید دنیا کی پہلی جنگ ہے جس میں پہلے ہی گھنٹے میں کسی ملک کے اہم ترین فوجی عہدے داروں کو ان کے اپنے گھروں کے اندر قتل کر دیا جائے۔ اسرائیل نے نو اعلیٰ فوجی افسران اور چھ اہم ترین ایٹمی سائنسدان دہشت گرد حملوں میں قتل کر دیئے تھے ۔یہ جنگ نہیں ، دہشت گردی کے واقعات کا منظم تسلسل ہے ۔ان واقعات میں اسرائیل اور مبینہ طور پر ہندوستان کے پاسپورٹ پر قیام پذیر دہشت گرد ملوث تھے یہ دہشت گرد تربیت اور جدید ترین ڈرونز سمیت ایران میں داخل کئے گئے تھے۔دنیا کو جنگ اور دہشت گردی میں تمیز کرتے ہوئے اسرائیل کے دہرے جرائم کو تسلیم کرنا چاہیے ۔یہاں ایک اہم بات ایران کو بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ہندوستان کی اصل دوستی اسرائیل کے ساتھ رہی ہے اور ہے بھی۔ایسے میں وہ ایران کے ساتھ مخلص کیسے ہو سکتا تھا اور ہو سکتا ہے۔ایرانیوں نے ہندوستانیوں کے ہاتھوں اس جنگ کی ابتدا میں کافی ٹھوس نقصان بھی اٹھا لیا ہے۔ ہندوستان نے ایران کے اعتماد سے یہی فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے اندر اسرائیلیوں کی رسائی ، دخول،قیام اور بوقت ضرورت دہشت گردی کے آپریشن کرنے میں مدد کی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ، امریکہ اور برطانیہ جیسے اسرائیل ساز اور صیہونی نواز ملکوں سے تو ایسی توقع نہیں کی جا سکتی ، لیکن آزاد اور باضمیر ممالک سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسرائیل کے ایران پر حملوں اور دہشت گردی کے اعمال کو ہرگز ہرگز نظر انداز نہ کریں۔کیونکہ اسرائیل کے ایران کے خلاف ان جرائم کو نظرانداز کرنا، اسرائیل کو ایک طرح سے قتل و غارتگری کا لائسنس دینے کے برابر ہوگا یعنی؛ جو قتل و غارتگری اور تباہی اس نے غزہ میں کی اور دنیا محض تماشائی بنی رہی، وہی حرکت وہ ایران اور ہر اس ملک کے ساتھ کر سکے گا ،جس سے اسے اختلاف ہو گا ۔اور یہ کسی صورت آزاد دنیا کے لیے قابل قبول ڈاکٹرائن نہیں ہے ۔ پاکستان ایران کا اپنے طریقے اور سلیقے سے ساتھ دے رہا ہے۔ایران کا ہندوستان کے ساتھ رومانس بڑا پرانا ہے ۔شاہ ایران کے دور سے لے کر ،بعد میں روحانیان کی حکومت تک اور پھر اس جنگ کے شروع ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے تک یہ رومانس جاری تھا۔اب ایران نے یقینی طور پر ہندوستان کا اصل چہرہ اور حقیقی روپ پہچان لیا ہوگا ایران نے سمجھ لیا ہو گا کہ آپ کے جانی دشمن کا قریبی دوست آپ کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا، ہاں مخبر ضرور ہو سکتا ہے۔وہی کچھ ہوا اور ایران کے اندر موجود اسرائیلی کمانڈوزاور دیگر تخریب کاروں کے پاس مبینہ طور پر ہندوستانی پاسپورٹ بھی برآمد ہوئے ہیں ۔ مسلمانان عالم کو چاہیئے کہ ایران اسرائیل جنگ میں ہر قسم کے فرقہ وارانہ تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر ایران کی حمایت کریں۔ ایران ایک مسلم ملک ہے ، ہمارا تاریخی و تہذیبی ہمسایہ ہے۔ وہ اسرائیل کے معاملے میں حق و صداقت کی جنگ لڑ رہا ہے۔بس یہی کافی ہے۔ البتہ یہ تاثر درست ہے کہ،ایران کو اس جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیئے تھا ۔خاص طور پر اندرون ملک اسرائیلی ایجنسیوں کی موجودگی اور رسائی کو کنٹرول کرنا چاہیئے تھا۔اگر بروقت ایسا کر لیا جاتا تو اتنے بڑے نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button