ہفتہ وار کالمز

قربانی پہ قربانیاں

عیدِ قرباں کو رخصت ہوئے ایک ہفتہ ہی گزرا ہے مگر شہر کے گلی کوچوں میں انسانی ارمانوں کا خون ابھی تک صفائی کے عمل سے محروم ہے عید الضحیٰ پر مویشیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں نہیں آسمان سے قوالیاں کر تیںدکھائی دیں جانوروں کے بلند بانگ نرخوں کی وجہ سے کئی صاحب ِ استطاعت افراد نے کم جانور اللہ کی راہ میں قرباں کئے بقول اُن کے کہ قیمتیں اس قدر اوپر چلی گئیں کہ لگتا ہے کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں قربانی صرف حکمران ، اور تجارتی مافیاز کے لوگ ہی کر سکیں گے گویا عوام سے سارے ٹیکسسز لینے کے باوجود بھی حکومت نے مذہبی احکامات کی پاسداری کرنے کا حق بھی چھین لیا ہے اس چھینا جھپٹی سے یاد آیا کہ میرے دوست میاں ریاض گل نے برسوں پہلے ایک جائیداد خریدی کچھ مدت بعد اُن کو علم ہوا کہ اُس پر تو حکومت نے اپنی ایک عالیشان عمارت تعمیر کر دی ہے جس کا رقبہ کوئی چھ کنال ہے اخلاقی و قانونی سارے جواز بالائے طاق رکھ کر حکومت نے ایک باعزت شخص کو مشکل میں ڈال دیا اب میاں ریاض گل عدالت میں انصاف مانگنے والوں کی لمبی لائن میں کھڑے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکومت قبضہ مافیاز سے نمٹ نہیں سکی تو اُن کے ہم رکاب ہو گئی ہے میرے اس وطن ِ عزیز میں اگر اوائل سے قانون کی بالادستی بلا تفریق عملی طور پر لاگو ہوتی توراہ زنی سے لیکر جائیدادوں کے قبضے تک اور کمسن معصوم بچے ،بچیوں سے لیکر مدفون خواتین کی عزتیں محفوظ رہتیں اسلامی مملکت ہوتے ہوئے ہم اپنی معیشت کو سودی نظام کے حوالے نہ کرتے ہماری حکومتوں کے علمبردار تو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں جیسے آئین شق 227کہتی ہے کہ تمام قانون قرآن و سنت رسول ﷺکی روشنی میں بنائے جائیں گے مگر یہی پارلیمنٹ سودی قرضوں کے ملنے پر تالیاں بجاتی کئی بار دیکھی گئی ہے اگر اسلامی نظام کے تحت ہماری حکومتیں رواں رہتیں تو ممکن تھا کہ ہم فرقہ واریت کا شکارنہ ہوتے بلکہ ایک تسبیح میں یہ سارے دانے معبود ِ برحق کو ہی مددگار اور مشکل کشا مانتے کسی پیر فقیر کو کسی گدی نشین کو چڑھاوے دینے کی بجائے اپنے ہمسائے کا ،مفلوک الحال عزیزوں کا خیال رکھتے اور زکوۃ کے مروجہ اسلامی اصولوں پر عمل پیرا بھی ہوتے اتحاد و یگانگت ہوتی تو ہم مذہبی عقائد سے لے کر پنجابی ،پٹھان ،بلوچی ،سندھی کہلانے کی بجائے پاکستانی کہلوانے پر فخر کرتے افسوس کہ ہم سب نہ جانے کیوں بکھرے ہوئے ہیں ہم ڈارھی رکھ کر ،تسبیح پکڑ کر مساجد کا رخ بھی کرتے ہیں حج عمرے کی ادائیگیاں بھی کرتے ہیں مگر اپنی بہنوں ،بیٹیوں کو جائیداد میں اُن کا جائز حق نہیں دیتے ہم نبی کا امتی ہونے کے باوجود کیوں نہیں ابلیسی پنجوں سے نجات حاصل کرتے ؟کیوں ہم لاحاصل مقاصد کے حصول کے لئے ہر قربانی پہ قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں اس کے باوجود اُمیدوں کی منزل ہمارے تصورات میں تو ہے حقیقت میں نہیں ہے ایسی قیامتوں کا بار بار مد مقابل آنا ہمارا صراط المستقیم سے دور ہونا ہے پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانا اور اس کے آئین پر صدق ِ دل سے عمل پیرا ہونا لازمی امر ہے تا کہ وطن ِ عزیز غیر ضروری قرضوں اور سودی لین دین کی وجہ سے قربانی پہ قربانیاں نہ دیتا رہے ملک کا سالانہ بجٹ آئی ایم ا یف کی بجائے پارلیمنٹ میں موجود ممبران ِ اسمبلی نے بنانا ہے ہمیں پہلے انفرادی سطح پر اپنی اصلاح کر کے اسے اجتماعی عمل میں لاگو کرنا ناگزیر ہو گیا اب حکومت نے بجٹ تو پیش کر دیا مگر برسوں سے روایات میں ڈھلی غیر منصفانہ مراعات کا خاتمہ ممکن نہیں کر سکی 5000یونٹ بجلی فری اور 2000 یونٹ گیس اور سینکڑوں لیٹرز پٹرول فری اُن لوگوں کو دئیے گئے ہیں جن کی تنخواہ لاکھوں روپے ماہانہ ہے جب کہ اُسی دفتر کا چپڑاسی جو ہزاروں میں اپنی محنت کی کمائی وصول کرتے ہوئے موسمی اثرات بھی سہتا ہے قومی و صوبائی اسمبلیاں اور سینٹ کے ممبران کی تنخواہوں میں ہوش رُبا اضافہ اور عوامی سطح کے عام ملازمین کے لئے صرف 10فی صد اضافہ کیا یہ مذاق نہیں؟ چائیے تو یہ تھا کہ حکومت انصاف سے کام لیتے ہوئے غیر ضروری مراعات کو ختم کر کے اس کی تقسیم چھوٹے ملازمین میں کرتی اس ناانصافی اور غیر ضروری مراعات کو ختم کرنا تو ترجیح بنتا ہے اس اسلامی ریاست کے حکمرانوں کا ۔چھوٹے طبقات کی قربانی پہ قر بانیوں کا سلسلہ تو اب رکنا چائیے الائیڈ بنک کے ساتھ ساتھ دیگر بنکس جو اب نجی کنٹرول میں ہیں اپنے سابقہ ملازمین کو پنشن کی سہولیات سے محروم کر کے عدالتی فیصلوں کو بھی ملحوظ ِ خاطر نہیں رکھ رہے طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی سپریم کورٹ ان بینک مالکان سے قانونی فیصلے پر عمل در آمد نہ کرواسکی اور نہ ہی کسی حکومت نے اس پر توجہ دی جب کہ پنشنز کی بڑی تعداد اس جہان فانی سے کوچ کر چکی ہے اور لواحقین عدالتوں کے چکرپہ چکر لگا رہے ہیں مگر انصاف نہیں مل رہا لگتا ہے کہ یہ انصاف بنک مالکان کی مٹھی میں قید ہے جسے رہائی نہیں ملنی مگر اللہ پہ اُمید رکھے الائیڈ بنک و دیگر بنکوں کے محنت کش قربانی پہ قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہے ہیںدیکھتے ہیں معیشت کے تخت پہ بیٹھا یزید ظلم کے اور کتنے تیر معصوم حقداروں پر چلانے کا ارادہ رکھتا ہے غزہ و ایران کے مسلمان آج اسرائیل کی نسل کشی کا شکار ہو رہے ہیں اُمت ِ مسلمہ کو اب تو ہوش آنی چائیے مسلمانوں کی قربانی پہ قربانیاں کب تک کی جائیں گی ؟

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button