کچھ بد خبریاں، بجٹ میں بندر بانٹ

کس غضب کی یہ خبریں اس ہفتہ آئی ہیں۔ احمد اباد بھارت میں بوئنگ کا طیارہ اڑنے کے تھوڑی دیر بعد ہی گر کرتباہ ہو گیا۔242مسافروں میں سے صرف ایک بچ گیا۔ اور جس جگہ جہاز گرا وہاں پر موجود چالیس کے قریب افراد مارے گئے۔ایک وڈیو میں کسی غیر ملکی پائلٹ کا تجزیہ تھا کہ یہ حادثہ پائلٹ اور کو پائلٹ کی غلطی سے ہوا ہےجب انہوں نے بجائے جہاز کے پہیے اند رکرنے کے جہاز کے وہ فلیپ کھول دئیے جو جہاز کو اترتے وقت رفتار کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔اگر ایسا ہوا تو بہت حیرت کی بات ہے؟ابھی ہم اس خبر پر غو ر کر رہے تھے، کہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کر کے ا ن کے چار فوجی جرنیلوں اور چھ سائنسدانوں کو ہلاک کر دیا اور ایران کے خفیہ ایٹمی ٹھکانوں پر بمباری کی۔ جس سے کچھ نقصان ہوا۔ یہ حملہ کیوں کامیاب ہوا اس لیے کہ کچھ ایرانی غداروں نے اسرائیل کی مدد کی۔ ایران کو کچھ تو اندازہ تھا کہ شاید اسرائیل حملہ کرے، اس لیے انہوں نے اپنی میزائیل کو تیار رکھا ہوا تھا، وہ انہوں نے دوسرے دن جوابی کاروائی میں داغنے شروع کیے۔ اوروہاں کچھ نقصان ہوا، جو اچنبے کی بات ہے، اس لیے کہ اسرائیل نے ایسے ہوائی حملوں سے بچنے کے لیے زبردست حصار بنا رکھا ہے، جسے آئیرن ڈوم کہتے ہیں۔یہ جنگ زیادہ دیر تو نہیں چلے گی کیونکہ اسرائیل بیشک زیادہ طاقتور ہے، لیکن رقبے کے لحاظ سے زیادہ نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا اور ایٹم بم استعمال کرنے سے پورے خطہ کو نقصان پہنچے گا، جسے روس اور چین پسند نہیں کریں گے۔اس لیے جلد جنگ بندی ہونے کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ میں بات چیت شروع ہو چکی ہے۔افسوس تو اس کا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔ اور فلسطینی اسرائیل کی بمباری سے زیادہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ ہے کوئی ان کی فریاد سننے والا؟
صدر ٹرمپ نے پہلے تو کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگ میں شریک نہیں ہے، لیکن پھر یہودی لابی کو بھی خوش کرنا ضروری تھا، تومان لیا کہ امریکہ نے اسرائیل کی مدد کی۔دوسری طرف سارے امریکہ میں ٹرمپ کی نقل مکانی کرنے والوں کے خلاف پالیسیزپر اکثر بڑے شہروں میں احتجاج ہو رہے ہیں۔ اور ہفتہ کے روز ، جو کہ صدر ٹرمپ کی سال گرہ کا دن بھی تھا، دارلحکومت میں زبر دست فوجی پریڈ ہوئی جس میں امریکی فوجیں نے اپنے ہتھیاروں کی نمائش کی۔ اس نمائش پر دنیا کے کچھ ممالک کے فوجی سربراہان بلائے گئے تھے، جن میں پاکستان کے فوجی سربراہ بھی شامل تھے۔ اب اگر کوئی اس نمائش اور فوجی سربراہان کی شرکت میں کوئی رشتہ اسرائیل کے ایران پر حملہ کے ساتھ جوڑنا چاہے تو اسے کون روک سکتا ہے؟یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیل کی سوچ بہت دور تک جاتی ہے۔بہر حال، صدر ٹرمپ ایک طرف اپنے خلاف ملک گیر مظاہروں سے پریشان ہیں، مظاہرین کا بڑا نعرہ ہے ’’ہمیں بادشاہ نہیں چاہیئے‘‘۔ یہ اشارہ ہے ٹرمپ بہادر کی طرف جنہوں نے بجائے کانگریس میں جا کر قانون سازی کرنے کے، ایوان صدر میں بیٹھ کر احکامات جاری کر دیئے ، جیسے کہ مطلق العنان بادشاہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیاں امریکہ چھوڑنے کی تیاری کر رہی ہیں، کیونکہ ٹرمپ کی ٹیرف کی جنگ سے مالی نقصانات ہو رہے ہیں۔ کینیڈا نے اپنا تیل چین اور بھارت کو بیچنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ راقم کو سمجھ نہیں آ رہا کہ ٹرمپ بھائی نے امریکہ گریٹ بنانے کا نعرہ مارا تھا اور اپنی غیر دانشمندانہ حکمت عملی سے امریکہ کو غریب بنانا شروع کر دیا ہے۔کم از کم اس بھائی کو آئندہ انتخابات میں تو اکثریت ملتی نظر نہیں آتی۔ہفتہ کے دن ہی پاکستانی اپنے سفارت خانے کے سامنے فیلڈ مارشل کے مظالم کے خلاف کامیاب مظاہرہ کیا ۔
معزز قارئین،پاکستان میں متواتر، غیر قانونی حاکموں کی سیاسی ہیرا پھیری اور قومی خزانہ کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔ ان کو نہ کوئی قوم کا درد ہے اور نہ ملک کے مستقبل کا لحاظ۔اب اسی پالیسی کے تحت ، پاکستان کے امپورٹڈ وزیر خزانہ نے آئندہ سال کا بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا۔ یہ بجٹ اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ حسب دستور ہماری آمدنی کم اور خرچہ زیادہ۔ مثلاً کل آمدن 14 ہزار ایک سوا ارب کا تخمینہ ہے اور خرچ 17ہزار چھ سو ارب۔ اس اسلامی سلطنت خداد کو81ہزار دو سو ارب روپے صرف سود کی مد میں دینے ہوں گے۔یعنی ہمارے کل اخراجات کے نصف سے بھی زیادہ۔ سوچنے کی بات ہے کہ جیسے آپ کے کل اخراجات 100روپے ہو تو اس میں سے 52روپے آپ کسی سود خور پٹھان کو دے دیں۔ یہ حال ہوتا ہے اس شخص کا جو ہر سال قرض لیکر گھر کا خرچ چلاتا ہے۔یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ بندہ سوچے تو سرچکرا جائے۔یہ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ یہ تو تناسب ہے اخراجات کا۔ اگر آمدنی سے موازنہ کیا جائے تو یہ تناسب 42فیصد سے کچھ زیادہ بنتا ہے۔ یہ کوئی کم ہے؟ کل چھ ہزار پانچ سو ارب روپے کا بندو بست کرنا پڑے گا۔ پھر کاسہ ہو گا اور ہمارے وزراء جو در بدر کی ٹھوکریں کھائیں گے اس رقم کی خاطر۔اور جو مانگے تانگے سے بھی نہ ملا تو بڑا سود دیکر بڑے بینکوں سے قرض لیں گے اور اس طرح آئندہ سال سود کا خرچ اور بڑھ جائے گا۔جو نئے قرضے ملیں گے ان پر سود بھی تو دینا ہو گا؟
سود دینے کے بعد جو بچا، اسکا سب سے بڑا حصہ ملک کے دفاع پر یعنی دو ہزار پانچ سو پچاس ارب لگیں گے۔وہ وقت دور نہیں اگر جعلی حکومت برقرار رہی تو ملک کا سارا مالیہ قرضوں پر سود میں دینا پڑے گا۔ اور فوج بے چاری کے لیے بھی دھیلہ نہیں بچے گا۔
دفاع کے بعد ، ایک ہزار پچپن ارب پینشنز پر دیا جانا ہے۔ان میںسول اور ملٹری سب پینشنرز شامل ہیں۔فوج کے پینشنز کا خرچ دفاع کے بجٹ میں شامل نہیں ہے۔
ہر سال اسی لیے ہم آئی ایم ایف کی طر ف بھاگتے ہیں، کیونکہ آئی ایم ایف کا قرضہ کم سود پر ملتا ہے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کو اپنی عزت بھی خاک میں ملانی پڑتی ہے۔ اور ان کے جائز اور ناجائز مطالبات ماننے پڑتے ہیں، عوام گئے بھاڑ میں۔
ان تمام مالیاتی مسائل کا کیا کوئی حل نہیں؟ ہے مگر اس کو حکومت نہیں مانتی۔مثلاً یہ کہ حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہیئں۔ دفاع پر بجائے ہر سال بیس یا اس کے لگ بھگ اضافہ کرنے کے بجائے اتنا کم خرچ کرے۔ اپنے پُر تعیش سفری اخراجات، رہائش گاہوں پر خرچ، اور سبسی ڈیز، اور سرکاری ملازموں کی فوج ظفر موج کو کم کرے۔ وفاقی خرچ پر پی آئی اے اور ریلوے کو امداد دینی بند کرے، ان دونوں اداروں کو اپنی مدد آپ پر چلانے کا حکم جاری کرے۔ ان دونوں اداروں میں سفارشی، سیاسی بھرتیوں کے ملازموں کو فارغ کرے۔لیکن یہ حکومت عوام پر مزید بوجھ ڈالے گی اور اپنے اللے تللے نہیں چھوڑے گی۔
اب ذرا میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں میں بجٹ پر اہم شخصیات کے تاثرات دیکھیں۔ اس بجٹ کو جمعیت ال علماء ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے نا منظور کر دیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ اس میں ٹیکسوں کی بھر مار ہے اس لیے یہ بجٹ قابل تعریف نہیں ہے۔انہوں نے پاکستان میں اقتصادی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا، اور کہا کہ پاکستان کو دوسرے ممالک جیسے چین، بھارت اور بنگلہ دیش قومی پیداوار بڑھانے پر سیکھنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم تنزل پذیر ہیں۔
بجٹ کو سندھ کے وزیر برائے انرجی سید ناصر حسین شاہ نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ سولر پینلز پر ٹیکس لگانا ہم مسترد کرتے ہیں۔ اس سے غریبوں پر بوجھ پڑے گا۔حکومت کی تجویز ہے کہ درآمد کردہ سولر پینلز پر ۱۸ فیصد ٹیکس لگایا جائے۔اس کی منطق مقامی ساخت کنند گان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔لیکن اس ٹیکس سے سولر پینلز کی قیمیتں بڑھ جائیں گی۔( جس ملک میں بجلی کی اتنی کمی ہے اور بجلی اتنی مہنگی ہے سولر پینلز پر ٹیکس لگانا کوتاہ اندیشی ہے۔)۔ شاہ صاحب نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی لگائی گئی پابندیاں انتظامیہ کے لیے مشکلات کھڑی کریں گی۔
صحافیوں نے اسلام اباد میں بجٹ کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس سے واک آئوٹ کر دیا۔ان کا احتجاج اس بات پر تھا کہ کیوں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے صحافیوں کے ساتھ ٹیکنیکل بریفنگ کیوں نہیں کی؟
نئے بجٹ میں دفاع کا بجٹ بیس فیصد بڑھا دیا گیا ہے، جو 2550ارب بنتا ہے۔
وزیر خزانہ، محمد اورنگزیب کی تقریر کے مطابق، ملک کا کل پیداوار کا تخمینہ آئندہ سال میں 2.4ہو گا۔ افراط زر کی شرح 5.7فیصد رکھی گئی ہے۔ زر مبادلہ کے زخائر 14ارب ڈالر ہو جائیں گے۔اور بیرونی قرضوں میں ۔ .04 فیصد کم کی توقع ہے۔عام آدمی کو خوش خبری کہ آن لائین خریداری پر 18فیصد ٹیکس لگے گا۔ہور خریدو۔
نئے بجٹ میں آبی بجلی کے منصوبوں پر 67ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ریکو ڈیک منصوبے سے آئیندہ 37سال تک کل 75 ارب ڈالر ملیں گے۔آئندہ مالی سال میں پی آئی اے اور روزویلٹ ہوٹل کو نجی شعبہ میں دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ آئی پی پی پی (بجلی بنانے کی فیکٹریاں) پر کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کر کے تین ہزار ارب روپے کی بچت کی جائے گی۔ لگتا تو نہیں پر شاید؟
ہر سال بجٹ بنانے کے وقت آئی ایم ایف سے دبائو آتا ہے کہ پاکستان اپنے اخراجات کیوں نہیں کم کرتا؟ اس کا بڑا اشارہ دفاع پر کثیر اخراجات کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن ہر ایسے موقع پر کوئی ایسا واقع ہو جاتا ہے کہ دفاع پر بجٹ میں بجائے کمی کے اور اضافہ ہو جاتا ہے۔اس دفعہ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔بھارت اور پاکستان کے درمیان نورا کشتی کی گئی، جس میں نہ چاہتے ہوئے بھی بھارت کے پانچ چھ جنگی جہاز گرا دیئے گئے۔ وہ کیسے ہوا، وہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ لیکن اس کے فائدے دونوں طرف ہوئے۔ بھارت کو موقع مل گیا کہ وہ انڈس طاس معاہدے پر پاکستان کو نظر ثانی پر مجبور کر سکے۔ پاکستان کو یہ کہ ان کے محبوب فوجی سربراہ کو فیلڈ مارشل بنا دیا گیا۔ یہ غالباً پہلا فیڈ مارشل ہو گا جو بغیر زمینی لڑائی جیتے پانچ ستاروں کا حقدار بن گیا۔ اس سارے واقعہ کے پس منظر میں کیا ہے وہ وقت ہی بتائے گا۔
راقم کو حیرت اس بات پر ضرور ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً نصف کے قریب چھوٹے بچے پستہ قد اور وزن میں کم ہو گئے ہیں۔ کوئی دو کروڑ بچے جو سکول میں ہونے چاہیئیں، وہ نہیں ہیں۔ تین کروڑ نوجوان وہ ہیں جو ان پڑھ ہیں یا کم پڑھے لکھے ہیں اور بے ہنر ہیں۔اور زیادہ بے روزگار بھی ہیں۔ ہمارے ارباب حل و عقد کو اپنی پیاری قوم کا خیال کب آئے گا؟ جب پانی سر سے گذر جائے گا؟