ہفتہ وار کالمز

اسرائیل کے اہداف

اسوقت امریکہ ترقی‘ طاقت اور خوشحالی کے بام عروج پر ہے۔ دنیا کے 80 ممالک میںاسکے 750 فوجی اڈوں نے اسے ایسی عسکری طاقت بنا دیا ہے جسے دوسرا کوئی ملک بھی للکارنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ چین‘ روس اور یورپی ممالک اسکے ساتھ اپنے تنا زعات مذاکرات کی میز پر طے کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ایران کیسے خم ٹھونک کر اسکے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کسی بھی صورت امریکہ کی اجازت کے بغیر ایران کے خلاف برہنہ جارحیت کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ یہ درست ہے کہ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکہ ایران پر کیے جانے والے اسرائیلی حملوں میں شامل نہیں ہے مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ امریکہ در پردہ اسرائیل کی مدد نہیں کر رہا۔ ایران کے تین سینئر ملٹری جرنیلوںاور دو چوٹی کے نیوکلیئر سائنسدانوںکو ہلاک کرنے کا کریڈٹ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کودیا جا رہا ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ اس منصوبہ بندی میں سی آئی اے نے اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔ اس پشتی بانی کے علاوہ امریکی نیوی کا USS Thomas Hudner جو بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے نے بحیرۂ روم کے مشرقی حصے کی طرف بڑھناشروع کر دیا ہے۔ تیرہ جون کے Times Of Israel کے مطابق اسوقت مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے تینتالیس ہزار فوجی ہائی الرٹ پر ہیں۔ بحیرہ عرب میں USS Carl Vinson جو نیوکلیئر میزائل سے لدے ہوئے لڑاکا طیاروں کا بحری بیڑہ ہے اسرائیل کے دفاع کے لیے تیار کھڑا ہے۔ مزید بر آں انڈو پیسیفک میں USS Nimitz اور جاپان کے ساحل پر کھڑے USS George Washington کو بھی بحیرہ روم کی طرف بڑھنے کا حکم دے دیا گیاہے۔ اتنی بے پناہ عسکری طاقت کو ایران کے خلاف متحرک کرنے کے بعد یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ صرف اسرائیل اور ایران کی ہے۔ ایران اسوقت ایک علاقائی نیوکلیئر طاقت اور ایک عالمی سپر پاور سے یکہ و تنہا نبرد آزما ہے۔ بنجامن نتن یاہو اگر یہ کہہ رہا ہے کہ ایران کا آسمان اسکے قبضے میں ہے تو اسکی ایک وجہ امریکہ کادیا ہوا آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم ہے جو راکٹوںا ور میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسکی دوسری وجہ اسرائیل کا یہ اعتماد ہے کہ امریکہ مصیبت کی گھڑی میں اسکے ساتھ ملکر دشمن کا مقابلہ کریگا۔ تیسری وجہ سی آئی اے اور امریکن سٹیلائٹ کی وہ سراغرسانی ہے جو ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایران کی ائیر فورس اسرائیلی طیاروںکا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چھیالیس برس قبل رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے خاتمے کے وقت ایرانی فضائیہ کے تمام طیارے امریکہ سے خریدے ہوئے تھے۔ امریکہ نے ان طیاروں کے سپیئر پارٹس مہیا نہ کر کے انہیں نا قابل استعمال بنا دیا ہے۔ اسکے علاوہ یورپی ممالک نے بھی ایران کو جنگی اسلحہ نہ بیچنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔ ایران نے چین سے ایف فور‘ ایف فائیو اور ایف سیون طیارے خریدنے کے علاوہ روس سے بھی جنگی سازو سامان خریدا مگر وہ اپنی ایئر فورس کو اسرائیل کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس جنگی طیاروں کی سطح پر نہ لا سکا۔
اسوقت اسرائیل ایران میں دو اہداف حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔ ان میں سے ایک ایران کی نیوکلیئر تنصیبات کی مکمل تباہی ہے اور دوسرا رجیم چینج ہے۔ نتن یاہو نے جمعے کے روز پہلے فضائی حملے میں ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت ا ور سینئر سائنسدانوں کو ہلاک کرنے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل ایرانی عوام کادشمن نہیں ‘ وہ تو انہیں ایک جابر حکومت سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ اس تباہ کن جنگ کے پانچ روز بعد بھی ایرانی عوام نہ صرف اپنی حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ وہ تل ابیب میں گرتی ہوئی عمارتوں کے مناظر دیکھ کر جشن بھی منا رہے ہیں۔ امریکی ماہرین ا ور مبصرین کے مطابق اسرائیل رجیم چینج کا ہدف اس لیے حاصل نہیں کر سکتا کہ یہ کام صرف ایرانی عوام ہی کر سکتے ہیں۔ جہاں تک اصفہان‘ Natanz اور Fordo کی جوہری تنصیبات کا تعلق ہے تو ماہرین کے مطابق ان میں سے پہلی دو زیر زمین ہونے کے باوجود تباہ کی جا سکتی ہیں مگر فورڈو کا نیوکلیئر پلانٹ نوے میٹر زیر زمین ہونے کی وجہ سے اسرائیل کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس پلانٹ کو صرف امریکہ کے متعدد Bunker Buster Bombs ہی تباہ کر سکتے ہیں۔ امریکہ نے ابھی تک انہیں استعمال کرنے کا عندیہ نہیں دیا۔ مغرب کے دفاعی ماہرین کے پیش نظر ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل اتنی کھلی جارحیت کے باوجود بھی اگر فورڈو پلانٹ کو تباہ نہ کرسکا تو اس صورت میں وہ اپنی فتح کا اعلان نہ کر سکے گا۔ ایران کے شہر قم کے جنوب میں بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع فورڈو نیوکلیئر پلانٹ میں سینٹری فیوجز اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور یہاں یورینیم کی افزودگی بھی اتنے بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہے کہ ایران ایک سال کے عرصے میں اپنی کھوئی ہوئی جوہری صلاحیت دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔ امریکہ کی John Hopkins School Of Advanced International Studies کے پروفیسر ولی نصر نے کہا ہے کہ ایران آسانی سے یورینیم کی افزودگی سے دستبردار نہیں ہوگا‘ یہ ہتھیار ڈالنے والی بات ہو گی ۔ ایران کی انقلابی حکومت نے جوہری توانائی حاصل کرنے کے لیے چھیالیس برس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اب اگر وہ اپنے اس حق سے دستبردار ہوتی ہے تو وہ اپنے عوام کا اعتماد کھو دے گی۔ یوں امریکہ اور ایران اپنے دونوں اہداف حاصل کر لیں گے۔ اسرائیل نے اب تک ایران کے خلاف ابتدائی کامیابیاں تو حاصل کی ہیںمگر اسکے اصل اہداف ابھی تک اسکی پہنچ سے باہر ہیں۔ ایک دنیا دیکھ رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوست بنجامن نتن یاہو کے لیے امریکہ کی نئی نسل کے نوجوانوں کو مشرق وسطیٰ کی ایک نئی جنگ کی آگ کا ایندھن بناتا ہے یا نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button