پاکستان مشکلات سے نہیں نکل رہا، اور مشکلات ہماری اپنی تخلیق کردہ، جب ہم خود ہی مشکل کو دعوت دیں تو کیا کیا جا سکتا ہے، کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر ملک کو نقصان پہنچا تو اشرافیہ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا، اشرافیہ جن میں تاجر ، وڈیرے، سرمایہ دار مافیاز اور اسمگلرز شامل ہیں ان کا کیا بگڑے گا، مولوی جن کو چندہ مافیا کہتے ہیں ان کا کیا بگڑے گا، نقصان تو عام آدمی کا ہوگا اور عام آدمی کو اپنے فائدے اور نقصان کا اندازہ نہیں، جب بھی سیاستدان پکارتا ہے عام آدمی بھیڑ بکریوں کی طرح جلسوں اور جلوسوں میں جاتا ہے، نعرے لگاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہی سرمایہ دار اور وڈیرہ اس کا مسیحا ہے یہی اس کی مادی حالت بہتر کر سکتا ہے، عام آدمی ہی مُلاکے پاس اپنی حاجت روائی کے لئے جاتا ہے، منتیں مانگتا ہے نذرانے دیتا ہے اور ان کے لئے اپنی جان کی بازی بھی لگا دیتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ یہی وڈیرے، سرمایہ دار مافیاز اسمگلرز جنہوں نے اپنا نام سیاست دان رکھ لیا ہے ان کی تمام تر کوشش اقتدار کے حصول کے لئے ہوتی ہے اور وہ عام آدمی کو سیاسی ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اسی عام آدمی نے عشروں فوج کو اپنا مسیحا سمجھا، تین طویل مارشل لاء بھی جھیل لئے ، عام آدمی کی سمجھ میں ملک کے مسائل نہیں آرہے وہ سمجھتا ہے کہ ملک دعاؤں پر چل سکتا ہے ناموس رسالت کے نام پر گستاخانۂ رسول کے سر اتارے گا تو ملک پر رحمتیں نازل ہونگی، وہ سمجھتا ہے کہ امریکہ اسرائیل اور مغرب تباہ ہو گئے تو دنیا کی بادشاہی مسلمانوں کو مل جائیگی مگر وہ نہیں جانتا کہ امریکہ، اسرائیل اور مغرب کو کون تباہ کرے گا، مولوی سے وہ یہی سوال پوچھتا ہے تو مولوی اس کو سمجھا دیتا ہے کہ اللہ ان کو تباہ کر دے گا اللہ سے ان کی بربادی کی دعا مانگو، وہ نہیں جانتا کہ اللہ ایسا نہیں کرتا اللہ نے سلطنت عثمانیہ تباہ نہیں کی سلطنت عثمانیہ اس وجہ سے تباہ ہوئی کہ ترکوں نے وقت کا ساتھ نہیں دیا ، وہ ترک مفتی ہی تھا جس نے چھاپہ خانے کی ایجاد کو حرام قرار دیا تھا، عام آدمی نہیں جانتا کہ مولوی نے ابن رشد کے ساتھ کیا کیا، عام آدمی نہیں جانتا ابن خلدون کون تھا اس نے کیا کہا ہے، عام آدمی کو کیا پتہ کہ مغرب میں سولہویں اور سترویں صدی میں کیا نظریات دئے گئے اور ان نظریات نے کس طرح مغرب کی کایا پلٹ دی، عام آدمی کو نظریۂ ارتقاء کے بارے میں کچھ پتہ نہیں مگر مولوی نے اکبر الہ آبادی کا یہ مصرع رٹا دیا ہے کہ ڈارون بولا بوز نا ہوں میں، جمہوریت میں عام آدمی کا بھر پور کردار ہوتا ہے بشر طیکہ عام آدمی تعلیم یافتہ ہو اور اس کو سیاسی شعور ہو اس ان پڑھ قوم کو جو قوم نہیں ہے یہ بتا دیا گیا کہ ووٹ دینے سے جمہوریت آتی ہے نعرہ لگانے سے انقلاب آتا ہے ، برِ صغیر پر مسلمانوں کی ہزار سال تک حکومت رہی اور عام انسان یہی سمجھتا رہا کہ یہ اسلامی حکومت ہے کیونکہ اس حکومت میں نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور حج کرنے کی اجازت ہے، یہ اجازت تو انگریز کے دور میں بھی تھی، عام آدمی کو نہیں معلوم کہ ہزار سال تک ہندوستان کے کسی مشائخ، پیران پیر ، محدث یا مفسر نے کبھی اسلامی حکومت کا مطالبہ نہیں کیا ان کے دماغ میں یہ بٹھایا گیا کہ ہندوستان پر چالیس قطب ابدال حکومت کرتے ہیں، باریش لوگ قابل احترام ہوتے ہیں اور جو پابند صوم و صلواۃ ہو وہ شریف انسان ہوتا ہے، ڈاکٹر منظور علی کو پڑھیں یا ڈاکٹر صفدر محمود کو ، تحریک پاکستان کے دوران کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ رہنمایان ِتحریک پاکستان سے پوچھیں کہ پاکستان کا نظام کیسا ہوگا، سب کچھ گڑبڑ گھٹالا، کبھی کہا گیا کہ اسلام کے قوانین رہنما ہونگے کبھی کہا گیا کہ ملک سیکیولر ہوگا جس میں ہر شہری کو مکمل آزادی ہو گی، جاہل جتنے کو پتہ ہی نہ تھا کہ اسلامی قانون کیا ہوتا ہے اور سیکیولر حکومت کیا ہوتی ہے پاکستان بن گیا تو جو باریش تھے وہ معتبر ٹہرے، صاحب ارباب اقتدار تھے ، نام نہاد صحافیوں نے جی بھر کر دھول اڑائی ، رعنا لیاقت علی خان کو خیال آیا کہ خواتین کی تعلیم ضروری ہے APWA کی بنیاد ڈالی تو مجید لاہوری نے ہزار کالم رعنا لیاقت علی خان کے غرارے پر لکھ ڈالے، عام آدمی کو کیا پتہ کہ مجید لاہوری پاکستان کی خواتین تعلیم چھین رہا ہے، انہی باریش شعبدہ بازوں نے ماہرین تعلیم کا چوغہ پہنا اور ہمارے بچوں سے شعور چھین لیا، میڈیا نے اگر کسی سیاست دان کے بارے میں اگر یہ کہہ دیا کہ وہ شریف انسان ہے تو عام آدمی نے یہی یقین کر لیا کہ اس کی شرافت ملک کو ترقی دے دےگی اس قوم نے معین قریشی اور شوکت عزیز کو جھیلا وہاں جونیجو، جمالی، شجاعت حسین اور راجہ پرویز اشرف جیسے معمولی عقل کے لوگوں کو بھی قبول کر لیا، عام آدمی کو اس بات سے کبھی کوئی غرض نہیں رہی، عام آدمی ہر اس شخص کے پیچھے بھاگا جس کے کوئی سیاسی CREDENTIALS نہیں اس کلیہ پر پاکستان کا ہر سیاست دان اترتا ہے کسی بھی قومی لیڈر کو کوئی سیاسی CREDENTIALS نہیں چاہے وہ بینظیر ہوں نواز شریف ہوں عمران یا بلاول، کسی نے PUBLIC SERVICE نے بھی پبلک سروس نہیں کی اور سب فوج کے کندھوں پر بیٹھ کر آئے عام آدمی نے کبھی ان سے نہیں پوچھا کہ تم نے قوم کے لئے کیا کیا ہے اور سب کے سب بلا وجہ وزیر اعظم بن بیٹھے دنیا بھر میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، یہ موروثی سیاست صرف پاکستان میں گل کھلاتی ہے ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے، عمران تین بار اسمبلی پہنچے اور تینوں بار کبھی اسمبلی میں اپنا کردار ادا نہیں کیا اور کسی نے نہیں پوچھا کہ تم نے ووٹ لیا اسمبلی کیوں نہیں جاتے، کسی نے بلاول سے بھی ، کبھی نہیں پوچھا تم کون ہو، کیا بے نظیر کا بیٹا ہونا کافی ہے جب بلاول سیاست میں آکر نئے نظریات کی بات کرتا تو فرحت اللہ بابر اس کو سمجھاتے کہ پاکستان کی سیاست انگلینڈ کی سیاست نہیں ہے تم اسی وقت سیاست کر سکتے ہو جب تم زرداری کے نظریات پر چلو ورنہ تم کو نوکری کرکے پیٹ پالنا ہوگا، پھر بلاول ایک مکمل وڈیرہ ہو گیا جس کو امور خارجہ کی باریکیوں کا کچھ پتہ نہ تھا وہ وزیر خارجہ ہو گیا صرف اس لئے کہ وہ انگریزی بول سکتا تھا، اور اب عام آدمی کے ذہن میں ڈالا جا رہا ہے کہ اگلا وزیر اعظم بلاول ہوگا، اور یہ کچھ بعید بھی نہیں جو سیاسی چکن ہے پاکستان کا اس میں سب کچھ ممکن ہے عام آدمی سے کہا گیا کہ مسائل ہوں تو دعا کیا کرو مولوی نے بتا دیا کہ دعا سے تو تقدیر تک بدل جاتی ہے دعا لوح پر لکھے فیصلے بھی بدل دیتی ہے پاکستان ستر سال سے دعاؤں پر چل رہا نہ تقدیر بدل رہی ہے نہ لوح پر لکھے الفاظ، لطف یہ ہے کہ یہ بات وہ بھی کرتے ہیں جنہوں نے کبھی خود اپنے لئے دعا نہیں کی عمران کا نصیب فوج نے بدل دیا بلاول اس لئے وزیر خارجہ بنا کہ وہ زرداری کا بیٹا ہے بلاول کو دعا کی ضرورت نہیں وہ مزار پر چادر چڑھائے گا تاکہ عام آدمی اس کی تقلید کرے۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں میں فوج، بیوروکریسی ،وڈیرہ ، سرمایہ دار مافیاز اسمگلرز، اور مولوی سب ہیں مگر عام آدمی بھی برابر کا ذمہ دار ہے عام آدمی نے کبھی اپنا سیاسی کردار ادا نہیں کیا، عام آدمی جس کو سول سوسائٹی بھی کہا جاتا ہے کبھی اپنی آنکھیں نہیں کھولیں پاکستان کی سول سوسائٹی کے ہاتھوں سے تعلیم، صحت ،امنTHOUGHT PROVIKNG MATERIAL رفتہ رفتہ چھین لی گئیں تو عام آدمی نے کوئی آواز نہیں اٹھائی ، وہ جاگیر داروں اور وڈیروں کو ہی ان داتا سمجھتا رہا تو کاہے کی جمہوریت اور کہاں کے حقوق ، سول سوسائٹی اگر تعلیم پر ہی اصرار کرتی تو شائد کچھ درد کم ہو جاتے ، کچھ آنسو پونچھ لئے جاتے عام آدمی سے اسکول چھین کر اس کو مدرسے دے دئے گئے جہاں مولوی دیدہ دلیری سے بچوں کا ریپ کرتے ہیں اور سول سوسائٹی کچھ نہیں کر سکتی، پاکستان تا دیر اسی حالت میں رہے گا کوئی غیبی طاقت اس کیفیت کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
0