سوچا تھا کہ آج کے کالم کا عنوان رکھونگا، “کیوں ہمیں یاد نہیں؟” کہ آج 16 دسمبر کی وہ منحوس تاریخ ہے جب اس وقت کے بدمست اور نشہء طاقت سے مغلوب جرنیلوں کی ہوسِ جہانبانی نے بابائے قوم، قائدِ اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو دو لخت کیا تھا اور نوے ہزار ’’دلیر‘‘ جوانوں اور سپاہیوں نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی سینا کے آگے بے شرمی اور بے حیائی سے ہتھیار ڈال دئیے تھے!
لیکن یہ کالم شروع کرنے سے پہلے میں نے سوشل میڈیا پر ایک بہت دلچسپ ، لیکن چشم کشا، ویڈیو کلپ دیکھا جس میں ایک شخص داڑھی بنوانے کیلئے حجام کی کرسی پہ بیٹھا ہوا ہے۔ حجام نے اس کے گالوں پہ شیو کرنے کیلئے صابن لگادیا ہے لیکن جیسے ہی وہ اپنے استرےسے شیو بنانا چاہتا ہے وہ شخص گردن گھما کے اس سے سوال کرتا ہے، ’’یہ بتاؤ کہ خان کا کیا بنے گا جسے جھوٹے مقدمات میں ملزم بناکر جرنیلوں اور ان کے سیاسی گماشتوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا ہوا ہے؟‘‘
حجام اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس کے گالوں پر استرا چلانا چاہتا ہے لیکن پھر وہ شخص گردن گھماکر اس سے وہی سوال کرتا ہے اور یہ سلسلہ پانچ چھہ منٹ تک جاری رہتا ہے۔ وہ شخص اتنی بار اپنا سوال دہراتا ہے کہ حجام زچ ہوجاتا ہے اور سر پکڑ کے کہتا ہے، ارے خدا کے بندے، مجھے کیا پتہ کہ خان کا کیا ہوگا؟
داڑھی بنانے والے سائل کو تو حجام سے اپنے سوال کا جواب نہیں ملا، اگرچہ اس کا سوال صرف اس کا نہیں تھا بلکہ موجودہ معروضی صورتِ حالات کے پس منظر میں ہر اس پاکستانی کا جسے خان سے محبت ہے اور خان کے ساتھ ساتھ اصل پاکستان سے محبت ہے، یہی سوال ہے کہ عمران خان کا کیا بنے گا؟ وہ بدبخت اور پاکستان دشمن جرنیل، جن کا سرغنہ عاصم منیر ہے، عمران کیلئےاپنے دلوں میں نفرت اور انتقام کو کیا روپ دینا چاہتے ہیں ؟ کس طرح عمران کے وجود کو اپنی ہوس رانیوں کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے اسے، بقول شخصے، ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں؟
تو میں نے وہ ویڈیو کلپ دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ میں بھی آج اس کالم کا یہی عنوان رکھونگا اسلئے کہ آج پاکستان میں ، اور پاکستان سے باہر بسنے والے پاکستانیوں کا سب سے اہم سوال یہی ہے کہ جن غنڈہ عناصر نے پاکستان کی فوج کو یرغمالی بنایا ہوا ہے اور اس کی طاقت کے بل بوتے پر عمران کے خلاف اپنے بغض کو دن رات ہوا دے رہے ہیں ان کے پہلو میں جو کانٹا مسلسل چبھ رہا ہے وہ عمران خان کی ذات ہے اور یہ بدخصال اور بد اطوار جرنیلی ٹولہ اتنا کمینہ اور اس قدر پست ذہنیت کا حامل ہے کہ اپنے پہلو میں چھبنے والے اس کانٹے کو، اس خار کو، جس نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں، نکالنے کیلئے کسی بھی پستی میں گرنے سے گریز نہیں کرے گا!
لیکن پھر مجھے ادراک ہوا کہ بات صرف عمران کی ذات پر ہی ختم نہیں ہوجاتی۔ یہ جرنیلی ٹولہ اسی پست ذہنیت کا مالک ہے جس نے مستِ مئے پندار یحییٰ خان کی قیادت میں پاکستان کو، قائد کے پاکستان کو، دو ٹکڑے کیا تھا۔ یحییٰ بھی اتنا ہی ہوس گزیدہ تھا جتنا عاصم منیر ہے اور آج، سقوطِ ڈھاکہ کی برسی پر، عمران کے مستقبل کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مستقبل کا سوال بھی منسلک ہے۔ تو جہاں حجام کی کرسی پہ بیٹھے ہوئے اس سائل کا سوال عمران خان کی ذات تک تھا تو ہمارا سوال اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مستقبل کا بھی ہے۔
عمران کی ذات کو پاکستان سے جدا کرکے نہیں دیکھا یا پرکھا جاسکتا اسلئے کہ عمران کی سیاست نہ اپنی ذات کے فروغ کیلئے ہے نہ اقتدار کے حصول کیلئے۔
عمران سیاست کے خارزار میں اسلئے نہیں آیا کہ وہ پاکستان کا وزیرِ اعظم بننا چاہتا تھا۔ درست ہے کہ قیادت کا منصب ضروری ہوتا ہے اگر مقصد صرف منصب کے حصول تک محدود نہ ہو۔ منصب محض ایک ذریعہ، ایک وسیلہ ہے، ایک ارفع اور اعلیٰ مقصد حاصل کرنے کا۔
میں نے شاید کسی گذشتہ کالم میں لکھا تھا کہ عمران نے اپنی تحریکِ انصاف نام کی سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان تو 1996ء میں کیا ہے لیکن اس سے تین سال پہلے کویت میں، جہاں میں اس وقت پاکستان کا سفیر تھا، عمران نے میرے گھر میں ملاقات میں مجھ سے مشورہ کیا تھا کہ میرا کیا خیال ہے اگر وہ اپنی سیاسی تحریک کے قیام کا اعلان کرے؟ اور میں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ اس سے باز رہے اسلئے کہ پاکستانی سیاست تو نوسربازوں اور چھٹ بھیوں کا میدان تھا، ان کا کھیل تماشہ تھا۔ لیکن عمران نے مجھے قائل کردیا کہ اگر انہیں بدکرداروں کے ہاتھوں میں پاکستان کی تقدیر سونپی رہے تو پھر سدھار کی، بہتری کی ، تو کوئی صورت کبھی پیدا ہی نہیں ہوگی!
میں نے عمران کے اس ارفع و اعلیٰ مقصد کو جان کر یہ کہا تھا کہ اگر تم اس منزل کے حصول کیلئے سیاست کی دلدل میں پاؤں رکھنا چاہتے ہوئے تو فبہا!
تو ہوس گزیدہ اور نشہء طاقت سے مغلوب جرنیلوں کے برعکس عمران خان کی قیادت کا ہدف اقتدار سے شروع ہوکر اقتدار پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ اقتدار کے ذریعہ پاکستان کی سیاست کو، جسے جرنیلوں کی ہوس اور ان کے سیاسی گماشتوں، زرداری اور نواز اور شہباز جیسے چوروں اور ڈاکوؤں کی لوٹ مار نے انتہائی غلیظ اور گندا کیا ہوا ہے، کرپشن کے زہر سے پاک کردینے کا ہے!
عمران سے عاصم منیر کو حسد اسلئے ہے کہ وہ پاکستانی سیاست پر جرنیلوں نے جو چھاؤنی چھائی ہوئی ہے اسے ختم کرنا چاہتا ہے اور یہ عاصم منیر اور اس کے کرپٹ ٹولے کو قبول نہیں ہے۔
عاصم منیر کے حلق میں عمران اسی طرح کانٹا بن گیا ہے جیسے یحییٰ کے حلق میں مجیب الرحمان تھا۔ یحییٰ بھی ایسے ہی نشہء طاقت سے مغلوب تھا جیسے عاصم منیر ہے۔ تو یحییٰ نے طاقت استعمال کرکے قائد کے پاکستان کو دو لخت کیا اور اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا سوائے دائمی ذلت و رسوائی کے!
عاصم منیر کے مقدر میں بھی وہی رسوائی لکھی ہے جو یحییٰ کا نصیب بنی اسلئے کہ قانونِ قدرت کبھی نہیں بدلتا۔ کائنات کا مالک اپنی کتابِ مبین میں بہت صراحت سے کہہ چکا ہے کہ اللہ کی شریعت اور سنت میں کبھی تبدیلی نہیں دیکھوگے۔
عاصم منیر تو حافظِ قرآن ہونےکا دعویدار ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس برائے نام حافظ نے کبھی قرآن کی روح اور معنی کو سمجھنے کی کاوش نہیں کی ہو ورنہ اسے معلوم ہوجاتا کہ اللہ کی سنت یہ بھی ہے کہ وہ ہر ظالم کی قبر اس کے اپنے ہاتھوں سے کھدواتا ہے۔ عاصم منیر بھی اپنی قبر اپنے گھمنڈ اور تکبر سے کھود رہا ہے بالکل ایسے ہی جیسے یحییٰ نے کھودی تھی!
پھر یحییٰ سے عاصم تک پاکستان پر قابض جرنیلوں کا جو تہذیبی اور اخلاقی زوال ہوا ہے وہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔
یحییٰ مال و منال کے حوالے سے کرپٹ نہیں تھا جبکہ یحییٰ سے عاصم منیر جیسے بوالہوس تک جرنیلوں کی ہوسِ دنیا نے پاکستانی فوج کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ یہ پاکستانی فوج اب اس ہئیت میں فوج نہیں رہی جیسے عام فوج کا تصور ہوتا ہے بلکہ یہ اپنے کاروبار اور تجارتی اور صنعتی مشاغل کی بنیاد پر ایک بہت بڑی کارپوریشن بلکہ مافیا بن چکی ہے۔
دنیا کی اور کونسی ایسی فوج ہے، سوائے پاکستان کے، جو اسی (80) سے زیادہ مختلف اقسام کے تجارتی اور صنعتی کاروبار میں ملوث ہے اور اس حد تک ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت، جو اس فوج کا بنیادی فریضہ ہونا چاہئے، وہ تو ثانوی ہوچکا ہے اس کا کاروبار اور اس کے تجارتی مشاغل اس کی اولین ترجیح بن چکے ہیں۔
عمران کے عزم و استقلال کو جرنیلوں کی اوچھی، لچر حرکتیں اور ان کے ایماء پر بنائے ہوئے جھوٹے اور من گھڑت مقدمات ختم نہیں کرسکے، اس کے پائے استقلال میں کوئی لرزش نہیں آئی لیکن اس کے اس اعلان نے کہ اگر اس کے جائز مطالبات نہ مانے گئے تو پھر پاکستان کے عوام اس کی ہدایت اور تحریک پر سول نافرمانی یا ، گاندھی جی کی زبان میں، ستیہ گرہ سے جرنیلوں کی ملک پر گرفت کو یقینا” ڈھیلا کردینگے۔ اس کے ساتھ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے ترسیلِ زر میں کمی کا جو اعلان کیا ہے اور جس طرح ان کی پیروی میں مغربی ممالک کی حکومتیں پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر جو صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں اس نے کائر و بزدل جرنیلی ٹولے کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔
عمران خان کے پیروکار اس کی صدائے اجتماعی احتجاج اور ستیہ گرہ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے عملی اقدامات کیلئے کمربستہ ہیں۔ کمی صرف اس کی ہے کہ عمران تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے اور اس پر طرح طرح کی پابندیوں میں کوئی کمی نہیں آرہی لیکن اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے جو قائدین بظاہر عمران کی نیابت کر رہے ہیں ان کی صفوں میں انتشار اگر نہیں تو یک جہتی کا واضح فقدان ہے۔ اس خلاء کو پرکرنا بہت ضروری ہے۔
ستیہ گرہ کی تحریک صرف اسی وقت کامیاب ہوگی جب تحریکِ انصاف کی قیادت عوام کو، اپنے جانثاروں کو شفاف اور غیر مبہم ہدایات دے سکے گی۔
جبرِ حالات کا تقاضہ ہے کہ تحریکِ انصاف کی قیادت ایسی رہنمائی فراہم کرے جس میں عوام کسی ابہام کے شکار نہ ہوں۔
تحریکِ انصاف اور عمران خان کے جانثاروں اور پرستاروں کو یہ اطمینان ہونا چاہئے کہ کسی بھی ملک میں عوامی طاقت سب سے مضبوط اور بالاتر ہوتی ہے اور اس کے سامنے بدنہاد جرنیلوں کی توپیں اور گولیاں ناکام ہوجاتی ہیں۔ شام کے حالیہ انقلاب نے پاکستانی عوام کو یہی درس دیا ہے جو اس سے پہلے بنگلہ دیش کے حریت پرستوں نے حسینہ واجد کی آمریت کو اپنے عزم و حوصلہ سے تہس نہس کرکے دیا تھا۔
ضرورت صرف اور صرف اس کی ہے کہ پاکستان کے عوام اس عزم و جذبہ کے ساتھ سر سے کفن باندھ کے گھروں سے نکلیں کہ انہیں ملک دشمن جرنیلی ٹولے سے نجات حاصل کر لیں اسلئے کہ ان ہوس گزیدوں کا قلع قمع کئے بغیر پاکستان کی نجات ناممکن ہے !
آج سقوطِ ڈھاکہ کی برسی پر یہ دو قطعات ہدیہ کے طور پہ لےجائیے:
سیاہ بخت ہے وہ قوم جس کو یاد نہیں
کہ اک قیامتِ صغری ہوئی تھی ڈھاکہ میں
اسی مہینے کی سولہ (16) تھی جب سقوط ہوا
جناح کا ٹوٹ گیا ملک فوجی ڈاکہ میں
اور
میراثیوں کے ہاتھ لگی ہے زمامِ کار
کس کا منحوس سایہ مری مملکت پہ ہے
آئین کہہ رہا ہے کہ مختار ہیں عوام
جرنیل کہہ رہا ہے مری ملکیت یہ ہے!
0