ساٹھ پینسٹھ برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بعض حضرات میری طرح نوکری کے خواہشمند ہوتے ہیںگو کہ بینک سے ریٹائرمنٹ کے بعد میری پنشن ہی نہیں ہے اسی لئے میں ذرا زیادہ بھر پور طریقے سے ہر ایک کو کسی بھی آرگنائزیشن میں نوکری کے لئے کہتا رہتا ہوں تا کہ نوکری سے جو پگار ملے وہ خود کفالت میں معاون رہے اور بندہ کسی کا قرض دار بھی نہ ہو میرے بچپن کے بھائیوں جیسے دوست منیر حسین جو بیرون ِ ملک کافی عرصہ سے مقیم ہیں وہ مجلس ِ یاراں میں یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں جسے اب زیب ِ قرطاس کرنے کا موقع ملا کہ اگر اللہ نہ کرے کسی مصیبت میں پڑو تو سب کو بلکہ ہر جاننے والے کو اپنی مصیبت سے آگاہ کروتا کہ یہ لوگ بعد میں یہ کہنے کے قابل نہ رہیں کہ تم نے مجھے اُس وقت کیوں نہیں بتایا گر بتایا ہوتا تو تیرا کام ہو جانا تھا اور مصیبت کا یقینی خاتمہ ہونا تھا تو میں اسی فارمولے کو ذہن نشین کئے ہر ایک کو اپنے بیکاری کی بوریت سے آگاہی دیتا آرہا ہوں مگر مثبت نتائج کی محرومی ابھی تک مقدر سے بغل گیر ہے اور جذبہ حصول ِ روزگار دل میں ہی محو ِ استراحت ہے۔ ریٹائرمنٹ کی اس موجودہ عمر کا تعین جس نے بھی کیا ہے بہت غلط کیا ہے بابا میری اس عمر سے زیادہ عمر کے لوگ جاپان ودیگر ممالک میں خدمات انجام دیتے ہیں اور مخصوص اشرافیہ میں پیوست لوگ تو اب وطن ِ عزیز میں بھی بعد از ریٹائرمنٹ پوری مراعات کے ساتھ خزانے سے اپنا حصہ بٹورنے میں دیر نہیں لگارہے جب کہ دوسری جانب نوجواں نسل اپنی ڈگریوں کے ساتھ سائل ِ بہ کرم ہیں سیاست، ریاست اور میرے بڑھاپے سے قدرے دس گیارہ سال ہی بڑھے ہونگے مگر الحمداللہ میں ابھی بھی دوڑتا ہوتا ہوں میلوں پیدل چلتا ہوں تھک بھی جائوں تو بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالتا جبکہ میرے ملک کی سیاست جو مجھ سے تھوڑی سے باعمر ہے اپنا سارا بوجھ ریاست پہ ڈالتی ہے اور اگر سیاست کو دو گام چلنا مقصود ہو تو وہ مانگے کی لاٹھی کے بغیر چلتی نہیں غربت جتنی بھی بڑھے یہ اپنے کام ،مفادات قرضے لیکر پورا کرنے کے ہنر میں یکتا ہے سیاست وطن ِ عزیز کی کبھی غریب نہیں ہوتی کیونکہ ریاست کے سارے وسائل اس کی دسترس میں ہوتے ہیں پھر قرضے جتنے بھی بڑھ جائیں اُنھیں ادا کرنے کی ذمہ داری ریاست و عوام الناس پہ ہوتی ہے جن کے ووٹوں سے یہ منصب پر حاوی ہو کر بیٹھتی ہے ۔میں سیاست کے خلاف نہیں ہوں مگر یہ دیکھ کر دل کڑھتا ہے کہ مجھ جیسے ضرورت مند نئے نئے بوڑھے کو ایام ِ زندگی گزارنے کے لئے سہولیات ہی میسر نہیں مگر سیاست کو باعمر ہونے کے باوجود ہر قسم کی سہولیات وافر مقدار میں ملتی ہیں ۔پھر سیاست کا ان پڑھ بڑھاپا ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل سے کیسے ساری مراعات چھین کر اپنی نسلوں کے لئے مقفل کردیتا ہے ؟ چھوٹے چھوٹے بچے جو دنیاوی ماحول سے بیگانے ،اچھے برے کی تمیز سے ناآشنا جب کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو جوان ہونے والی نسلوں کا مستقبل ان مانگتے ہاتھوں کی خالی ہتھیلی پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔سیاست کیوں اپنے اس بڑھاپے میں حاصل تجربات کی روشنی میں قوم کے حالیہ مسائل جو کئی دہائیوں سے سوالیہ نشان کی صورت کھڑے ہیں حل نہیں کرتی ۔صرف اپنی نسلوں کی پذیرائی میں رہنا اچھی بات سہی مگر خط ِ غربت سے نیچے گرتی عوام کو دیکھتے رہنا اور کسی بہتر اقدام کی جانب نہ بڑھنا انسانیت نہیں فرعونیت کہلاتی ہے پیپلز پارٹی بلاول کو ،مسلم لیگ ن مریم نواز کو منصب اعلیٰ پر فائز کرنے کی کوششوں میں مصروف ِ عمل ہیں۔تحریک ِ انصاف بھی اسی سفر کے آغاز میں علیمہ خان کو سامنے لانے میں کشمکش کا شکار ہے ۔گویا تحریک ِ انصاف کی نام نہاد قیادت تو ہے مگر اپنے طور پر فیصلہ کرنے کا اختیار ان میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں اسی لئے تو سول نافرمانی کی تحریک کے مسئلے پر جو مشکل ہے کہ وقوع پذیر ہو اُس پر تقسیم ہو چکی ہے وہ دبے لفظوں میں اپنے بانی کی باتوں کو غلط قرار دے رہے ہیں صرف سوشل میڈیا ان کا جھوٹی خبروں کو ہٹلر کے وزیر ِ اطلاعات جوزف گوئبلز کی مانند پھیلانے پر دسترس رکھتا ہے۔اسی شرمساری میں راوی اپنے بڑھاپے کو لئے غم ِ روزگار کے لئے کوشاں ہے مگر سیاست کا بڑھاپا جس کے اطوار صرف اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے نہ ہوں وہ کسی لاٹھی کے سہارے تو چل سکتا ہے مگر ملکی معیشت کی راہ پہ دوڑ نہیں لگا سکتا کیونکہ سیاست اپنے مفادات کے تحفظ کو منزل قرار دے چکی ہے پھر بےشعوری کے اندھیرے اتنے پھیلے ہیں کہ عوامی نمائندہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا یوں سیاست کا بڑھاپہ اپنے عزائم کی تکمیل کرتا رہے گا۔
0