26نومبر 2024ء کی رات اسلام آباد میں جوخون کی ہولی کھیلی گئی، وہ ایک نا قابل یقین واقعہ ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وطن کے محافظ اپنے ہی نہتے عوام پر گولیوں کی بوچھاڑیں برسا دیں گے اور سینکڑوں پاکستانیوں کو ہلاک اور زخمی کر دیں گے۔ یہ پاکستانی اپنا حقِ آزادیٔ رائے استعمال کر رہے تھے جو حق انہیں پاکستان کے آئین نے دیا ہے۔وہ فتنہ فساد نہیں کر رہے تھے،نہ ان کے پاس ہتھیار تھے، اور نہ انہوں نے کوئی ایسا کام کیا تھا جس سے ارد گرد کی آبادیوںکو کوئی خطرہ ہو۔سخت سردی میں صرف اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہنے والے، اپنے بیوی بچوں اور پیاروں کو چھوڑ کرسینکڑوں میلوں کا سفر کرکے آنے والے پاکستان کے نو جوان صرف یہ بتانا چاہتے تھے، ان کے محبوب قائد کو اور اس کی تحریک کے ہزاروں کارکنوں کو جنہیں بلا کسی وجہ کہ جیلوں میںڈالا ہوا ہے انہیں چھوڑ دیا جائے۔ان پر جھوٹے، بے بنیاد مقدمے نہ بنائے جائیں، اور مذاکرات سے مسائل حل کیے جائیں۔
اس رات کے مناظر سوشل میڈیا پر وائرل تھے۔ ایک افسوسناک منظر تھا کہ ایک نوجوان کو نماز پڑھتے ہوئے اس یزیدی فوج کے سپاہیوں نے کنٹینرسے 35فٹ کی بلندی سے دھکا دے کر نیچے گرایا، جس سے اس کو شدیدچوٹیں آئیں کیونکہ وہ کنٹینر دو اور کنٹینروں کے اوپر تھا۔ پھر دہشت ناک وہ مناظر تھے کہ عوام بھاگ رہے تھے اور مکمل تاریکی میں لوگوں پر گولیاں برسائی جا رہی تھیں۔بعد میں تحریک نے بارہ بندوں کی شہادتوں کی تصدیق کی اور کہا کہ ان کی تلاش جا ری ہے۔ کیا پاکستان کی افواج کو عوام اپنے ٹیکسوں سے تنخواہیں اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ان پر گولیاں چلائیں؟یہ کتنی بربریت ہے، اسے ہی فسطائیت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سارے اندوہناک واقع کا خالق یہ جعلی وزیر اعظم شہباز اور اس کا وزیر داخلہ جو در اصل فوج کا نمائندہ ہے، دونوں ہیں۔ان کی مرضی اور احکامات کے بغیر اتنا ظلم نہیں کیا جا سکتا۔
کہتے ہیں کہ گولیاں چلانے کے بعد لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال بھی نہیں پہنچایا گیا ۔ جو وہاں پہنچ گئے ان کے ریکارڈغائب کردیئے گئے اور صبح ہونے سے پہلے تمام نشانات مٹا دئیے گئے اور وزیر داخلہ نقوی نے کہا کہ کوئی ایسا واقع ہوا ہی نہیں ورنہ مجھے ایک لاش ہی دکھا دو۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کسی سوچی سمجھی سکیم کے مطابق کیا گیا تھا۔
مین میڈیا نے اس سارے واقع کی کوئی خبر نہیں دی ۔ جو خبر پھیلائی گئی اس میں چار اہلکاروں کی ہلاکت کا ذکر تھا جو کسی گاڑی نے کچل دئیے تھے۔ اور دو شہری مارے گئے تھے۔ بس۔تحریک کے کارکن وقاص اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ جوا خباری نمائندے اس واقعہ پر لکھ رہے تھے، ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ان میں سے کئی لا پتہ ہیں۔ اور یہ کہ تین دن تک لاشیں ورثاء کے حوالے نہیں کی گئیں۔حکومت لاشوں اور ثبوتوں کو چھپا رہی ہے۔ہسپتالوں کو منع کیا گیا ہے کہ کوئی حقائق اخباری نمائندوں کہ نہ بتائیں۔شیخ صاحب نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد حکام نے پانچ ہزار پانچ سو افراد کو احتجاج کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا ہے۔ جن افراد نے سرکاری وردی پہن کر عوام کی گاڑیوں کو تباہ کیا، وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔بجائے اس کے کہ عوام کی حفاظت کی جائے یہ الٹا عوام اور ان کی املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک اور قائد ایوب گوہر نے ایک عدالتی تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے رسمی طریق کار یعنی ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ بھی کیا جو پولیس نہیں کر رہی۔
راقم کو افسوس ہے کہ اس سیاسی بحران میں حکومت نے پولیس کے ادارے کو مکمل کرپٹ کر دیا ہے۔ یہ پولیس اپنے سارے رولز اور ریگولیشنز چھوڑ کرغنڈہ گردی پر اتر آئی ہے۔ بجائے شہریوں کی حفاظت کے ان کے کپڑے اتارتی ہے اور انہیں شرمندہ کرتی ہے۔ کیا آنے والی نسلوں کو یہی سکھایا جائے گا؟ صرف پولیس ہی نہیں، دوسرے قومی ادارے بھی غلط کام کر کے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔
26نومبر کے واقعات کو امریکی ویب سائٹ ڈراپ سائٹ نیوز میں مرتضیٰ حسین ور رائن گریم نے مندرجہ ذیل الفاظ میں قلمبند کیا ہے:
ان کی رپورٹ کی سرخی ہے: خفیہ ذرائع سے پتہ چلا ہے، کہ’’ پاکستانی فوج نے احتجاجیوں کو سفاکانہ طریقوں سے منتشر کرنے کا منصوبہ بنایا، جن میںاصل گولیوں کااستعمال اور بعد میں حالات کو چھپانے کا منصوبہ شامل تھا۔‘‘ اس منصوبہ کے مطابق، محبوس سابق وزیر اعظم، عمران خان کی حمایت میں نکلنے والے احتجاجیوںکا قتل و غارت کرنا شامل تھا۔یہ بات فوجی حلقوں کے اندر سے پتہ چلی اور دوسرے ذرائع نے اس کی تصدیق بھی کی۔حکومتی منصوبوں میں ذرائع مواصلات کی معطلی، نشانچی، آنسو گیس سے لیس مسلح فوجی دستے، اسلا م ا ٓباد کے وسط میںحد بندیاں اور اصل گولیوں کا استعمال، جیسی تیاریاں بتاتی ہیں کہ پاکستان کی فوجی حکومت کس قدر احتجاجیوں سے خوف زدہ تھی۔ اس کے ساتھ انہی ذرائع کے لرزہ خیزانکشافات اور ان کے ساتھ حکومت کے مسلسل انکار، سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو یقین ہے کہ وہ تحریک انصاف کے احتجاج کی کمر توڑ دیں گے اور شرکاء کو سبق سکھائیں گے۔ایک دوسرے با خبر ذریعہ کا ان خبروں کی تصدیق کرنا ثابت کرتا ہے کہ یہ فوجی منصوبہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے۔
خان نے 26 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کے اعلان پر ہزاروں کارکن، سارے ملک سے ، ساری رکاوٹیں عبور کرتے،اسلام آباد پہنچے، با وجود اس کے کہ انٹر نیٹ بند کر دیا گیا تھا، اور ان پر آنسو گیس کے بم برسائے جا رہے تھے۔ان احتجاجیوں کے ایک دستہ کی سر براہی خان کی بیگم بشرا بی بی کر رہی تھیں۔ اور دوسرے کی قیادت ، خیبر پختون خوا ہ کے وزیر اعلیٰ،علی امین گنڈاپور کر رہے تھے۔ یہ وہ واحد صوبہ تھا جہاں تحریک کی حکومت تھی۔احتجاج کی وجہ سے، حکومت نے واٹس ایپ جیسی سوشل میڈیا کی سائٹ بند کروا دی تھی۔ اور ملٹری کو دارالحکومت میں بلا لیا گیاتھا، ان اختیارات کے ساتھ وہ اپنی مرضی سے گولی چلا سکتے تھے۔حکومت کا دعویٰ تھا کہ احتجاجی اسلام آباد تک نہیں پہنچیں گے۔لیکن 26کی شام تک وہ ڈی چوک سے چند فٹ کے فاصلے اور اسلام آباد کے وسط تک پہنچ چکے تھے جو کہ علامتی طورپر وفاقی حکومت کا مرکز ہے۔حکومتی ہدف اس وقت یہی تھا کہ کسی طرح احتجاجیوں کو ڈی چوک سے پرے دھکیل دیا جائے، جسے فوج کے لیے ایک آخری قلعہ سمجھا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق، جنہوں نے مصدقہ حوالوں سے ثابت کیا ، یہ فوجی منصوبہ 25کی صبح، فوج کے آپریشنز کے ڈائریکٹشن میں، سپہ سالار، جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں بنایا گیا تھا۔ اس منصوبہ کے مطابق ڈی چوک کے سامنے کی بڑی سڑک، جناح ایونیو، کو کنٹینرز کے ساتھ گھیرے میں لے لیا جائے گا۔ عمارتوں کی چھتوں پر، فوج کے مخصوص شعبہ کے نشانچی تعینات کیے جائیں گے، ان کے علاو ہ رینجرز جن کے پاس حملہ کرنے والی خاص بندوقیں ہوںگی، وہ سڑکوں پر ، مسلح پولیس کے دستوں کے ساتھ گشت کریں گے جن کے پاس آنسو گیس کے بم ہونگے۔
جیسے شام ہوئی ، تحریک کے ہزاروں احتجاجی کارکن جناح ایونیو پر، ڈی چوک کے قریب اکٹھے ہو گئے۔فوجی ہائی کمانڈ کے احکامات واضح تھے کہ احتجاجیوں کو ہر قیمت پر ڈی چوک کی طرف جانے سے روکاجائے۔ اس حکم پر عمل کرنے کے لیے فوج نے کثیر الجہتی تدابیر اختیا رکیں۔پہلا طریقہ ہجوم میں انتشار پیدا کرنا تھا۔جناح ایونیو کی ساری روشنیاں بند کر دی گئیںجس سے گھپ اندھیرا ہو گیا۔اسی وقت فوج کے مواصلاتی شعبہ نے تمام مواصلاتی ذارئع کو بند کر دیا، جس سے احتجاجی نہ آپس میں بات کر سکتے تھے اور نہ علاقے سے باہر جا سکتے تھے۔ یوںتاریکی پھیلانے کا مقصد احتجاجیوں کو حراساں کرنا اور ان میںمایوسی پھیلانا تھا۔اس کے بعد جب احتجاجیوں میں بھگڈڑمچی، تو منصوبہ کا دوسرا مرحلہ شروع کیا گیا جس میں سب طرف آنسو گیس کے ڈبے پھینکے گئے،جس سے متاثر افرادجدھر رستہ ملا بھاگ کھڑے ہوئے۔مگر افسوس کہ یہ صرف بڑے حملے سے پہلے کے واقعات تھے۔
اس کے بعد ، اصلی گولیوں کی بارش کی گئی، جس میں جارحانہ حملہ کرنے والے مشین گن جو بھون کے رکھ دیتی ہے، اس سے بھاگتے ہوئوں پر ہر طرف گولیا ں برسائی گئیں۔ اس وقت جو نشانچی عمارتوں کی چھتوں پر تھے انہوں نے ایسے افراد پر نشانے لگائے جو ان کو مشکوک نظر آئے۔اس رپورٹ کے مطابق شروع میںگولیوں کے چلنے سے ہی بہت سے بھاگ نکلے۔یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کس نے بھاگتے ہوئوں پربھاری مشین گن چلانے کا حکم دیا تھا؟
اس خون ریزی کے وقت خان کی ہمشیرہ علیمہ خان جائے وقوعہ پر موجود تھیں۔انہوں نے ان رپورٹروں کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا کہ جب مکمل اندھیرا چھا گیا تو جو کاریں کھڑی تھیں انہوں نے بھی حملہ کے ڈر سے اپنی بتیاں بجھا دیں اور سیل فون بھی بند کر دیئے۔جو نو جوان تھے انہوں نے آنسو گیس کے ڈبے اٹھا اٹھا کر واپس پھینکنے شروع کر دئیے۔جبکہ بزرگ احتجاجی جائے پناہ ڈھونڈنے لگے۔ جلوس سارا دن بڑے اچھے موڈ میں تھا جیسے جشن منا رہے ہوں۔ بہت سے کارکنوں کے بچے بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ وہ کسی صورت بھی کسی جھگڑے کی نیت نہیں رکھتے تھے۔
اس آپریشن کے دوران، بڑے اور چھوٹے ڈرون ، کمانڈ سینٹر میں بیٹھے افسروں کو تازہ ترین حالات کا جائزہ پہنچا رہے تھے۔اس قدر ٹیکنیکل مہارت کا استعمال بتاتا ہے کہ یہ سارا خون بہانا ، پہلے سے منصوبہ کا حصہ تھا۔اس خونی منصوبہ کا آخری حصہ اس جگہ کو مکمل طور پر صاف کرنا تھاتاکہ د ن کی روشنی میں پتہ بھی نہ چلے کہ رات کو کیا کچھ ہوا۔جیسے ہی فائرنگ بند ہوئی، آئی ایس آئی کے کار کن جائے وقوعہ پر بھیجے گئے تا کہ وہ تمام خون ریزی کے نشانات مٹا دیں۔انہوں نے لاشوں کو اٹھایا، گیس کے ڈبے، اور جو کچھ بھی نشانی ہو سکتا تھا سب اٹھا دیا تا کہ حکومت کہہ سکے کہ ہم نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔
ذرائع نے جو کچھ بتایا، وہ کئی غیر جانبدار،ا ورذرائع سے بھی صحیح پایا گیا۔چشم دید گواہوں نے جنہوں نے یہ سارا ماجرا خوددیکھا، کچھ نے بین الاقوامی میڈیا پر اس معاملہ کی روئیداد شائع بھی کی۔ کہ کیسے نشانچیوں نے عمارتوں کی چھتوں سے ہجوم پر گولیاں ماریں، وہ بھی سچی گولیاں۔ میڈیکل کے لوگوں نے بی بی سی اور گارڈین کو بتایا کہ انہوں نے کتنے بے شمار گولی لگنے سے زخمی ہونے والوں کا علاج کیا اور کتنے شہدا کو دیکھا۔ ایسی شہادتوں کو چھپانے کی کوششوں کے بھی ثبوت ہیں جب کہ زبردستی ہسپتال سے ریکارڈ اٹھالئے گئے اور طبی سٹاف کو انتباہ کیا گیا کہ وہ خاموش رہیں۔نشانچیوں کی موجودگی اور نشانہ بازی کی وڈیو منظر عام پر آ چکی ہیں اور ایک سپاہی سے ایسی رائفل بھی پکڑی گئی۔ اس واقعہ کو چھپانے کی کوششیں زور شور سے کی گئیں،یہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک معروف صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا،حراست میں رکھا گیا اور الزام لگایا گیا کہ اس کے پاس منشیات تھیں جو بقول اس کے جھوٹا الزام تھا۔ جب کہ درحقیقت مطیع اللہ جان نے اپنی گرفتاری سے پہلے ایک ٹی وی شو میں ثبوت پیش کیے کہ کس طرح ہسپتال کے ریکارڈ سچ بتاتے ہیں۔ اس وقت جان پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ زخمیوں کی تعداد کی چھان بین کر رہا تھا، جب کالی وردیوں میں ملبوس افراد نے انہیں گرفتار کیا اور ان پر دہشت گردی اور منشیات کے الزام لگائے۔ بعد میں ضمانت پر رہا ہونے پر جان نے سب الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں۔
پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ 14 افراد شہید ہوئے ہیں اور دو سو کے قریب زخمی۔لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے، کیونکہ سینکڑوں افراد لا پتہ ہیں، اور ہزاروں زیر حراست ہیں۔‘‘
اس رپورٹ میں نا قابل تردید واقعات بتائے گئے ہیں۔ اگر یہ واقعی سب سچ ہے تو فوج پر بہت سے سوالوں کا جواب دینا بنتا ہے اور فوج سے زیادہ وزیر اعظم پر جنہوں نے دو دن پہلے فوج کو اسلا م آباد میںتعینات کیا، اور جس سے اس الزام کو اور بھی تقویت ملتی ہے کہ یہ سب ایک پہلے سے تیار منصوبہ تھا۔
0