26 نومبر کو اسلام آباد میں مظلوموں کے خون کی ہولی کھیلی گئی اور کھیلنے والے وہ تھے جو بزعمِ خود پاکستان کے اور پاکستانی قوم کے محافظ ہیں!
ایک دنیا میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں جس کی عرفیت بین الاقوامی برادری میں “اسلامی جمہوریہء پاکستان” کی ہے اور جسے اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے وہ کام ہوا ہے جو منگولوں کے ہاتھوں زیر ہونے والی بستیوں کا ہوا کرتا تھا اور تاریخ آجتک اس بربریت کی مذمت کرتی آئی ہے۔ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے ہاتھوں اس دور کے عروس البلاد شہر بغداد میں اس کے باسیوں کا جس بیدردی اور سفاکی کے ساتھ خون بہایا گیا تھا تاریخ کے اوراق آج بھی اس کے تذکرے سے خون آلود ہیں!
مورخ یہ کہتا ہے کہ منگولوں کی سرشت میں بربریت اور خونخواری تھی اور وہ اس عہد میں دنیا کے فاتح بنے جب علم کی روشنی ان کے دیار اور دماغوں تک نہیں پہنچی تھی۔ سو مورخ یہ کہتا ہے کہ اس جدید اور علم آشنا عہد میں منگولوں یا ان کے قبیل کے دیگروحشی سورماؤں کے وجود کا تصور نہیں کیا جاسکتا !
اور پھر منگولوں کی بربریت کی خونچکاں تاریخ کا حرفِ آخر یہ ہے کہ وہ جو بھی روح فرسا مظالم ڈھاتے تھے وہ ان کے خلاف ہوا کرتے تھے جنہیں وہ غیر سمجھتے تھے، دشمن گردانتے تھے۔ اپنے عوام، اپنے لوگوں کے حق میں تو وہ ظالم بالکل بھی نہیں تھے!
اس دلیل سے یہ جواز پیدا ہوتا ہے کہ اپنے لوگوں پر، اپنے عوام پر کون ہوگا جو وہ سلوک کرے گا جو منگول اپنے دشمنوں کے ساتھ روا رکھتے تھے؟
24 نومبر کو جب پاکستان کے غیور اور حریت پرست عوام اپنے محبوب قائد، اس عہد کے منگولوں کی قید میں محبوس، عمران خان کی جمہوریت کے حق میں تکبیر پر لبیک کہتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں جتھے بنا کراپنے گھروں سے نکلے، اس عزم اور حوصلے کے ساتھ کہ وہ اپنے ہردلعزیز قائد کو یزیدیوں کی قید سے رہائی دلا کر ہی دم لینگے تو میں ایک ٹی وی چینل پر لائیو پروگرام کر رہا تھا۔
اس پروگرام کے اینکر نے مجھ سے کہا کہ کٹھ پتلی حکومت نے، اپنے سہولت کار یزیدی جرنیلوں کے ایماء پر اسلام آباد کو کنٹینیرستان تو بنا دیا ہے لیکن عوام اپنے جوش اور جزبہ میں ان آہنی حصاروں کو توڑتے اور پامال کرتے ہوئے اگر اسلام آباد کے قلب تک پہنچ گئے تو کیا یہ ممکن ہے کہ فوج کے جوان اور رینجرز اپنے ہی لوگوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بناسکیں ؟
اس سے قبل کہ میں اینکر کے اس سوال کا جواب دیتا میں نے ان سے کہا تم بتاؤ کہ تمہارا جواب کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ ہماری افواج کے جوان اپنے لوگوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔
میں نے ان کا جواب سن کر کہا، آپ پاکستان کی “بہادر” فوج کی تاریخ بھول رہے ہیں۔ ان کی بہادری کا واحد کارنامہ تو یہی ہے کہ یہ اپنے عوام کے سینوں کو اپنی گولیوں سے چھلنی کرتے ہیں! یہی تو ان کی بہادری ہے، شجاعت کے تمغے جو یہ اپنے سینے پر سجاتے ہیں وہ دشمن کےخلاف بہادری کے کارناموں کی سند نہیں ہیں بلکہ یہ اپنے لوگوں کو زیر کرنے اور ان کا خون بہانے کا اعلان ہے جو یہ تمغوں کی شکل میں اپنی وردی کی رونق بڑھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ گلی کے شیر ہیں، میاں، دشمن کے سامنے تو ان کی گھگھی بند جاتی ہے!
اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ دو دن بعد، 26 نومبر کے دن، ہمارے بہادر جوانوں نے روشنیاں گل کرکے اندھیرے میں اپنے عوام کے سینوں کو چھلنی کیا اور ان کی جانوں کے ساتھ یوں شکار کھیلا جیسے شکار کے شوقین جنگل میں درندوں کے ساتھ کھیلا کرتے ہیں!
میں دعا کر رہا تھا کہ عوامی احتجاج کے آغاز پر میں نے جو پیشن گوئی کی تھی وہ درست ثابت نہ ہو اور عوام کا پرجوش احتجاج بغیر خون خرابے کے اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔
لیکن وہ جو فیض احمد فیض نے کہا تھا؎
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے
میں بھول گیا تھا کہ ٹھگوں کا جو یزیدی ٹولہ جرنیلوں کی زرق برق وردیاں پہنے ہوئے راولپنڈی کے فوجی قلعہ پر قابض ہے، آج سے نہیں بلکہ گزشتہ ستر برس سے، ان کے سینوں میں قصائیوں کا دل ہے جو خون بہائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا۔ اور پھر ہمارے یزیدی جرنیلوں کی تو تاریخ یہی ہے کہ ان کی بہادری صرف اپنے نہتے عوام کے سامنے بندوقیں تان کے نظر آتی ہے۔ دشمن کو دیکھ کے تو یہ بکری ہوجاتے ہیں اور ممیانے لگتے ہیں۔
میری بات اگر مبالغہ لگے، کسی کو بھی، تو وہ مشرقی پاکستان کے جبری الگ ہونے کی تاریخ ایک بار پھر سے پڑھ لے اسلئے کہ عاصم منیر، جو یزیدیوں کا سالار ہے اور خصلت سے قصائی لگتا ہے، اس کی سربراہی میں پاکستان کی وہی المناک تاریخ دہرائی جارہی ہے جس نے پاکستان کے بابائے قوم کے ملک کو دو لخت کیا تھا اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کے دلوں پر وہ سانحہ آج بھی ایک چٹان کی طرح رکھا ہوا ہے جو ہٹائے نہیں ہٹتی !
اس وقت مشرقی پاکستان میں ہماری فوج کی کمان جس بزدل کے پاس تھی وہ اپنے آپ کو “ٹائیگر” کہلواتا تھا لیکن چوہے کی طرح بزدل اور ڈرپوک نکلا جب بھارتی فوج کا سامنا کرنا پڑا۔ اس چوہے نے جس بھارتی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈال کر نوے ہزار فوجیوں کو جنگی قیدی بنوایا تھا، جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی کہ اس کثیر تعداد میں کسی فوج نے ہتھیار ڈالے ہوں، اس جرنیل نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ نیازی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد جب بھارتی فوج نے پاکستان فوج کے اسلحہ خانہ پر قبضہ کیا تو بھید کھلا کہ نیازی کے پاس اتنا اسلحہ تھا کہ وہ بغیر کسی کمک کے کم از کم تین مہینے تک ڈھاکہ اور گرد و نواح کا دفاع کرسکتا تھا!
اسلحہ تھا، بے شمار تھا، چوہے نیازی کے پاس لیکن وہ دل نہیں تھا جو دشمن کے خلاف لڑسکے۔ اسے تو صرف اپنے لوگوں پر گولی چلانا آتا تھا اور اسی نشہ سے مغلوب اس نے ڈینگ ماری تھی کہ وہ بنگالیوں کی نسل بدل دے گا۔ بنگالیوں کی نسل تو وہ کیا بدلتا لیکن مشرقی پاکستان کے غیور بنگالی عوام نے اپنے جذبہء آزادی سے نہ صرف اپنی آزادی یزیدیوں سے حاصل کی بلکہ قیامت تک کیلئے دنیا کی تاریخ میں یہ باب بھی رقم کردیا کہ پاکستان کے جرنیل محض کاغذ کے شیر ہیں !
عاصم منیر بھی چوہے نیازی کے قبیلے سے ہے، اسی بزدل کا بزدل شاگرد ہے !
یہ وہ جرنیل ہے جسے پاکستانی فوج کا سالار نہیں ہونا چاہئے تھا اسلئے کہ یہ اس عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے ہی فوج سے ریٹائر ہوچکا تھا۔ تو یہ زبردستی کا فوج اور پاکستان کی قوم پر مسلط کردہ سالار ہے۔ اور اس کی بے غیرتی کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ حافظِ قرآن ہے لیکن قرآن کے اس کے علم کا یہ عالم ہے کہ اسے اللہ کا وہ حکم یاد نہیں کہ ایک بیگناہ اور معصوم کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے !
سو 26 نومبر کی شام اسلامی جمہوریہء پاکستان کے دارالحکومت میں ناجائز سالارِ فوج کے حکم پر جو خون کی ہولی مظلوم اور معصوم پاکستانی عوام کے ساتھ کھیلی گئی اس میں سینکڑوں پاکستانی ہی ہلاک نہیں ہوئے بلکہ انسانیت قتل ہوئی ، جمہوریت قتل ہوئی اور یہ خونی کھیل ان جرنیلوں کے ایماء سے کھیلا گیا جو پاکستانی قوم کے خود ساختہ محافظ ہیں لیکن اس کے عوام پر ڈاکہ ڈالنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور ملک کو اپنی جاگیر گردانتے ہیں !
کٹھ پتلی حکومت نے، جس میں ایک سے ایک بڑا رسوائے زمانہ اور بدنام ہے، یہ بیہودہ دعوی کیا، اور اب بھی اس پر مصر ہے کہ کوئی گولی نہیں چلی، کوئی ظلم نہیں ہوا تو خدا جانے کہ وہ سینکڑوں معصوم تحریکِ انصاف کے کارکنان اور فدائین جو ہلاک ہوئے، اور جن کی ہلاکت کی تصدیق اب وہ ضمیر فروش صحافی بھی کر رہے ہیں جنہیں پاکستان کے عوام “لفافہ” جرنلسٹ کہتے ہیں، کیا کسی خدائی مخلوق کی بربریت اور سفاکی کے شکار ہوئے؟
صاف ظاہر ہے کہ عالمی شہرت یافتہ چور، شہباز شریف اور اسی کے ہم پیشہ و ہم نوالہ دیگر چور جو کٹھ پتلی حکومت کی طرف سے یزیدی جرنیلوں کی دی ہوئی راگنی الاپتے ہیں اتنے بے شرم اور پاکستانی عوام کے ایسے کھلے دشمن ہیں کہ وہ اپنے سیاہ کرتوت پر شرمندہ ہونا تو الگ رہا اب عوام کے زخموں پر یوں نمک پاشی کر رہے ہیں کہ بقول ان چوروں کے تحریکِ انصاف ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پابندی لگنی چاہئے۔ بلوچستان اسمبلی میں تو اس کے حق میں قرارداد منظور بھی ہوچکی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں یہ کوشش بلیک میلر رانی مریم نواز کی لاکھ کوشش کے باوجود یوں منظور نہ ہوسکی کہ پیپلز پارٹی کو نہ جانے کیسے اتنی غیرت آگئی کہ وہ تحریکِ انصاف کے خلاف اس شرپسندی کیلئے آمادہ نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کٹھ پتلیاں یہ بھی چاہ رہی ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں عوام کی حمایت اور تائید سے بننے والی حکومت کو، جس کی کمان علی امین گنڈا پور کے پاس ہے، برخاست کرکے وہاں گورنر راج نافذ کردیا جائے۔
یہ وہ شر پسند آوازیں ہیں جو عاصم منیر کے یزیدی ٹولہ کے حکم پر لگائی جارہی ہیں اور جن کا ہدف پاکستان کو مکمل طور پر ایک فسطائی ریاست بنادینے کا ہے۔
قرآن گواہی دے رہا ہے کہ ابلیس کے فرزند اور شاگرد اپنی اپنی مکاری کے منصوبے بناتے رہتے ہیں لیکن کائنات کا بنانے اور چلانے والا مالک و مختار خیر الماکرین ہے، آخری منصوبہ ساز ہے جس کے منصوبے ان شیطانوں کے منصوبوں کو یوں نگل لیتے ہیں جیسے موسی ؑ کےعصا سے نکلنے والا سانپ فرعون کے جادوگروں کے پھینکے ہوئے سانپوں کو نگل گیا تھا۔
عاصم منیر اور اس کے فرعونی ٹولہ کا انجام بھی موسیؑ کے فرعون سے الگ نہیں ہوگا، اگر اللہ کو پاکستانی قوم پر رحم منظور ہے تو!
عاصم منیر کیلئے یہ چار مصرعے میری طرف سے ہدیہ ہیں:
؎نسل سے قصاب کی لگتا ہے یہ عاصم منیر
خون سے مظلوم کے جس کی نہیں بجھتی ہے پیاس
پیشہ ور قاتل ہے یہ ابلیس کا شاگردِ خاص
غرقِ دریا جلد یہ فرعون ہوگا یہ ہے آس!
0