چند برسوں پہلے کچھ جائزے لیے گئے جن سے ظاہر ہوا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد، دو ارب ہونے والی ہے اور تین چار دہائیوں میں ان کی تعداد عیسائیوں سے بھی بڑھ جائے گی۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ مسلمان صنعتی اور اقتصادی میدان میں بہت پیچھے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ تعلیم ہے جس شعبہ میں وہ عیسائیوں سے بہت پیچھے ہیں۔ اور یہ عام بات ہے کہ تعلیم اور اقتصادی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جو ملک تعلیم کے شعبہ میں آگے ہیں وہ ترقی یافتہ ہیں۔ اقتصادی اور صنعتی ترقی سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم سے ملتی ہے۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ جس پیغمبر پر ان کا ایمان ہے اور اس کی سنت پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں، اور قران مجید کو اللہ کا کلام جانتے ہیں، تعلیم سے متعلق قرانی تعلیمات کو بھی نظر انداز کرتے ہیں اور رسول کی ہدایات کو بھی۔ وہ اس لیے کہ چند گمراہ مذہبی مشائخ نے مسلمانوں کو کہا کہ جس تعلیم کا ذکر قران اور حدیث میں ہے، وہ دینی تعلیم ہے ، نہ کہ دنیاوی تعلیم۔مسلمانوں نے ان کی تشریح کو مان لیا اور یہ نہ سوچا کہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔اس کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، اللہ کا پہلا حکم جواس کے پیغمبر کو ملا وہ تھا، پڑھ، اپنے رَب کے نام سے۔ پیغمبر نے کہا کہ میں تو پڑھنا نہیں جانتا، تو ان کی مراد لکھے ہوئے کو پڑھنا ہی تھی۔ دوسرے لفظوں میں لکھی ہوئی عبارت کو پڑھنا، اللہ کا حکم تھا۔ اس سادہ سی بات کی اُلٹی تشریح کر کے مسلمان مشائخ نے مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کی قسمت پر مہر لگا دی۔ اس لیے کہ مسلمان خلیفہ کو ڈر پیدا ہوا کہ اگر مسلمان پڑھ لکھ گئے تو وہ حکمراں پر نکتہ چینی کریں گے اور حکومت کرنا دشوار کر دیں گے۔یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کو بس اتنی تعلیم دلوائی گئی جس سے وہ قران مجید پڑھ سکیں لیکن انگریزی، سائنس، ریاضی نہ پڑھیں۔ کم از کم ہندوستان میں اور افریقہ میں جہاں ان مشائخ کا حکم مانا جاتا تھا، وہاں کے مسلمان عموماً ان علوم میں جاہل رہے۔ ہندوستان میں تا وقتیکہ سر سید احمد خان نے جب دیکھا کہ ہندو انگریزی اور سائنس پڑھ رہے ہیں اور ان کو انگریز کے دفتر میں اچھی اچھی نوکریاں مل رہی ہیں تو انہوں نے مسلمانوں کو انگریزی پڑھنے کی تلقین کی اور کسی حد تک اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔ مسلمانوں کی زیادہ تعداد دیہاتوں میں رہتی تھی جہاں مدرسوں کے پڑھے طلباء مسجدوں میں نماز پڑھاتے اور مذہبی معاملوں میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ ان طلباء کو صرف قران پڑھنا سکھایا جاتا تھا اور وہی تعلیم جو مولویوںنے دی تھی۔مدرسوں سے فارغ ا لتحصیل طلباء کوکو ئی ایساہنر نہیں دیا جاتا تھا جس سے وہ کاروباری دنیا میں یا سرکار کے دفتر میں استعمال کر سکیں۔ چنانچہ یہ بے چارے اِسی کوشش میں رہتے تھے کہ کہیں مسجد بن جائے اور اس میں انہیں موذن یا امام رکھ لیا جائے۔ہماری قوم کی بے حسی دیکھیے کہ ان لاکھوں نوجوانوں کےلئے سوائے چوکیداری یا ٹھیلے پر سودا بیچنے یا اسی قسم کے اور بے ہنری کے کاموں کے اور کوئی راستہ نہیں بنایا گیا۔
مسلمانوں میں تعلیم سے محرومی کا احساس شاعر مشرق علامہ حضرت ڈاکٹر سر محمد اقبال کو بھی ہوا۔ انہوں نے سوئی ہوئی امہ کو، خصوصاً نو جوانوں کو جو جگانے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا، اس میں تعلیم کو بھی ضروری سمجھا۔ لیکن اس کے لیے علامہ نے بجائے ذمہ داری حکومت اور نظام ِتعلیم پر ڈالنے کے ، سیدھی سیدھی نوجوانوں پر ہی ڈال دی۔ وہ ایسے کہ بچوں میں علم حاصل کرنے کی تمنا اس قدر بڑھ جائے کہ وہ علم کے عاشق بن جائیں۔اور عشق بھی کیسا؟ ایسا عشق جیسا پروانے کو شمع کے ساتھ ہوتا ہے اور اسے پانے کے لیے وہ اپنی جان بھی نچھاور کر دیتا ہے۔پروانے کو طالب علم سے مشابہت د ے کر اور شمع کو علم سے ، علامہ نے ایک ایسا جذبہ پیدا کرنے کی سعی کی ہے جو انسانی تاریخ میں بے مثال ہے۔در حقیقت اس دعا کا ہر شعر بچوں کے کریکٹر کو اعلیٰ بنانے کی سعی کرتا ہے۔ بشرطیکہ دعا گو بچے اس نظم کے ہر شعر کو سمجھ کر پڑھیں۔پوری دعا کو ملاحظہ فرمائیے:
لَب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری ۔ زندگی شمع کی صورت ہو خُدایا میری
دُور دنیا کا میرے دم سے اَندھیرا ہو جائے ۔ ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے
ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت ۔ جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب ۔ علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا ۔ درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو ۔ نیک جو راہ اُسی رہ پر چلانا مجھ کو!
راقم جب لاہور کارپوریشن کے پرائمری سکول میںپڑھتا تھا تو ہر صبح ہم تمام بچے سامنے کے میدان میں قطار بنا کر کھڑے ہو جاتے تھے، اور ایک بچہ یہ دعا پڑھتا تھا اور ہم سب ایک کورس میں اُسے دہراتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ دو سال ہم نے ہر روز، سوائے چھٹی والے دنوں کے یہ دعا پڑھی لیکن مجال ہے کہ کبھی اس کے معنوں پر غور کیا یا کسی استاد کو توفیق ہوئی ہو کہ وہ ہمیں سمجھاتا کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں اور اس دُعا کے اشعار کا مطلب کیا ہے۔اب سوچتا ہوں کہ ہمارے اساتذہ بھی غالباً اوپر سے آنے والی ہدایات کے مطابق ہمیں یہ نظم تو پڑھواتے تھے لیکن اس کے مطالب پر انہیں کبھی غور کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔
اگر بچوں کی یہ دعا قبول ہو جاتی توکیا ہوتا؟
پہلی بات تو یہ کہ اس طالب علم کی زندگی مانند مشعل ہوتی کہ جہاں وہ جاتا علم کی روشنی پھیلاتا ۔ اس کا وجود اس قدر خوبصورت ہوتا جیسے کہ پھول۔ نرم و نازک،جس کی مہک سے ماحول مہک جاتا۔اور اس کے مختلف رنگ ماحول کو رنگین بنا دیتے۔
اس کی زندگی اس پروانے کی طرح ہوتی جو علم کے عشق میں دیوانہ وار علم کی طرف لپکتا، خواہ اس جد و جہد میں اسکی جان ہی چلی جاتی۔یعنی علم حاصل کرنا اس کا مقصد حیات ہوتا۔اب اس سے زیادہ ایک طالب علم میں علم حاصل کرنے کی خواہش کیسے پیدا کی جا سکتی تھی۔علم کی شدید خواہش کے ساتھ ساتھ یہ نوجوان غریبوں کی حمایت کرتا۔ یعنی غربت کے خلاف نبرد آزما ہوتا۔ ملک سے اقتصادی نا ہمواری کو مٹانے میں کام کرتا۔ اس کے ساتھ وہ اچھے لوگوں اور ضعیفوں سے ہمدردی کرتا اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا۔نظم کا آخری شعر اس کے چال چلن کو نیکی کی راہ پر راغب کرتا اور وہ برائیوں سے بچتا، اور اچھے کام کرتا۔
ذرا سا غور کرنے کی بات ہے کہ اگر طلباء کو یہ نظم رٹا کر اس کا مطلب بھی ذہن نشین کروا دیا جاتا تو ہمارے طالب علموں میں، سب میں نہ سہی، کچھ میں تو یہ خوبیاں پیدا ہوتیں؟
پاکستان میں جہاں ہمارے کم خواندہ مذہبی رہنمائوں نے جو جو معاشرے میں نقصانات کیے ان میں سے ایک بہت بڑا نقصان بچوں میں تعلیم سے بد گمانی اور نفرت کے جذبات ابھارنا تھا۔کہتے تھے کہ ڈنڈے کو استعمال نہ کرنا بچوں کو خراب کرنے کے برابر ہے۔ یہ ایک انگریزی کی کہاوت تھی ۔بچے کے والد جب استاد کے پاس بچے کو پڑھوانے کے لیے لاتے تھے، تو اسے کہتے تھے کہ اس بچہ کی کھال آپ کی اور ہڈی ہماری۔ یعنی اس کو سکھانے کے لیے جتنا مرضی چھڑی کا استعمال کرنا ۔ بس اتنا کہ یہ زندہ ہمیں واپس مل جائے۔ جو مدرسوں کے استاد تھے وہ بچوں کو پڑھانے میں بے دریغ تشدد کرتے تھے۔جس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ بچے کو علم سے عشق تو کیا اور نفرت ہو جاتی تھی۔یہ طریقہ تعلیم سارے ملک میں رائج تھا۔ بہت سالوں بعد مغربی ماہرین تعلیم نے یہ بات سمجھی کہ بچہ کو تعلیم کے لیے مارنا اسے تعلیم سے بد دل کرنا ہے۔اس کے بعد پاکستانی محکمۂ تعلیم کو ہوش آئی اور قانوناً بچوں پر جسمانی تشدد کرناخلاف قانون قرار دیا گیا لیکن پھر بھی اساتذہ کو کوئی موثر طریقے نہیں بتائے گئے جن سے بچوں کو علم سے رغبت پیدا ہوتی، عشق تو بہت دور کی بات ہے۔ ابھی بھی میں نے سنا ہے کہ اساتذہ تشدد سے کام لیتے ہیں۔
پاکستانی قوم کو علم سے کبھی بھی اتنی محبت نہیں ہوئی جتنی کہ علامہ اقبال کی دعا تھی۔پاکستان کے سیاستدان در حقیقت تعلیم سے نالاں تھے۔چونکہ زیادہ تر جاگیر دار اور صنعت کار تھے، انہیں صرف ہاتھ پائوں سے مزدوری کرنے والے نو جوان چاہیے تھے۔بے شک وہ لکھنے پڑھنے سے قطعاًعاری ہوں۔ حکومت جب تعلیم کا بجٹ بناتی تو اس کی ترجیحات میں تعلیم اور صحت سب سے نچلے درجے میں ہوتیں۔چونکہ حکومت اپنے کرپٹ نظام میں پورا مالیہ اکٹھا نہیں کر پاتی تھی جو بھی اکٹھا ہوتا اس کا یک بڑا حصہ قرضوں کی واپسی میں خرچ ہوتا، اس کے بعد دفاع پر، پھر انتظامیہ پر۔حکومت کرپٹ افسروں کے ہاتھوں مجبور تھی جو جتنا ٹیکس اکٹھا کرتے تھے اتنا یا اس بھی زیادہ اپنی جیبوں میں ڈالتے تھےلیکن سیاستدان بھی کرپٹ تھے، تو بجٹ کا خسارہ مزید قرضے لیکر پورا کرتے تھے۔ سال ہا سال سے تعلیمی ضروریات کو نظر انداز کرنا ملکی سیاست کا وطیرہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں سکول بننے چاہئیں تھے وہ نہیں بنے اور آج دو کروڑ سے زیادہ بچے جنہیں سکول میں ہونا چاہئے تھا وہ سکول سے باہر ہیں۔ پاکستان دنیا کا غالباً وہ اکلوتا ملک ہے جہاں اتنے بچے سکول کی عمر ہوتے ہوئے بھی سکول سے باہر ہیں اور کروڑوں بچے وہ ہیںجو پرائمری بھی پاس نہیں کر سکے اور والدین نے انہیں غربت کی وجہ سے سکول سے اٹھوا لیا اور کسی دکان یا ورکشاپ پر کام پر لگوا دیا۔
پاکستان میں آج بھی اقبال کو ایک اونچے مقام پر بٹھایا گیا ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے اس مقام سے بھی غائب کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ برس فیصلہ کیا گیا کہ اقبال ڈے کی اب چھٹی نہیں ہوا کرے گی۔ ضرورت بھی کیا ہے۔ کون اقبال کو پڑھتا ہے اور اس کے کلام کو سمجھتا ہے اور اس پر عمل کروانے کی سعی کرتا ہے؟ ابھی بھی کچھ سر پھرے اقبال ڈے مناتے ہیں لیکن یہ بھی ایک رکھ رکھائو کا معاملہ ہے نہ کہ اقبال کے ارشادات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی نیت سے۔
پاکستانی شرفاء، اہل اقتدار اور کارندے، سب کے سب دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں۔جن لوگوں کا کام ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے وہ بھی سیاست میں ہمہ تن مشغول ہیں، اس لیے کہ وہ نہیں چاہتے کہ دولت کی ہوس کی راہ میں کچھ بھی حائل ہو۔سرحدوں پر دہشت گردوں کا راج ہے، لیکن سرحدوں کے رکھوالوں کا پورا زور ملک کی سیاست پر قبضہ کرنا ہے۔ ایک عدلیہ رہ گئی تھی اس پر بھی اب ان کا قبضہ ہو گیا ہے۔ اللہ بس، باقی ہوس۔
پاکستان کے خیرخواہ حلقوں کو سمجھنا چاہیے کہ پرانا زمانہ چلا گیا ہے۔ اکیسویں صدی میں صرف وہ ملک ترقی کریں گے جن کی آبادی تعلیم یافتہ ہو گی اور نئی ٹیکنیکل ضروریات کو سمجھ سکتی ہو گی۔ ورنہ یہ بس زراعتی ملک رہیں گے اور غربت کے بوجھ تلے دبے ہوئے۔
0