0

CHAIRITY

زندگی کا بہترین عمل GIVING ہے اس عمل کی ابتدا کب ہوئی اس کی کوئی تاریخ نہیںمگر میرا ایمان ہے کہ اس خوبصورت عمل کی ابتدا ماں نے ہی کی ہوگی جب اس نےاپنے منہ کا نوالہ اپنے بچے کے منہ میں ڈالا ہوگا، اور یہ بات بھی ایقان کو پہنچتی ہے کہ انسان نے ماں کے اسی جذبے کو دیکھ کر اس خوب صورت عمل کو سماجی زندگی کا حصہ بنا لیا ہوگا، کچھ گہرائی میں جائیں تو لگتا ہے کہ جب خاندان بنا تو شائد مل جل کر رہنے کی وجہ سے ایثار کے جذبے نے اس عمل کی تشکیل میں مدد کی ہو، گھر میں رہنے سے ہی کچھ چیزیں ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں، ماں کا بچوں سے ہر روز کہنا کہ اپنے باپ کو کھانا دے دو، چھوٹے بھائی کو کھانا کھلا دو، باپ کا حقہ گرم کردو وغیرہ شروع شروع میں یہی باتیں آپس میں باہمی محبت کا ذریعہ بنی ہونگی ، تصور کیا جا سکتا ہے کہ ابتدائے آفرینش میں زندگی کے خدوخال کیا ہو نگے، یہی ربط خاندان سے نکل کر دیگر خاندانوں تک پہنچا ہوگا اور پھر قبیلوں تک یہ ضرور ہے کہ خاندانوں کے درمیان ایثار کے مدارج بدل گئے ہونگے اور قبیلوں کے درمیان ایثار کی صورت اور ہو گی، کچھ قدیم کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ خاندانوں اور قبیلوں کے درمیان غیر محسوس طور ہر کچھ اصول پاگئے تھے اور رفتہ رفتہ یہی اصول قبائلی قانون بن گئے، انسانی زندگی کے اوائل میں جب کوئی قبیلہ دوسرے قبیلے کی بوقتِ ضرورت مدد کرتا تو یہ ایک قسم کا قرض ہی ہوتا تھا اور اس قبیلے کو ایک خاص وقت میں اس کی واپسی کرنی ہوتی، یہ ضابطے ہر جگہ نہیں ہوتے تھے، افریقہ میں اگر کوئی قبیلہ فراہم کردہ مدد کی واپسی نہ کرتا تو فریق ثانی اس قبیلے کے جانور لے جاتے، گھروں پر قبضہ کر لیتے اور یہ ہوا کہ کمزور قبیلے کی عورتوں پر بھی قبضہ کر لیا جاتا تھا، ہندوستان میں خاندان دنیا کے دیگر علاقوں سے زیادہ مضبوط رہا، یہاں ہر چند کہ برہمن کا جبر رہا مگر دیگر ذاتیں اپنے پیاروں کی ضروریات اپنا پیٹ کاٹ کر بھی پورا کرتی تھیں، ہندوستان کے قدیم ادب میں اس ایثار کی بہت سی کہانیاں لکھی ہیں کچھ سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں، یہ ہندوستان کا لوک ادب بھی ہے جس میں انسانی ہمدردی کی مثالیں ملتی ہیں، دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ایسی ہی مثالیں ملتی ہیں امریکہ اور کینیڈا کی تاریخ میں ریڈ انڈینز کا SURVIVAL اس جذبے کی بنا پر ہوا، شدید حالات میں بھی ریڈ انڈینز آپس میں جڑے رہے، ریڈ انڈینز نے دیگر قبائل کے خلاف کبھی صف آرائی نہیں کی ایثار ایک MOTHERLY AFFECTION ہے اور اسی جذبے نے CHAIRITY کو انسانی معاشرے کی ضرورت بنا دیا، جنگوں میں لاکھوں افراد مارے گئے مگر یہی سوچا گیا کہ جنگوں میں ایسا ہوتا ہے، جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم انسانی تاریخ کے دو خون ریز عہد رہے، پہلی بارسسکتی انسانیت کے بارے میں سوچا گیا، یہ زمانہ سترویں اور اٹھارویں صدی کے بعد آیا، ان دو صدیوں کو نظریات کی صدیاں کہا جاتا ہے، ان صدیوں میں انسان کے بارے میں بات کی گئی، اس کی نجی اور سیاسی زندگی کے بارے میں بات کی گئی، انسان کی سماجی اور معاشرتی GROWTH پر بات کی گئی یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا انسان خدا سے زیادہ اہم ہے، مسائل خدا کے نہیں انسان کے ہیں ، اور انسانی مسائل کا حل ضروری ہے، ان دو صدیوں میں ادیبوں شاعروں اور فلسفیوں نے انسان کو محفوظ رکھنے کے لئے قلم اٹھایا، مگر سیات دان اس سرمائے کو سنبھال نہ سکے دنیا کے سیاست دانوں نے حسد، اور نفرت کے راستے پر چلتے ہوئے اس دنیا کو جہنم زار کر دیا، دو عظیم جنگیں ہوئیں لاکھوں لوگ مارے گئے ، ملک کے ملک تباہ ہوئے لاکھوں بھوک سے مر گئے لاکھوں کو علاج میسر نہ آیا یہ منظر اہل دل کو ملول کر گئے ، فرانس کے ایک شاعر نے لکھا کہ سیاست کے پاس انسانی دکھوں کا مداوا نہیں، انسان ہی انسان کا ہاتھ تھامے گا تب ہی انسانیت کو بچایا جا سکتا ہے، برسلز اور جینوا میں کچھ معاہدات ہوئے سوئیٹزرلینڈ نے ریڈ کراس کی بنیاد ڈالی، مگر مایوسی کا ایک عالم تھا مگر اس مایوسی کے عالم میں یورپ میں کچھ انجمنیںتھیں جنہوں نے CHARITY کی بنیاد پر غریب اور نادار افراد کا کام شروع کیا، پھر ساری دنیا میں یہ آئیڈیا FLOAT گیا CHARITIABLE ORGANIGANIZATION ,آج ہر ترقی یافتہ جدید معاشرے کی ضرورت سمجھی جاتی ہیں، اس کے پس پردہ خیال یہی ہے کہ حکومتیں تمام غریبوں کو مدد فراہم نہیں کر سکتیں یا یہ خدمات حکومت میں سیاست کی نذر ہو جاتی ہیں لہذا CHARITABLE ORGANIZATIONS اپنے وسائل کے تحت یہ کام سر انجام دی اور ان خدمات کے حجم کو دیکھ کر حکومت مالی مدد کر سکتی ہے، امریکہ اور یورپ کی CHARTABLE ORGANIZATIONS اسی اصول پر کام کرتی ہیں اگر فلاحی اور خیراتی کام دیکھ کر لوگ چندہ زیادہ دیتے ہیں تو حکومتیں بھی ان اداروں کو زیادہ مالی امداد فراہم کرتی ہیں، نیو یارک میں کچھ پاکستانی بھی فلاحی کام کرتے ہیں، ہم نے کچھ عرصہ قبل ان اداروں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تھی مگر کچھ پیشہ ورانہ دشواریوں کے سبب مناسب ڈیٹا جمع نہ ہو سکا، مگر پھر بھی جو تصویر سامنے آئی وہ بہت مایوس کن تھی، خیراتی ادارے ڈھیلے ڈھالے قانون سے بچ نکلنے کے راستے نکال لیتے ہیں مثلا قانون یہ ہے کہ جو DONATIONS اکٹھے ہوں اس کابیس فی صد ادارہ اپنے اخراجات کے لئے رکھ سکتا ہے، اور باقی اسی فیصد اس ادارے کو فلاحی کاموں پر خرچ کرنا ہونگے، ادارے عام طور پر بیس فی صد پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک بڑا CHUNK اپنے لئے رکھتے ہیں، اور آڈٹ میں رقوم تبدیل کر دی جاتی ہیں، عام طور پر پورا خاندان کام کرتا ہے، یہ کوئی بری بات نہیں اس کا POSITIVE POINT یہ ہے کہ اپنے خاندان پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کیا جا سکتا ہے، مگر چندے کی رقوم خاندان پر بے دردی سے خرچ کرنا سوالات اٹھاتا ہے، بڑی گاڑیاں بنگلے، لائف اسٹائل بھی نظر میں آتے ہیں، اور اس سے بڑی بات ان اداروں کے اکثر فلاحی کام امریکہ سے باہر ہیں، ٹی وی پر بڑے بڑے اشتہارات سارا سال چلتے ہیں، ان اشتہارات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان اداروں کا خیراتی کام ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، ایسا ہر گز نہیں، اس میں جھوٹ کی ملاوٹ ضرور ہوتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی ملک میں سیلاب یا زلزلہ آئے اور راتوں رات کسی ادارے کی ٹیم اس کی مدد کو وہاںدان بدنام بھی ہو چکے، اس پس منظر میں فلاحی اداروں کی ضرورت اور بڑھ جاتی ہے مگر ان اداروں میں بھی جرائم پیشہ افراد گھس گئے ہیں۔ پورا معاشرہ تعفن زدہ ہو چکا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں