ڈاکٹر محمد معزالدین نے ایک بار حکم دیا کہ بھئی کامران صاحب ! ہمارے ایک بہت اچھے دوست ہیں سید منصور عاقل ، بلند شہر کے قصبہ گلاوٹھی کے سادات میں سے ہیں، بڑے کمال کے آدمی ہیں ، الاقربا ءنام کا ایک شاندار علمی رسالہ نکال رہے ہیں۔اس رسالے کی امریکہ تک شہرت ہے ،تو میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس رسالے میں مضمون لکھا کریں۔ مجھے اسلام آباد میں ڈاکٹر محمد معزالدین کی توجہ اور شفقت ہمیشہ حاصل رہی ، عالم تھے، اقبال کے مداح اور اقبال اکیڈمی پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر رہے تھے۔ان کے پاس یادوں اور باتوں کا ایک ختم نہ ہونے والا خزانہ تھا۔اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن ون میں رہتے تھے ۔شعبہ اقبالیات پر ہمیشہ بہت مہربان رہتے تھے ہماری ہر تقریب اور ہر علمی سرگرمی کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ان کے حکم کے مطابق میں نے اپنا ایک تیار مضمون ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یہ مضمون الاقرباء کے اگلے شمارے کا حصہ بنا ،اور پھر گویا آنے والے کئی سال تک الاقرباء کے ہر شمارے میں اقبالیات پر میرے مضامین شائع ہوتے رہے۔ اچھا پہلا مضمون شائع ہونے کے بعد ڈاکٹر محمد معزالدین ایک بار ملنے آئے تو ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ کامران صاحب! سید منصور عاقل کل ہمیں ملنے آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ شاہد اقبال کامران کا مضمون بہت پسند کیا گیا ہے ،اب ایسے بزرگ بہت کم رہ گئے ہیں جو ایسا لکھ سکتے ہیں۔مجھے حیرت ہے کہ اسلام آباد میں رہتے ہوئے میں ایسے فاضل بزرگ سے اب تک کیوں نہیں مل سکا۔آپ ان حضرت سے ملاقات کا اہتمام کریں۔یہ کہہ کر ڈاکٹر محمد معزالدین ہنستے رہے کہ دیکھیئے وہ آپ کو آپ کی تحریر کی وجہ سے بزرگ سمجھ رہے ہیں۔پہلے ہم نے سوچا کہ ان کو بتا دیں کہ آپ ایک جوان آدمی ہیں ، پھر ہم نے سوچا کہ آپ کو ان سے ملوا دیتے ہیں ،وہ خود ہی دیکھ لیں گے آپ کو۔ اور پھر سید منصور عاقل سے اس “بزرگ” کی ملاقات ہوئی ۔ بیک وقت خوش اور حیران ہوئے ،اور بتایا کہ آپ کی تحریر سے اندازہ نہیں ہوتا کہ اپ ایک خوش مزاج نوجوان ہوں گے۔آپ کے مضامین پڑھ کر کسی عالم کا خیال ذہن میں آتا ہے ۔یہ بہرحال ایک بڑے آدمی کی طرف سے ایک عام آدمی کی حوصلہ افزائی کا انداز تھا ۔اسی ملاقات میں سید منصور عاقل نے اعلان کر دیا کہ اب الاقرباء کا کوئی شمارہ آپ کے مضمون کے بغیر شائع نہیں ہوگا۔میں بھی حتی الامکان اس حکم کی تعمیل کرتا رہا۔ بعدازاں انہوں نے ازراہ کرم مجھے الاقرباء کی مجلس مشاورت کا حصہ بھی بنا لیا۔سید منصور عاقل سراپا تہذیب شخصیت ، عالم باعمل، مدیر باکمال اور محفل ساز میزبان تھے ۔ واقعتاً علم ہی ان کا اوڑھنا اور علم ہی ان کا بچھونا تھا۔گھر میں ان کے مطالعے کا کمرہ ایک شاندار کتب خانہ بھی تھا۔ وہاں وہ مصروف رہتے ، دن کا بیشتر حصہ اپنے کتب خانے میں گزارتے۔الاقرباء کی تیاری بھی وہیں ہوا کرتی۔ مجلے کی اُردو کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کی طرف خاص طور پر متوجہ رہتے۔ایک بار ان کا آزمودہ کمپوزر کہیں چلا گیا، مجلہ موخر ہونے کا خدشہ تھا، سید منصور عاقل مجلے کی اشاعت میں تسلسل کا اہتمام اور تاخیر سے گریز کی کوشش کرتے تھے۔مجھ سے پوچھنے لگے کہ کوئی اُردو کمپوزر آپ کے علم میں ہو تو بتایئے گا۔میں نے اپنی یونیورسٹی کے سب سے زیادہ ماہر اور آزمودہ اُردو کمپورز کو بھیجا ، تھوڑی تعریف بھی کر دی،سید صاحب نے اسے رسالہ کمپوز کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ایک روز کمپوزر صاحب سے ملاقات ہوئی ،پوچھا کہ رسالے کا کام کیسا جا رہا ہے ۔جواب ملا کہ جس باریک بینی ، دلچسپی اور توجہ سے سید صاحب کام کرواتے ہیں،مجھے اس کا نہ تو تجربہ ہے ، اور نہ عادت۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے میں اُردو زبان اب سیکھ رہا ہوں ۔ میں نے کہا کہ بھئی یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ اصلی والی اُردو مفت میں سیکھ رہے ہیں ۔ کہنے لگا ہاں یہ تو ٹھیک ہے پر ایک مسلہ ہے۔ وہ کیا ؟ بتاو ۔ کہنے لگا کہ میں نے کئی بار درخواست کی ہے کہ آپ مجھے کام دے دیا کریں ،میں گھر میں بیٹھ کر مکمل کر لیا کروں گا۔لیکن وہ نہیں مانتے، کہتے ہیں میری تسلی نہیں ہوتی ۔اس لیے وہ پاس بٹھا کر کمپوزنگ کرواتے ہیں ، دوسرے وہ اس کام کو ٹائپنگ کہتے ہیں۔حالانکہ سر جی ہم ٹائپسٹ تھوڑی ہیں،ہم تو کمپوزر ہیں۔ اس ننھے منے احتجاج پر میں ہنسنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ سید منصور عاقل بطور شاعر ایک توانا پس منظر رکھتے تھے، وہ ایک زریں عہد اور شعرو ادب کی توانا روایت کی نمایندہ شخصیت تھے ۔اسلام آباد جیسے مدھم شہر میں ادباء و شعراء اور میرے جیسے ایک دو سامعین کو اپنے وسیع ڈرائینگ روم اور کشادہ دستر خوان کا حصہ بنانا ان کا شوق اور دستور تھا۔ایسے اجتماع کبھی کسی شاعر کے شہر میں آنے پر ، کبھی مشاعرے کی صورت اور کبھی رنگا رنگ بزم آرائی کے لیے منعقد ہوتے رہتے تھے ۔ایسے فراخ دل اور سیر چشم میزبان اب کم ہوئے جاتے ہیں۔ شعبہ اقبالیات کے ساتھ ان کا دلی تعلق اور رشتہ ہمیشہ قائم رہا ۔ہماری تقریبات اور کانفرنسوں کا لازمی حصہ ہوتے۔ایک بار جسٹس ر ڈاکٹر جاوید اقبال کا لیکچر تھا۔ڈاکٹر جاوید اقبال کا امتیاز یہ بھی تھا کہ وہ اپنے لیکچر کے ساتھ سوال جواب کا سیشن ضرور رکھواتے تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ہمیشہ مختلف اور نادر موضوعات پر خطبہ دینا پسند کرتے ،اور سوال جواب کے سیشن میں اپنے موضوع کے اطراف اُگی ساری جھاڑیاں بھی صاف کر دیتے تھے۔سچ تو یہ ہے کہ فکر اقبال کی ان سے بہتر تفہیم کسی اور کے حصے میں نہیں آئی ۔ ایک یوم اقبال پر ان کے خطبے کا عنوان تھا ’’ اقبال کی نگاہ میں پاکستان کی اسلامی ریاست ،مثالی سیکولر ریاست کیسے؟‘‘ انہوں نے اپنا خطبہ ہمیں اس ہدایت کے ساتھ پہلے بھجوا دیا تھا کہ ہم اس خطبے کو پمفلٹ کی صورت شائع کروا کر حاضرین میں تقسیم کریں ، تاکہ سامعین بہتر انداز اور فہم کے ساتھ اپنے سوالات اٹھا سکیں۔ خیر یہ لیکچر ہوا ۔مہمانان گرامی کی صف اول میں سید منصور عاقل بھی تشریف فرما تھے۔لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ وہ لیکچر اور سوال جواب کے سیشن کے بعد خوش نظر نہیں آئے ۔ادھر ہمارے وائس چانسلر صاحب تھے، کہ؛ جنہوں نے پورا خطبہ اسٹیج پر بیٹھ کر سماعت کیا تھا، اور خطبہ کا پمفلٹ بھی کہیں کہیں سے پڑھ رہے تھے، لیکچر کے اختتام پر میرے کان میں کہنے لگے کہ ڈاکٹر کامران آپ کو پمفلٹ پر لکھوانا چاہیئے تھا کہ ادارے کا مصنف کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔مجھے ہنسی آ گئی ۔کہنے لگے کہ کیا میں اب یہ کہہ دوں کہ ادارے کا ان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔میں نے انہیں کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ بہت اعلیٰ خطبہ ہے، ان مباحث کو سمجھنے کے لیے زیادہ مطالعے کی ضرورت ہے۔میں جانتا ہوں کہ آپ ان باتوں کو سمجھتے ہیں ، چلیئے اب ہم اس خطبے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور پھر ساتھ ہی سامعین کو سوالات کرنے کی دعوت دے ڈالی۔ اس کے بعد وی سی صاحب اچھا بچہ بن کر چپ چاپ بیٹھے رہے۔ لیکن سید منصور عاقل صاحب چپ چاپ نہیں بیٹھے،انہوں نے الاقرباء کے اگلے شمارے میں ’’ اقبال کا تصور پاکستان اور فرزند اقبال کے خیالات‘‘ کے عنوان سے ایک طویل اداریہ تحریر کیا۔ جس میں ڈاکٹر جاوید اقبال کے لیکچر پر اپنی معروضات اور اعتراضات کو تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے اداریے میں لکھا تھا کہ ۔۔۔۔ ہمارے لیے سر دست انتہائی تشویش و اضطراب کا سبب یہ ہے کہ مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال کے فرزند ارجمند محترم ڈاکٹر جاوید اقبال نے جن کے وراثتی و اکتسابی علم و دانش کے پیش نظر ان کا حق ہے کہ انھیں حکیم الامت کے افکار و نظریات کا معتبر شارح و مفسر سمجھا جائے، اپنے حالیہ خطبات کے ذریعہ جو موصوف نے اسلام آباد کی دو معروف جامعات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی میں ارشاد فرمائے، اہل علم وخبر کوسخت ذہنی و روحانی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ارشادات پر مبنی مطبوعہ پمفلٹ بعنوان ” اقبال کی نگاہ میں پاکستان کی اسلامی ریاست مثالی سیکولر ریاست کیسے؟“‘ سامعین میں تقسیم کرایا گیا تھا جس کا ایک نسخہ ہمارے پاس محفوظ ہے۔ اس اختلاف رائے کے باوجود وہ ہماری دعوت پر ڈاکٹر جاوید اقبال کے لیکچرز سننے کے لیے ضرور تشریف لاتے تھے۔ سید منصور عاقل کثیر التصانیف دانشور تھے ، حرف محرمان (1994ء) ، گہوارۂ سخن (شعری مجموعہ) 1993ء ، برگِ سبز(ادبی تحقیق) 1992ء ، حرف بہ حرف(نقد و نظر) 1981ء ، مبارک نامہ(شعرفارسی ،انتخاب ،1972 ء ، اور خامہ خونچکاں اپنا(قومی شاعری،انتخاب) 1965ء چند نمایاں تصانیف ہیں۔ سید منصور عاقل کا آبائی تعلق اُتر پردیش کے معروف اور مردم خیز ضلع بلند شہر کے قصبہ گلاوٹھی سے تھا۔ وہاں سے ہجرت کرکے وہ دہلی سے آدھ گھنٹے کی فضائی مسافت پر واقع بہاولپور شہر میں آباد ہوئے ، جہاں سے بسلسلہ ملازمت لاہور اور پاکستان کے دیگر شہروں سے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں قیام پذیر ہو گئے ۔یہاں پہلے سیکٹر ایف ٹن میں رہتے تھے ،بعد میں ایف ٹن والا مکان بیچ کر سیکٹر جی الیون میں ایک نیا گھر خرید کر رہنے لگے۔اس نئے مکان میں بھی ان کا کتب خانہ ، دفتر ،جسے میں کارگاہ کہا کرتا تھا،جہاں بیٹھ کر اور کتابوں کی صحبت میں وقت گزار کر وہ راحت ، بے پایاں مسرت اور ذہنی سکون کشید کیا کرتے تھے۔ایسی تہذیب اور ایسے تہذیبی نمائندے رخصت ہوئے جارہے ہیں۔میل ملاقات میں شائستگی اور تسلسل کا اہتمام، رابطے میں سبقت کی عادت نے ان کو اک جہان کا محبوب بنا رکھا تھا، ایسی ششتہ اُردو بولتے کہ سن کر جی خوش ہو جاتا۔ وہ اپنے عہد ، اپنی سوچ اور اپنی دنیا کے دانشور اور دانش جو تھے،زندگی جہد مسلسل اور کامیابیوں سے عبارت تھی۔ آخر آخر میں وہ بھول جانے کے عارضے میں مبتلا ہو گئے تھے ، یادداشت متاثر ہو جائے تو دل و دماغ کی پررونق محفل ویران ہو جاتی ہے۔انہیں موجودہ کے عوض پرانی باتیں یاد آتی تھیں، کھانے پینے سے رغبت بالکل ختم ہوگئی تھی ،جس کا نقصان ان کی صحت کو ہوا،وہ جسمانی طور بے حد کمزور ہوگئے تھے۔ اور قیاس چاہتا ہے کہ ان کی رحلت کا باعث یہی بدنی کمزوری بنی۔اب وہ جس زندگی کا حصہ بنے ہیں ،وہاں قوی کا اضمحلال اور عناصر کا عدم اعتدال کوئی معنی نہیں رکھتا،وہاں یقینی طور پر وہ اُردو کے کلاسیکی شعراء کی محفل سخن میں مؤدب بیٹھے حضرت میر تقی میر کے اس شعر پر سر دھن رہے ہوں گے؛
نہیں رہتے عاقل علاقے بغیر
کہیں میرؔ دل کو دوانے لگا!
0