پاکستان کے حکمران ، جو بجائے پاکستان کے عوام کی خدمت کرتے وہ غیرملکیوں کے وفادار بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ہم وطنوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، اور انہی سے اپنی تنخواہ لینا اور اپنی کمپنیوں کی مصنوعات خریدوانا چاہتے ہیں۔ہزاروں پاکستانی معصوم عوام کو صرف اس لیے جیل میں ڈالا ہوا ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے طرف دار ہیں۔ اور سیاستدان بھی وہ جو نہ صرف پاکستان کا بھلا چاہتا ہے ، وہ دنیا کے مسلمانوں کا بھلا بھی چاہتا ہے۔ یہ بات اس کے غیر ملکی دشمنوں کو پسند نہیں۔ وہ اس کو وزارت عظمیٰ پر بیٹھا نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اس حیثیت میں وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر فیصلے لے سکتا ہے جو ان کو کسی صورت بھی برداشت نہیں۔ اس وقت دنیا کے مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا قاید نہیں جسے وہ اپنا مسیحا سمجھیں اور مغرب سے ہونے والے حملوں سے بچائو کا راستہ سمجھیں۔ سوائے عمران خان کے۔ اس لیے اس کے دشمن نہیں چاہتے کہ عمران خان کبھی بھی ایسی طاقت کا سربراہ بنے جو ان کے لیے ایک متواتر خطرہ بن جائے۔یہ دشمن صہیونی طاقت ہے جس نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔گذشتہ پینتیس سالوں سے امریکہ مشرق وسطیٰ میں وہی کررہا ہے جس کا اشارہ اسے اسرئیل سے ملتا ہے۔یہ بات حال ہی میں ایک امریکی پروفیسر جیفری سیکس نے اپنے ایک انٹرویو میں بتائی۔انہوں نے کہا کہ امریکہ نے بلاچوں و چرا کئی ملکوں پر حملہ کیے ہیں یا اس میں حکمرانوں میں ردوبدل کروائی ہے جس کااشارہ اسے اسرائیل سے ملتا ہے۔ اب تک جن اسلامی قائدین اور ملکوں کو امریکہ نے تہس نہس کیا ہے ان میں لیبیا، عراق، شام، صومالیہ، سوڈان سر فہرست ہیں۔ صرف ایران اب تک بچا ہوا ہے، اس میں بھی سی آئی اے کئی سال سے کوششوں میں ہے لیکن ایران کسی بڑی تباہی سے بچا ہوا ہے۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ان حالات میں یہ تعجب نہیں کہ پاکستان میں جو عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا گیا اس کے احکامات کہاں سے آئے تھے؟اب تک جو کچھ خان کے ساتھ ہوا اور اس کی تحریک کے ساتھ، وہ سب کس کے کہنے پر ہو رہا ہے۔جو حیرت کی بات ہے وہ یہ کہ پاکستانی حکمران کتنی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ان بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔
پاکستانی حکمرانوں کو ابتک احکامات جس بایئڈن کے اہلکار دیتے تھے۔ جو کہ اسرئیل کے لیڈر کا کہا آنکھیں بند کر کے مانتا ہے۔ اسے یہ فکر نہیں کے اس کی اس حرکت سے امریکہ کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان۔ وہ کٹھ پتلی سے بھی بد تر ہے۔ اس کی وائس بھی ویسی ہی ہے۔اس بیوقوف کو سمجھ نہیں آئی کہ نومبر کے انتخابات میں امریکی عوام کی اکثریت نے اس کو اور اس کی پارٹی کو رد کر دیا۔ جن لوگوں کے لیے وہ امریکن قوم کو گروی رکھ رہے ہیں اور امریکن جوانوں کو مروا رہے ہیں، امریکن عوام اس بات کو سمجھ گئے ہیں۔اس الیکشن میں 80فیصد یہودیوں نے ڈیمو کریٹس کو ووٹ ڈالے، سارا میڈیا ان کیساتھ تھا، لیکن یہ پھر بھی نہیں جیت سکے۔ ان کو اب تو سمجھ آجانی چاہیئے۔وہ جانتے ہیں کہ امریکہ نے جو کھربوںڈالر کا قرض لیا ہے، جو امریکنوں کی اولادیں اتاریں گی، ان میں ان جنگوں کا بڑا حصہ ہے جو امریکہ نے اسرائیل کے کہنے پر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں لڑیں اور لڑوائیں۔ پاکستان چونکہ ایٹمی طاقت ہے، اس کی آبادی دنیا کی پانچویں بڑی ہے، اس کو کسی چھوٹے مشرق وسطیٰ یا شمالی افریقہ کے ملک کی طرح، بغیر نقصان اٹھائے تباہ نہیں کیا جا سکتا ، جیسے ایران اب تک بچا ہوا ہے۔اس لیے پاکستان کو تباہ کرنے کے ہتھیار اور لائحہ عمل مختلف ہے۔ اس کی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے، اس کی عسکری طاقت کو اس کے خلاف کر دیا گیا ہے اور اس پر گمراہ مذہبی قائدین اور لالچی، کرپٹ سیاستدانوں کو بٹھا دیا گیا ہے اور ملک بڑے آرام سے خود بخود تباہی اور بربادی کی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔اور یہ منصوبہ، خصوصاً دو سال سے ،بڑی کامیابی کے ساتھ ترقی پذیر ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل کو پاکستان پہلے دن سے ہی نا پسند تھا کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا۔ اس لیئے اس پر سازشوں کا آغاز قیام پاکستان سے ہی شروع ہو گیا تھا۔عسکری قیادت اور لالچی کرپٹ سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ شروع کر دیا گیا۔ ہماری اقتصادی ترقی کی جڑیں کاٹنے کے لیے تعلیم کو آخری ترجیح دلوائی گئی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت نے تعلیم کو صرف زبانی جمع خرچ پر رکھا۔نتیجہ میں، آج دنیا کی سب سے کم تعلیم یافتہ آبادی ہونے کا شرف پاکستان کو حاصل ہے۔اس کے بعد ایک بے کارصحت عامہ کا نظام اور تعلیم صحت کے فقدان نے قوم کو ایک کے بعد ایک بڑی بیماری سے دو چار رکھا۔ نوجوانوں کو بے ہنر رکھا تا کہ وہ ملک سے باہر جا کر بھی وہ عزت کی روزی نہ کما سکیں ۔معاشرے کو دینی تفرقات اور لا معنی مذہبی تنائو میں الجھایا گیا تا کہ ہم سنی، شعیہ اور قادیانی کے جھگڑوں میں اپنے آپ کو کمزور کرتے رہیں۔ یہ تو وہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں جو دشمنان پاکستان نے نہایت کامیابی کے ساتھ ، اور صبر و تحمل کے ساتھ پاکستان میں رائج کیں ۔ اس کے بعد اگر آپ پاکستان کے بین الاقوا می معاملات، تعلقات ، تجارت پر نظر دوڑائیں، تو ان میں بھی پاکستانیوں کو غلط راہ پر ڈالنے کہ تسلی بخش اقدامات نظر آئیں گے۔آج پاکستان اگر دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے تو یہ ایک لمبی مدت کی تیاری کا نتیجہ ہے۔یہ کہنا حق بجانب نہیں ہو گا کہ یہ سب کام دشمنان پاکستان نے کیے، ان میں بڑا حصہ ہمارا اپنا ہے۔
پاکستان میں سیاسی محاذ پر جو ہو رہا ہے وہ بلا شبہ وہی ہے جو پاکستان کے دشمنوں کی خواہش ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی خواہش پر عمران خان کی حکومت گروائی۔ اور اس کی جگہ پرانے رشوت خور، کرپٹ سیاستدان اور عسکری قیادت کو بٹھا دیا۔ ان کی پہلی کوشش تھی کہ خان کو شہید کر دیا جائے، لیکن کسی وجہ سے وہ اس حرکت میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کی سکیمیں کچھ ایسی بیوقوفی سے عمل پیراکی گئیں کہ ہر سکیم میں کھلی نشانیاں تھیں کہ وہ تحریک کی بنائی ہوئی نہیں تھیں۔ بلکہ عسکری شعبہ کا شاخسانہ تھا۔ وہ بھی حکومتی ملی بھگت کے ساتھ ۔ حکومت کو جان بوجھ کر جعلی ووٹوں سے بنایا گیا کہ وہ ہر وقت ان کی مرہوں منت رہے اور بلیک میل ہوتی رہے۔ شہباز شریف جیسا ضمیر فروش ، جو اپنی وزارت عظمیٰ کے لیے، ہر قسم کی وطن دشمن حرکت کر سکتا ہے، ان کو مل گیا۔ اور سول سروس جو نون لیگیوں کی حمایت سے کرپٹ ترین ملازمین کا ٹولہ ہے، وہ بھی ان کے ساتھ مل گئی۔ لیکن ان کی بد قسمتی یہ ہے کہ ان کا ہر وار پکڑا جاتا ہے۔ جتنے جھوٹے مقدمے خان اور اس کے ساتھیوں پر کیے گئے، کسی بھی بڑے جج کے سامنے آ کر ختم ہو جاتے ہیں۔انہوں نے جب سب سے بڑا ڈرامہ9 مئی کورچایا ، وہ بھی صاف ظاہر ہے کہ اس میں تحریک کا ہاتھ نہیں تھا۔ اگر کوئی ذرا سا بھی ایماندار تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ان تمام حرکتوں سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح پاکستانی حکومت وطن دشمن عناصر کا آلہ کار بنی ہوئی ہے۔کس لیے؟
اس لیے کہ اس میں شامل اداروں کے بڑوں نے اتنی بے دردی کے ساتھ پاکستان کو لوٹا، جس کی مثال نہیں۔ لوٹ لوٹ کر روپیہ ڈالروں اور پونڈوں میں باہر ترسیل کیا اور وہاں جائدادیں خریدیں۔لندن، دوبئی،یوروپ اور امریکہ میں جائدادیں بنائیں۔ نواز شریف کی لندن میں جائدادیں تو ضرب المثل بن چکی ہیں۔اس کے علاوہ برطانیہ اور امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹیز میں ، وہاں کی حکومتیں ان کی اولادوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفے دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی فوائد ملتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ وہ ان بیرونی حکومتوں کے حکم کو بر لائیں۔ اس میں خواہ پاکستان کا فائدہ ہو یا نقصان۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈونلڈ لو نے محض ایک انٹر ویو میں پاکستانی سفیر کو دہمکی دی، تو غداران پاکستان نے بلا چوں چرا ، خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔حالانکہ خان نے نہ صرف معیشت کوبہتر کیا، اس نے بیک وقت ہر شعبہ میں ترقی دکھائی۔ خصوصاً غریبوں کی مالی اعانت، ان کی علاج معالجہ کے لیے باعزت پروگرام، نوجوانوں کے لیے ہنر مندی کی تربیت، اور درجنوں دوسرے فلاحی پروگرام شروع کروائے۔یہی نہیں خان نے بیرون ملک جا کر مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان کے دشمنوں کو یہ ایک آنکھ نہیں بھائی۔ انہوں نے سوچا کہ خان اگر ایسے ہی چلتا رہا تھا نہ صرف پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا، اسلامی دنیابھی خان کو اپنا قائد مان لے گی۔ یہ انہیں کسی صور ت نہیں قبول تھا۔اس کے لیے اس کی حکومت گرانا اشد ضروری تھا خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔لیکن پاکستان میں پیسے اور اقتدار کی خاطر ضمیر بیچنے والوں کی کوئی کمی نہیں، ہمارے دشمن یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں، خان کی حکومت بڑے آرام سے گرا دی گئی۔ کوئی ایک قطرہ خون بھی نہیں بہانا پڑا۔دشمنوں کو سازش بنانے کے لیے دور نہیں جانا پڑا۔ انہیں جنرل باجوہ، حسین حقانی، نواز شریفوں کا خاندان، اور زرداری جیسے غدارانِ وطن، تیار مل گئے۔امریکہ کی وازارت خارجہ تو پہلے ہی بائیڈن نے ایک امریکن یہودی کو سونپ دی تھی جو اسرائیل سے براہ راست احکامات لیتا تھا۔ ویسے تو امریکی صدور اور سیاستدانوں کی اکثریت یہودی صنعت کاروں سے چندے وصول کرتی ہے اور پھر اسرائیل کے گُن گاتی ہے۔ اس کے ہر حکم کوحکم خداوندی سمجھ کر بجا لاتی ہے۔
اگر خان کو مروانا ضروری تھا تو وہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اسے جیل سے رہا کر دیتے اور کسی دہشت گرد سے حملہ کروا دیتے۔لیکن یہودیوں کو یہ منظور نہیں تھا۔ عمران خا ن کے بچوں کی ماں انگلینڈ کی ایک مشہور اور سیاسی طاقت رکھنے والے خاندان سے تھی۔ اس کو مارنا اس یہودی خاتون کو دکھ دینا تھا جسکی اجازت کون دیتا؟ اس لیے اس سارے تنازعہ کا ایک ہی مقصد تھا اور ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے دور رکھا جائے۔اسی مقصد پر کام ہو رہا ہے۔غالباً ٹرمپ کی حکومت نے بھی کوئی کام دکھایا تو وہ اس کو آزاد کرنے کا ہی ہو گا، دوبارہ وزارت پر براجمان کرنے کا نہیں۔
صاحبو! مسئلہ اتنا آسان بھی نہیں۔لٹیروں اور کرپٹ طبقے کو اقتدار دینے سے پاکستانیوں کی معیشت بربادی کی طرف چل پڑی۔ اس کی بڑی وجوحات میں ایک جو ماہرین اقتصادیات بتاتے نہیں تھکتے، یہ ہے کہ کرپٹ حکمران کرپٹ سرکاری ملازمین کو کچھ نہیں کہتے اور نہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ملک کے خزانے سے چوریاں ہو رہی ہیں ، وہ ایسے کہ یہ ملازمین بڑے بڑے ٹیکس دہندگان سے سودے بازی کرتے ہیں اور جتنا ٹیکس بنتا ہے اس کا نصف بھی سرکاری خزانے میں نہیں جاتا۔روز نت نئی سکیمیں ان عوام کو فائیلر بنانے پر خرچ کر رہے ہیں جن کے پاس اتنی آمدن ہی نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اپنی اور سیاستدانوں کی تنخواہیں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کیا جاتا ہے، جو کہ ملکی خزانہ برداشت نہیں کر سکتا۔اس کے علاوہ ان کے اللے تللے بے حساب ہیں اور ملک میں مالیہ دن بدن کم ہو رہا ہے۔کہاں تک قرضوں سے کام چلے گا؟ اب ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جتنی چادر ہو اتنے پیر پھیلانے چاہییں، لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ جو ادار ے طاقتور ہیں وہ تو کہتے ہیں ہمیں ہاتھ نہ لگائو۔ اگر بجٹ کم کرنا ہے تو تعلیم کا کرو، صحت کا کرو اور ایسے غیر ضروری کاموں پر کم کرو۔ اگر حکومت کمزور ہو اور جعل سازی سے بنی ہو تو وہ کیا کرے گی؟ یہی تو کرے گی۔ عوام کا مفاد جائے بھاڑ میں۔ لیکن کب تک؟
0