0

پاکستان کے غیر سرکاری پانچویں صوبے گلگت بلتستان کیلئے نئے سال پر جنرل عاصم منیر کا علیحدگی پرور تحفہ!

اپنے چاروں اطراف سے پاکستان، بھارت، افغانستان اور چائنا کی سرحدوں سے ملنے والا علاقہ گلگت بلتستان ایک خوبصورت وادی ہے جس میں گلگت، ہنزہ، نگر اور سکردو جیسے حسین شہر شامل ہیں۔ اس علاقے کی آبادی تقریباً پندرہ لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور یہاں پر تقریباً گیارہ زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں جن میں بِلی، درگی، لداخی، شینا اور اُردو سرفہرست ہیں۔ پاکستان کا خوبصورت اور حسین ترین علاقہ گلگت بلتستان اس وقت ایک ڈی فیکٹو کی حیثیت کا مالک ہے یعنی آئینی طور سے وہ ہمارے ملک پاکستان کا حصہ ہے مگر فی الحال وہ نہ ایک صوبہ ہے اور نہ ہی ایک اسٹیٹ ہے مگر اسے ایک تقریباً آدھی صوبائی حیثیت کا رتبہ حاصل ہے۔ 1948ء میں آزادی کے بعد گلگت اسکائوٹس اور سکیورٹی فورسز نے خود کو پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنے کا اعلان کر دیا اور وہاں سے ڈوگرا راج کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ 1970ء میں حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو فاٹا ایریا میں شامل کر لیا۔ 1999ء میں پاکستانی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں گلگت بلتستان کے شہریوں کو ایک پاکستانی سیٹیزن کا سٹیٹس دے دیا۔ 2015ء سے گلگت بلتستان میں پاکستان سے ملحقہ ایک صوبائی حکومت قائم ہے جہاں پر ایک اسمبلی ہے اور پارلیمنٹ ہے۔ 2018ء میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کا اعلان کیا تھا، عمران خان کے دور حکومت میں 33ممبران پر مشتمل ایک صوبائی اسمبلی تشکیل دی گئی اور الیکشن کے نتیجے میں 33میں سے 22ممبران PTIکے منتخب ہو کر اسمبلی میں آئے اور خالد خورشید GBاسمبلی کے وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے۔ پاکستان کے بقیہ صوبوں کی طرح سے GBکا تاریک دور اس وقت شروع ہوا جب جنرل عاصم منیر کی قیادت میں جی بی اسمبلی کے ممبران کی خرید و فروخت شروع ہوئی اور بغض عمران میں پاکستان کے اس نازک ترین حالات سے گزرنے والے نئے صوبے میں خالد خورشید کو عمران خان کی طرح حکومت سے علیحدہ کر دیا گیا۔ اپنی حکومت گرائے جانے کے باوجود خالد خورشید، سابق وزیراعلیٰ جی بی نے عمران خان کے ساتھ رہنے اور وفاداری کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک جلسے میں اعلان کیا کہ جب جی بی میں پی ٹی آئی کی حکومت واپس آئے گی تو وہ جنرل عاصم منیر سمیت ان تمام افراد پر غداری کے مقدمات قائم کر کے سزائیں دے گی خاص طور پر عاصم منیر کے سالے وزیر داخلہ محسن نقوی کو، انہوں نے جلسے میں ایک تاریخی جملہ کہا جو ایک ملکی سیاست میں استعارہ بن گیا۔ یہ جملہ نئے سال 2025ء کے پہلے دن ان کی 34سال قید کا باعث بھی بنا۔ انہوں نے کہا تھا کہ’’ جب جنرل عاصم منیر جیسا ڈکٹیٹر آئین پاکستان پر پیشاب کرتا ہے تو اس میں سے محسن نقوی جیسا شخص پیدا ہوتا ہے‘‘ یکم جنوری 2025ء کو جی بی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس پاداش میں خالد خورشید کو 34سال کی قید کی سزا سنائی ہے۔ خالد خورشید نے کہا ہے کہ اگر انہیں 34سال کی سزا بھی سنا دی جائے مگر وہ اپنی عمران خان سے وفاداری نہیں بدلیں گے۔ مشرقی پاکستان کو نازک صورت حال میں پاکستان سے علیحدہ کرنے کے بعد پاکستانی فوج کے جنرلوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا، سیاسی، مذہبی اور شہری معاملات میں نازک صورت حال کے باوجود صرف عمران دشمنی میں عاصم منیر نے جی بی حکومت کے خلاف ایکشن لیا ہے اس نے وہاں پر یونائیٹڈ فرنٹ جیسے عوامی لیگ ٹائپ جماعتوں کو جنم دیا ہے اور اس کے بعد سے مسلسل مظاہرے جاری ہیں۔ پاکستانی فوج کے خلاف اور جنرلوں کے خلاف، سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے جنرلز کے ہاتھ خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف تیز کیوں ہوتے ہیں۔ کاش کہ ان کے ہاتھ دشمنوں کی طرف بھی تیز ہوتے۔ کچھ لوگ دوسروں کے تجربات سے سیکھتے ہیں اور کچھ لوگ ذاتی تجربات سے گزر کر سیکھتے ہیں مگر ہمارے جنرلز دونوں کیٹیگریز سے بالاتر ہیں۔ بقول شخصے، دنیا بھر کے ملکوں میں فوج اپنے ملک کیلئے ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا ملک اپنی فوج کیلئے بنا ہے، جتنا چاہو اس سے کھیلو!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں