یہ سطور تحریر کرنے ہی والا تھا کہ خبر ملی کہ امریکہ کے سابق صدر، جمی کارٹر کا سو برس کی عمر میں انتقال ہوگیا!جمی کارٹر کی شہرت اس سبب سے نسبتا” کم تھی کہ وہ امریکہ کے چار برس صدر رہے جس مدت میں ان کا سب سے نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنی صدارت کے دوسرے سال، یعنی 1978ء میں اس دور کے سب سے مضبوط عرب ملک، مصر، اور اسرائیل کے مابین وہ معاہدہ کروایا جو ہماری تاریخ میں ’’کیمپ ڈیوڈ‘‘ معاہدہ کے نام سے معروف ہوا۔
جمی کارٹر کی زیادہ شہرت اس دور میں ہوئی جب وہ اقتدار میں نہیں تھے، کوئی منصب ان کے پاس نہیں تھا لیکن ایک سابق صدر کی حیثیت میں انہوں نے انسانی حقوق کی علمبرداری اور سرخروئی کیلئے وہ نمایاں کام کئے جس کی بنیاد پر انہیں 2002ء میں امن کا نوبل پرائز دیا گیا۔
جمی کارٹر کی زندگی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
یہی کہ منصب و اقتدار نام کمانے کیلئے ناگزیر نہیں ہیں۔ درست ہے کہ وہ امریکہ کے سابق صدرکی حیثیت سے دنیا میں معروف تھے لیکن اپنی اس شہرت کو انہوں نے جس طرح سے نیک نامی میں بدلا وہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ کے سابق صدور میں سب سے لمبی مدتِ حیات، تا حال، انہیں کو نصیب ہوئی لیکن انہوں نے اس وقت کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا اور اسی مناسبت سے دنیا نے ان کو وہ عزت دی جس کے وہ بجا طور پہ مستحق تھے!
ہمارے عہد میں، اور خاص طور پہ وطنِ عزیز (جسے چھٹ بھیے ، بد مست، جرنیل ملک کووطنِ مرحوم بنانے پر تلے ہوئے ہیں) کے تناظر میں اگر کسی معروف شخصیت نے اپنی شہرت کو اپنے کام سے نیک نامی میں بدلا ہے تو وہ صرف اور صرف عمران خان ہے۔
عمران نے سیاسی اقتدار تو 1918ء میں حاصل کیا تھا لیکن اس سے برسوں پہلے اس نے 1992ء میں پاکستان کیلئے ورلڈ کپ جیت کر جو نام کمایا اور جو دوامی شہرت حاصل کی اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس شہرت کو پاکستان میں اپنی مرحوم والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانے استعمال کیا اور اس کے وہ معترضین جن کا خیال تھا کہ عمران خان کا منصوبہ دیوانے کا خواب تھا جو کبھی شرمندہء تعبیر نہ ہوسکے گا انہوں نے منہ کی کھائی۔ اور ناقدین اس کے بعد مسلسل منہ کی کھاتے رہے اسلئے کہ عمران نے ایک ہسپتال کے بعد دوسرا بنایا اور تیسرا کراچی میں زیرِ تعمیر ہے جس کی تکمیل کی راہ میں زرداری جیسا چور، جس نے اور جس کے خاندان نے پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا ہی سیکھا ہے، روڑے اٹکا رہا ہے۔ کمینہ اپنی اوقات جا بجا دکھادیتا ہے۔
عمران خان نے اپنی شہرت اور نیک نامی کے بل بوتے پرنمل یونیورسٹی بنائی۔ یہ وہ کارنامہ ہے جو پاکستان کے کسی چور اور ڈکیت سیاستداں نے انجام نہیں دیا، نشہء طاقت سے مغلوب کسی جرنیل کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ کوئی یونیورسٹی بنادیتا۔
جرنیلوں کا اصل مشغلہ بھی زرداری اور نام کے شریف برادران کی طرح دولت بٹورنا ہے اور اس غرض سے انہوں نے مختلف اقسام کے کاروباری ادارے بنائے ہوئے ہیں۔ دنیا میں صرف اور صرف پاکستانی افواج کو اس حوالہ سے شہرت ملی ہے کہ یہ افواجِ قاہرہ کارخانے چلاتی ہیں، زمینداری کرتی ہیں، کراچی سے لیکر خیبر تک ان کے ٹرک چلتے ہیں بلکہ اب ان کی پہنچ اور دسترس میں وسطِ ایشیا کے ممالک بھی آگئے ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت جو اس ضمن میں ہے وہ یہ کہ چین سے متحدہ عرب امارات کیلئے جو سامانِ تجارت شاہراہِ ریشم کے وسیلہ سے گوادر کی بندرگاہ تک آئے گا وہ بھی فوج کے این ایل سی ٹرکوں پر آئے گا۔ !
جرنیلوں کے ذہنوں میں یہی تو خناس ہے کہ وہ پاکستان کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتے ہیں جس پر صرف اور صرف ان کا حق ہے، ان کی ملکیت ہے وہ جیسے چاہیں اس کا ستعمال کریں۔
دلچسپ بات یہ ہے، جس حقیقت کا علم پاکستان کے بہت کم باسیوں کو ہے کہ فوج کے کاروباری اداروں میں جو نقصان ہوتا ہے وہ سرکار کے خزانے سے پورا کیا جاتا ہے لیکن جو منافع ہوتا ہے وہ صرف جرنیلوں کی جیبوں اور تجوریوں میں جاتا ہے۔
عمران خان کی سیاست تمام تر اسی لوٹ مار اور استحصال کے خلاف ہے۔ میں بارہا یہ لکھ چکا ہوں ، اور اپنے ٹی وی پروگراموں میں برملا بتاچکا ہوں کہ عمران کا سیاست کے خارزار میں قدم رکھنا کوئی غیر منطقی اقدام نہیں تھا۔
عمران کیلئے سیاست کے ذریعہ اقتدار کا حصول ایک مشن ہے، جیسے قائدِ اعظم کیلئے پاکستان کا حصول ایک مشن تھاا سی طرح عمران پاکستانی سیاست کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتا ہے!
اب عمران تقریبا” ڈیڑھ برس سے ان طاغوتی جرنیلوں کی حبسِ بیجا میں ہے جو پاکستان اور اس کے شہریوں کے ساتھ وہ ظالمانہ سلوک کرتے آئے ہیں جو ملک کو اپنا مقبوضہ سمجھتے ہیں۔
یزید عاصم منیر اور اس کے طاغوتی ٹولہ نے 26 نومبر کی رات کو اسلام آباد کے ڈی- چوک میں جس سفاکی کے ساتھ معصوم اور بیگناہ شہریوں کو گھیر کر ان کے خون سے ہولی کھیلی اس شقاوت نے تو 1919ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہونے والی درندگی کی یاد دلادی۔
لیکن یزید عاصم منیر اور اس کے شقی ٹولہ نے تو کیا جو فرنگی حکمراں بھی کرنے کی جسارت نہیں کرسکے تھے۔
جنرل ڈائر پر جو جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کا قائد تھا، اس پر جب انگلستان میں مقدمہ چلاگیا تو اس نے بھی حقارت اور تکبر کے ساتھ یہ کہا تھا کہ اسے اپنے کئے پر کوئی شرمندگی ، کوئی ندامت نہیں تھی، تاسف تھا تو اس کا کہ اس کے سپاہیوں کی بندوقوں میں گولیاں ختم ہوگئی تھیں۔
لیکن پاکستانی فوج کے یزیدوں نے تو شقاوت کی انتہا کردی جب اپنے اقدامِ قتل و بربریت پر پردہ ڈالنے کیلئے وہ ڈی- چوک سے مقتولین کے لاشے بھی اٹھا کر لے گئے اور پھر انہیں اپنی زمینوں پر لیجاکر ان پر تیزاب ڈال دیا گیا تاکہ ہڈیاں بھی گل سڑ جائیں اور کوئی ثبوت باقی نہ رہے!
لیکن یزیدی یہ بھول گئے تھے کہ یہ ذرائعِ ابلاغ میں ترقی کا وہ دور ہے کہ جہاں ظالم کیلئے اپنے گناہ کو چھپانا اور اس پر پردہ ڈالنا ناممکن ہوچکا ہے۔ سو یزیدیوں کی شقاوت کے قصے بہت جلد چار دانگِ عالم میں پھیل گئے!
اب یزید عاصم منیر اور اس کے شقی ٹولہ کی پریشانی یہ ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے امریکہ میں بطورِ خاص جو لابئنگ کی ہے اس نے امریکہ کے آنے والے منتخب صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اس ٹیم کو جس کے ہاتھوں میں دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی باگ ڈور اگلے تین ہفتوں میں آجائے گی اسے پاکستان میں بیگناہ شہریوں پر ہونے والے مظالم اور قتل عام کا تمام احوال معلوم ہوچکا ہے۔
پاکستانی جرنیل جو اپنے آپ کو فرعون سے کم نہیں گردانتے، اگر کسی کی چشم و ابرو کے اشاروں کو اپنے لئے فرمان سمجھتے ہیں تو وہ امریکہ کا صدر ہے اور عاصم منیر اور اس کے ڈکیت جانتے ہیں کہ عمران کے حبسِ بیجا کی تمام روداد ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کو معلوم ہے۔
یزیدیوں کو اپنی مکاری پر بھی بہت زعم ہے لہٰذا ان کی کوشش یہ ہے کہ عمران کی قید و بند کی شکل بدل دی جائے، جسے آج کی جدید اصطلاح میں اوپٹکس کے عنوان سے گردانا جاتا ہے۔
سو جرنیلوں کا کوئی ارادہ نہیں ہے عمران خان کو رہا کرنے کا لیکن وہ آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کو فریب دینے کیلئے عمران کی قید و بند کی اوپٹکس بدلنا چاہ رہے ہیں۔
اس بدنیتی کی صورت یہ نکلی کہ عمران کو یزیدی ٹولہ کی جانب سے یہ منافقانہ پیشکش کی گئی کہ اسے اڈیالہ جیل سے اس کے گھر، بنی گالہ منتقل کیا جاسکتا ہے، جہاں وہ زیرِ حراست رہے گا۔
لیکن عمران نادان نہیں ہے۔ وہ جرنیلوں کی منافقت سمجھ چکا ہے لہٰذا اس نے صاف انکار کردیا یزیدی ٹولہ کی اس “فراخدلانہ” پیشکش کو قبول کرنے سے۔
عمران کے اصولی اور جرأت مندانہ فیصلے پر ہمیں مجروح سلطانپوری یاد آگئے۔ زیادہ تر قارئین انہیں بالی وڈ کی فلموں کے گیت نگار کی حیثیت میں جانتے ہیں لیکن مجروح صاحب ترقی پسند تحریک کے سرکردہ کارکن رہے تھے اور اسے لئے انہوں نے برصغیر پاک و ہند میں فرنگی راج کے خلاف دانشوروں کی مہم کے دوران یہ یادگار شعر کہا تھا:
دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن، رنگِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ!
عمران خان کا اصولی رویہ اس شعر کی جدید تشریح ہے۔ وہ اپنے اس مشن پر عزم کے ساتھ قائم ہے کہ پاکستان کی سیاست اور ریاست کو کرپشن اور لوٹ مار کے کینسر سے پاک کردے چاہے اس کے حصول میں اسے کتنی ہی قربانی نہ دینا پڑے۔
اور کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے خود ساختہ ’’محافظ‘‘ وردی پوش جتنے کرپٹ ہیں اتنا تو شاید کوئی بھی نہیں۔ منافقت پاکستانی جرنیلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور عمران سے ان کو یہی خوف ہے کہ وہ ان کی لوٹ مار اور کرپشن کی لنکا کو کہیں ڈھا نہ دے!
0