0

قتل سے پہلے تاریخ کی آخری خواہش

برصغیر میں کمپنی بہادر نے ہر بڑے شہر میں جہاں عمال حکومت کے لیے ایکڑوں پر محیط بڑی بڑی رہائش گاہیں تعمیر کرکے عوام کو باور کرایا کہ وہ اساسی طور پر کمتر، ماتحت اور غلام لوگ ہیں۔ اور ان کے آقا ہی بلند و بالا رتبے کے مالک ہیں۔جن کا کہا قانون اور کیا تقدیر بن جاتا ہے۔اسی طرح کمپنی بہادر نے ہر شہر میں ایک کمپنی باغ بھی بنایا ۔ایسے آراستہ باغ شہر کی فضا کو حسین بنانے اور شہریوں کو گھر سے نکل کر فطرت سے ہم آہنگ زندگی سے متعارف کرانے کا وسیلہ بنتے تھے ۔مجھے لائل پور کا کمپنی باغ اچھی طرح سے یاد ہے ۔جس کے سامنے والی سڑک کے دونوں جانب بلند و بالا درختوں کا ہجوم تھا اور جسے مقامی لوگ ٹھنڈی سڑک بھی کہتے تھے۔بعد میں کمپنی باغ کے ساتھ ہی کرکٹ گراؤنڈ کا اضافہ ہوا، پھر کرکٹ گراؤنڈ سے متصل سرینا ہوٹل ابھرا ،اور اب وہاں کے منظر پر حاوی یہی ہوٹل ہے ۔ان سب کے اطراف میں حکومتی اہلکاروں کی ایکڑوں پر محیط رہائش گاہیں آج بھی آباد ہیں۔عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی میں جن خوابوں کو کاشت کر کے کامیابی کی فصل کاٹی ،ان میں ایک یہ خواب بھی تھا کہ شہروں میں حکومتی اہلکاروں کی بڑی بڑی رہائش گاہوں اور یہاں تک کہ گورنر ہاؤسز تک میں تعلیمی ادارے قائم کئیے جائیں گے ۔پر عمران خان ساتھ ہی ساتھ یہ راز بھی جانتا تھا کہ پاکستان میں اصل لیڈر وعدے کر کے نہیں، وعدے توڑ کر بنتا ہے۔سو اب وہ ایک لیڈر بنا بیٹھا ہے۔ایک کمپنی باغ راولپنڈی کا بھی ہے۔یہ بھی پنڈی شہر کے وسط میں ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد راولپنڈی شہر کے ملٹری ہیڈ کوارٹرز کے طور پرحد سے بڑھے ہوئے زعم برتری نے اس باغ کو سول بالا دستی کا گورستان بنا کر رکھ دیا۔کہانی 16 اکتوبر 1951ء سے شروع ہوتی ہے۔ لیاقت علی خان کا طے شدہ قتل دراصل پاکستان میں سول بالادستی کا قتل تھا۔16اکتوبر ،1951ء کے روز ایک شخص قتل نہیں ہوا ،اس روز نادرن کمانڈ کے ملٹری ہیڈ کوارٹرز واقع راولپنڈی کے وسط میں کمپنی باغ کے اندر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ،پہلے وزیر خارجہ، پہلے وزیر ریاستی و سرحدی امور اور پہلے وزیر دفاع کو سرعام ایک کرائے کے قاتل سے قتل کرایا گیا تھا۔اس قاتل کو تو ذمہ داری مکمل ہونے پر اسی جگہ ہلاک کردیا گیا ۔البتہ اس کے خاندان کی کفالت کسی مضبوط اور وعدہ وفا کرنے والے سسٹم کی ذمہ داری رہی ۔جو پوری کی گئی۔لیاقت علی خان پاکستانی ریاست و سیاست کا ایک کردار ہی نہیں ، ایک معنی خیز استعارہ بھی ہے۔ان کی وفات کے ساتھ ہی ہماری حقیقی تاریخ پاکستان بھی فوت ہو گئی۔ان دنوں دارالحکومت کراچی ہوا کرتا تھا لیکن جائے مقتل راولپنڈی کا کمپنی باغ ٹھہرا ، جسے بعد میں شہید وزیر اعظم کے نام سے منسوب کر دیا گیا ،لیاقت باغ کی روایت تھمی نہیں اور بے نظیر بھٹو نے اسی باغ سے نکلتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔ شہید بی بی کو قریبی سول ہسپتال لایا گیا ، بعد کو، جاری روایت کے مطابق اس ہسپتال کو شہید بی بی کے نام سی منسوب کرکے شہید بینظیر بھٹو ہسپتال کا نام دے دیا گیا۔ پاکستانی آج بھی ان شہداء کو محبت اور احترام سے یاد کرتے ہیں ۔شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے محبوب راہنمائوں کو زندہ رکھ کر ان سے محبت اور احترام کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔پاکستان کی حقیقی تاریخ کی وفات کی ایک تازہ ترین نشانی عمران اسماعیل نامی گورنر سندھ کی صورت میں نظر آئی ہے ۔موجودہ حکومت کے چند مثالی کارناموں میں سے ایک کارنامہ تحریک انصاف کی حکومت کا اپنی غیر موزوں آواز میں گانے بنانے اور گانے والے کوسندھ صوبے کا گورنر بنا دینا ہے ۔کسی صوبے کا گورنر بظاہر ایک نہایت معزز شخص ہوتا ہے یا ہونا چاہئے لیکن تحریک انصاف نے منہ کالا کرپٹوں کا ۔۔دیتا ہے دھائی رے۔۔۔گانے والے کو گورنر بنا کر ثابت کر دیا کہ وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔عمران اسمعیل نے کچھ ہی عرصہ گورنر رہنے کے بعد محسوس کر لیا کہ گورنر نظر آنے کے لیے اسے اپنے منہ میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کرنی پڑیں گی ۔اقتدر میں آنے سے پہلے یہ لوگ نعرے لگایا کرتے تھے کہ چہرے نہیں ، نظام بدلو ۔اقتدار میں آنے کے بعد ان پر یہ راز کھلا کہ نظام کے لیے ضرورت پڑے تو چہرہ بدل لینا چاہئے ،سو عمران اسمعیل نے بھی ٹھوڑی اور دہن کے اطراف و جوانب ہلکی سی داڑھی چھڑک لی۔اور خود کو پہلے کی نسبت زیادہ معتبر خیال کرنے لگے ۔یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ چلیں ہر انسان کو اپنے منہ پر کچھ بھی کرنے کا حق حاصل ہے ۔یعنی یہ نجی معاملہ ہے۔لیکن اتنے اعلی عہدے پر فائز شخص کا اپنی جہالت کا سرعام ابلاغ کوئی اچھی بات نہیں۔ہوا یہ کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے یوم وفات کی مناسبت سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ عمران اسمعیل نے کہا ہے کہ لیاقت علی خان فرزند کراچی تھے۔چلئے یہاں تک تو ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے ،پر جب انہوں نے یہ انکشاف کر ڈالا کہ لیاقت علی خان کی جائے شہادت بھی کراچی ہی ہے ۔تو سب نے حیرت سے ان کے کھلے ہوئے منہ کو دیکھنا شروع کردیا ۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی ۔۔عمران اسمعیل کے اس انکشاف پر اب پوری قوم کا منہ کھل چکا ہے ۔ستم ظریف کا خیال ہے کہ یہ کوئی ایسی غلطی نہیں جس سے عوام یا پاکستان پر کوئی فرق پڑتا ہو ۔اس لاعلمی سے خود گورنر کی علمی حیثیت کا پردہ چاک ہوا ہے ۔اصل جرائم وہ ہیں جو یہ لوگ عامتہ الناس کی زندگی اجیرن کرنے کے لیے کئیے چلے جا رہے ہیں ۔ابھی چند روز پہلے انہی گورنر سندھ نے انکشاف کیا تھا کہ حکومت نے مہنگائی پر قابو پا لیا ہے ۔ستم ظریف اس بیان کو مثال بنا کر کہتا ہے کہ یہ لاعلمی یا جہالت نہیں، یہ مکاری اور دغا بازی ہے ۔اس کے اپنے خیال میں کم علم ہونا زیادہ بری بات نہیں ،لیکن حکومت کے مہنگائی پر قابو پالینے جیسے پرفریب بیان دینا سراسر مکاری اور دروغ گوئی ہے ۔اس طرح کے بیانات دیتے وقت وزیراعظم نے بھی کوئی کمی نہیں کی ،انہوں نے عامتہ الناس کی دین سے وابستگی کو ان کی کمزوری سمجھ کر کمزور لوگوں کی معیشت کا بازو مڑوڑنا شروع کر رکھا ہے۔لوگ ملک کے حالات سدھارنے کے لیے کارکردگی کے منتظر ہیں ، وزیراعظم ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر اس سے کھیلنے میں مصروف ہیں۔یہ اس قدر تیز دماغ لوگ ہیں کہ ربیع الاول کو ایک ڈھال بنا کر اپنی تمام تر ناکامیوں اور نالائقیوں سمیت اس کے پیچھے چھپ گئے ہیں ۔پاکستان بھر میں ،بلا امتیاز ہر شہر ، قریے اور کوچے میں عید میلاد النبی کو نہایت عقیدت ،احترام اور جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے ۔اور اس احترام اور جذبے کے لیے کسی گزٹ نوٹیفکیشن کی کبھی ضرورت نہیں رہی۔لیکن وزیراعظم نے اسے اپنی حکومت کے ایک کارنامے کے طور پر پیش کرنا شروع کر رکھا ہے ۔جدید پولیٹکل سائنس میں اسے سیاسی چال چلنے کے لیے مذہب کارڈ کھیلنا کہتے ہیں ۔پاکستانی سیاست میں روایتی طور پر مذہب کارڈ کھیلنے کے لیے علحدہ سے مذہبی سیاسی جماعتوں کے ایک جتھا موجود رہا ہے ۔اس جتھے کے کام کرنے کا طریقہ اور سلیقہ منیر انکوائری کمیشن رپورٹ میں بڑی تفصیل سے پڑھا جا سکتا ہے۔لیکن اب بظاہر ایک جدید وضع قطع کے سیاستدان ، جو ایک کھلاڑی کے طور پر انتہائی ہمہ جہت زندگی گزار کر ، اور عوام میں اپنے لیے پسندیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم بن گئے،ایسے ماڈرن شخص سے تو عوام کی توقع یہ تھی کہ وہ ہمیں پاکستان کے روایتی سیاست دانوں کے بار بار دھرائے کھیل کھیلنے کی بجائے ترقی کی شاہراہ پر لے جائیں گے۔لیکن تین سال انتظار کرانے کے بعد انہوں نے اقبال کی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کے آخر میں ابلیس کے خطاب کو اپنا منشور بنا کر عامتہ الناس کے مذہبی جذبات کے تاروں کو اپنی بے حس انگلیوں سے چھیڑنا شروع کر رکھا ہے۔اس سال عظیم الشان جشن ولادت منائیں گے۔یہ برکتوں والا مہینہ ہے۔ریاست مدینہ قائم کریں گے۔بھائی جان یہ سب کرنے کے لیے تحریک انصاف نام کی نیم سیاسی جماعت کی حکومت قطعاً ضروری نہیں ہے۔بارہ ربیع الاول اور عید میلاد النبی کی پرجوش تقریبات اس ملک اور اس خطے کے لوگ مناتے چلے آ رہے ہیں ۔اور ایسا آخرت کے لیے نہیں ، دل کی سچی خوشی کے لیے کرتے ہیں ، آپ یہ بتائیے کہ پاکستانیوں کی دنیا کے احوال سنوارنے کے لیے آپ اور آپ کی حکومت نے کیا کیا ہے؟۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ریکوری ٹیم بن کر آئے ہوں؟اور آپ کی واحد ذمہ داری پاکستانیوں کی ہڈیاں نچوڑنا ہو؟۔ستم ظریف کہتا ہے کہ ان بے چاروں کو اتنا کردار ہی دیا گیا ہے ۔اس طرح کی سول حکومتوں کی آڑ میں شکار کوئی اور کھیلتا ہے ۔ریاست و سیاست کے اس جنگل میں عوام اس وقت تک شکار ہوتے رہیں گے ،جب تک وہ شکار بننے سے انکار کرتے ہوئے بغاوت نہیں کریں گے ۔ستم ظریف شائد ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔یہ لوگ بغاوت کے لیے نہیں ، محض عداوت کے لیے پیدا ہوئے ہیں ۔ان کا شکاری نفرت کا ایک گولہ سا بنا کر ان کے سامنے پھینکتا ہے اور یہ دم ہلاتے ،زبان لہراتے اور دوڑتے جاتے اس گولے کو پکڑ کر شکاری کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں۔یہ لوگ خود ایک دوسرے کا جال ہیں۔ان کے احوال تبدیل نہیں ہو سکتے۔ان بے چارے لوگوں کی ہر چیز قتل کر دی گئی ہے ،آرزو،امید ، حال ،مستقبل اور یہاں تک کے تاریخ بھی۔البتہ سب سے زیادہ اندوہناک قتل تو بے چاری تاریخ کا ہوا ہے ،ستم ظریف پوچھتا ہےکہ کیا قتل کرنے سے پہلے تاریخ سے بھی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے؟ شائد نہیں پوچھتا کوئی لیکن اگر قاتل تاریخ سے اس کی آخری خواہش پوچھ ہی بیٹھے تو میرا قیاس ہے کہ وہ صرف یہ کہے گی کہ ؛ مجھے دہرانا نہیں، یہی میری آخری خواہش ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں