آج یکا یک جی میں آیا کہ کیوں نہ سیاست دانوں کی بجائے ذرا قوم کے عیوب و نقائص پر قلم زنی کی جائے گو کہ اسی قوم کا ایک ادنی سا فرد میں بھی ہوں اور میں بھی عقل پر بندوق تان کر اپنے مستقبل کو جبر کے طویل وقفوں میں ساتھ لیکر سرگرداں رہا اور وقت ریت کی طرح بغیر بتائے مٹھی سے نکل گیا سو اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُک گئیں کھیت ۔سرمایہ تو نہیں گزرے تجربات کی نصحتیں ہیں جو وارثین کی جھولی میں صبح شام ڈالنا ناگزیر عمل بن گیا ہے ۔زمانے کے بدلتے چہروں نے جہاں کئی تجربات سے تعارف آموز کیا وہیں یہ بات بھی سمجھ آئی کہ جیسے سود پہ قرض لے کر ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن نہیں ہو سکتی اسی طرح غرباء کو بھیک دینے سے غربت کا خاتمہ نہیں ہوتا جہاں ملک کو لوٹنے میں کئی دوسرے مافیاز اپنے اپنے قبیح کاموں میں مصروف ِ عمل ہیں وہیں پر بھیک مانگنے والوں کا بھی بہت بڑا مافیا ہے جو ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے جو لاکھوں روپے کئی دہائیوں سے سمیٹ رہا ہے مگر کبھی بھی ان کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا کسی نے بتایا کہ ہم نے بھیک اور تجارت میں موازنے کے لئے دو بچوں کو تیار کیا بھیک والے کو خستہ حال کپڑوں میںمختلف بازاروں میں مانگنے کے لئے بھیجا اور دوسرے کو مختلف چیزیں بیچنے کے لئے بھیجا شام کو بھکاری بچہ 800روپے اور مزدور بچہ 150روپے کما کر لایا اس سماجی تجزیے سے یہ بات بغیر کسی تردد کے واضح ہوتی ہے کہ بحیثیت قوم بھیک مانگنے والے گداگروں کی حوصلہ افزائی کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جب کہ محنت و مزدری کے طفیل رزق حلال کی حوصلہ شکنی کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے علامہ بھی بہت پہلے اس بات کو کہہ گئے کہ ہیں تلخ بہت ہے بندہ ٔمزدور کے اوقات ۔ایک قوم کی حیثیت سے یہ معیار یہ سوچ سامنے ہے کہ ہم منفی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی وسیع پیمانے پر مدد کرتے ہیں اور حقداروں کو کربلا کے شہیدوں جیسا پیاسا رکھتے ہیں اور اللہ کے یہ عاجز بندے کسی سے شکایت نہیں کرتے مگر خالق ِ ارض و سماء سے ضرور کرتے ہیں ایسی بیشمار منفی سوچیں قوم کی دیکھتے ہوئے انھیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ اُن لوگوں سے ڈرو جو اپنے فیصلے رب العزت کے حوالے کر دیں اب کسی پیشہ ور گداگر کو سو یا پچاس روپے دے کرمیری طرح کا گناہ گار سیاہ کار یہ سمجھ لے کہ جنت مل گئی احمقانہ غیر دانشمندانہ سوچ نہیں تو اور کیا ہے ؟معاشرہ اُس وقت تک مثالی نہیں ہو سکتا جب تک ایک انسان دوسرے انسان سے پُرخلوص محبت ،بے پناہ پیار نہ کرے انسانوں سے محبتوں کے دعوے تو کئی سیاست دان کر گئے کیا کسی ایک نے بھی حقیقی معنوں میں عبدالستار ایدھی کی طرح انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ؟ اگر بنایا ہوتا تو ہمارے معاشرے کی یہ زبوں حالی نہ ہوتی ہم غربت کے پنجرے میں بند روٹی پانی کو نہ ترستے بھوک کی تڑپ دیکھنی ہو تو ذرا تھر یا کسی اُجڑے دیار کے نواح میں جا کر دیکھو ۔ایسی حالت ِ زار کے باوجود بھی جب قوم اپنے رسم ورواج خصوصی طور پر شادی بیاہ کی رسومات پر لاکھوں لٹانے سے دریغ نہیں کرتی تو دل کہتا ہے کہ ایسی منفی سوچ رکھنے والی قوم جو مستقبل کی ضرورتوں سے بیگانہ ہو کر ،کسی سے قرض لے کراپنی غیر اسلامی رسومات پر لٹاتی پھرے تو ایسے تدبیر رکھنے والے افراد کسی رعایت ،کسی رحم کے مستحق نہیں ہوتے جیسا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث لوگ اور اُن کے منصوبہ ساز قائدین ۔پھر قوم کے باشعور خواندہ لوگوں کی شخصیت پرستی کا عالم تو ملاحظہ کریں کہ بار بار جھوٹ سننے کے بعد بھی اُس مہاتما کو صادق اور امین جانیں۔ ریاست ِ پاکستان اپنے آئین و قانون کے مطابق پابند ِ سلاسل کرے اُس پر بیرونی طاقتیں اپنے اخبارات یروشلم ٹائمز و اسرائیل ٹائمز میں چھپے آرٹیکل میں ہمارے قانون و ریاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے غیر ضروری مداخلت کریں اور قوم اس بانی پی ٹی آئی کو اُمت مسلمہ کا لیڈر سمجھے تو اس جانبداری سوچ پر ہنسنا ہی پڑتا ہے جو کہ منفی سوچوں میں ایک اضافہ ہے جس پر صرف حیرت نہیں المناک حیرت ہوتی ہے سیاسی قائدین کاقابل ِ اعتراض کردار اپنی جگہ مگر قوم بھی تو اسلامی اُصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تسبیح کے دانوں کی طرح ایک مقام پر نہیں ہے مختلف فرقوں میں بٹی ایک دوسرے پر عقائد کے نشتر چلانے میں مشاق ،ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے میں مصروف ِ عمل ہے لسانی تعصبات میں رنگی یہ قوم خود کو پاکستانی کہنے کی بجائے پنجابی ،بلوچی ،سندھی ،پٹھان کہنے پر ترجیح دے تو یکجہتی اپنے سر پر خاک ڈالے رخصت ہو جاتی ہے ایک پاک فوج ہے جو ریاست کے دفاع کے لئے اپنی انمول جانوں کے نذرانے پیش کر کے قوم کو دہشت و وحشت سے نجات دیتے ہوئے سکوں فراہم کر رہی ہے گو کہ سوشل میڈیا بیرونی طاقتوں کی ایماء پر سیاست کرنے والی تنظیمیں ہماری پاک فوج پر تنقید کر کے عرصہ دراز سے غیروں کے ایجنڈے کو تقویت دے رہی ہیں اس مسئلے پر بحث طویل ہے مگر اختصار کے خیال سے اقتباس ہی پیش کیا ہے اصول اور حق اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایسی قوم جو دوست دشمن کی پہچان نہ رکھے تو ایسے ہجوم ِ بیکراں کے دردوں کا درماں بھی نہیں کرنا چائیے قومیں اس اشکال میں نہیں ہوتیں جن روایات پر ہم رواں ہیں فسق و فجور میں مبتلا جو قوم دنیا کوایسی مافوق الفطرت قوم نہیں ملے گی پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور آج پھر قوم کی منفی سوچیں دیکھتے ہوئے دہراتا ہوں کہ افسوس ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو اچھے والدین نہیں ملیں گے ۔
0