عائشہ مسعود(اسلام آباد: پاکستان)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیو یارک پہنچتے ہی خلیل سے رابطہ ہونا اور انجم سے ملاقات ہونا معمول کی بات تھی ۔ایک مرتبہ تو ائیر پورٹ سے خلیل نے ہی مجھے پک کیا تھا ۔میری رہائش بھی اُردو ٹائمز اخبار کے قریب ہی ہوا کرتی تھی لہٰذاا نیویارک قیام کے دوران مجھے یہ آسانی تھی کہ واک کرتے ہوئے اُردو ٹائمز کے دفتر پہنچ جاتی تھی۔میں سیڑھیاں اتر کر نیچے جاتی تو سامنے خلیل اور انجم دونوں کام کرتے دکھائی دیتے تھے ۔سجاد اظہر بھی وہیں ہوتا تھا اور مقسط ندیم سے بھی میری پہلی ملاقات خلیل کے دفتر میں ہی ہوئی تھی۔خلیل اُردو ٹائمز کا بانی تھا اور امریکہ میں اُردو زبان کی ترویج کرنے والا شخص تھا اور اس کی بیگم اس کام میں اس کے شانہ بشانہ تھی بلکہ یہ ٹچ بٹنوں والی جوڑی تھی ۔نہ خلیل کو انجم سے الگ کر کے دیکھا جا سکتا تھا نہ انجم کو کو خلیل سے الگ کر کے سوچا جا سکتا تھا ۔خلیل اور انجم کے ساتھ ایک دن صبح کا وہ سفر بھی مجھے یاد ہے جب دونوں کئی جگہوں پر اُردو ٹائمز اپنے ہاتھوں سے رکھ کر آئے تھے ۔پاکستان میں اخبارات ہاکرز تقسیم کرتے ہیں مگر خلیل اخبار مختلف جگہوں پر خود رکھ کر آتے تھے ۔۔خلیل نے بتایا تھا کہ یہ کام وہ برسوں سے کر رہے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ یوں بھی ہوتا رہا تھا کہ انھوں نے اُردو ٹائمز کو کئی جگہوں پر رکھا اور کچھ دیر بعد ان جگہوں سے تمام اخبار ان کے مخالفین نے اٹھا لیا لہٰذاوہ بڑی احتیاط سے یہ کام خود سر انجام دیتے تھے اور بعض اوقات انھوں نے چیک بھی کیا کہ اخبار اپنی جگہ موجود ہیں کہ نہیں اور خلیل اور انجم کا یہ کام ایک دن کا نہیں کئی سالوں سے روزانہ کا تھا مگر خلیل کے اندر محنت کرنے والا اور اپنے اخبار سے محبت کرنے والا وہ جن موجود تھا جو کبھی اپنے کام سے بیزار نہیں ہوتا تھا ۔ ایک مرتبہ انجم کے ساتھ میں ان کے گھر گئی تو کریلے گوشت کھائے ۔چائے پی مگر مجھے خلیل کی ایک بات ان کے گھر انجم کے ساتھ بیٹھے ہوئے مجھے یاد آتی رہی ۔خلیل نے ایک دن کہا تھا اگر میں نہ ہوں تو انجم کی زندگی مشکل ہو جائے گی اور اسے تنہائی کا دکھ کھا جائے گا اس لئے میں اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہوں ۔امریکہ میں بہت سارے والدین کے بچے ان کے ساتھ نہیں ہوتے ۔آج سوچتی ہوں انجم کیا کرے گی ؟ میں اسلام آباد کی تھی اور خلیل الرحمٰن اس کی وجہ سے بھی میرے ساتھ ایک خاص تعلق محسوس کرتا تھا ۔ مجھے یاد ہے جس وقت وہ بتا رہا تھا کہ میرا تعلق میلوڈی کے قریب کے علاقے سے ہے اور پھر اس نے وہاں کی سڑکوں اور گلیوں کے بارے میں بتانا شروع کیا تو اس کا لہجہ اور آ نکھیں محبت سے لبریز تھیں ۔میں نے پوچھا کہ آپ پاکستان کتنا عرصہ پہلے گئے تھے تو خلیل نے شاید پانچ چھ سال پہلے کا وقت بتایا تو میں نے کہا خلیل میں واپس چلی جاؤں تو آپ اور انجم اسلام آباد آئیں پھر ہم میلوڈی فوڈ پارک میں آپ کو کھانا کھلائیں گے اور آپ دونوں کے اعزاز میں ایک تقریب بھی کریں گے ۔خلیل نے وعدہ کیا تھا مگر پورا نہیں کیا ۔خلیل کے پاؤں میں جو چکر تھا اس میں ان کا پاکستان آنا دشوار بھی تھا ۔خلیل تیز تیز بولتا تھا ۔وہ گورا چٹا نہیں تھا مگر اس کے چہرے کی مسکراہٹ میں غضب کی معصومیت تھی ۔وہ کھرا سچ بولتا تھا ۔ایک مرتبہ پاکستان پر بات کرتے کرتے اسلام پر بھی بات شروع ہو گئی ۔اس نے اپنے نظریات کا کھل کر اظہار کیا ۔مولویوں کے کردار پر تو میں نے تائید کی مگر کچھ معاملات میں مجھے خلیل سے اختلاف تھا مگر یہ اختلاف ہمارے احترام کے رشتے میں کبھی حائل نہیں ہو سکا ۔میں نے اُردو ٹائمز کے زیر اہتمام ہونے والی ایک بڑی کانفرنس بھی اٹینڈ کی اور خلیل کو اس کانفرنس کے انتظامات میں دن رات کام کرتے بھی دیکھا ۔خلیل نے میرے اعزاز میں بھی تقریب منعقد کی تھی اور بہت بڑے ڈنر کا اہتمام کیا تھا ۔ایک مرتبہ انجم کی سالگرہ تھی ۔میں نیویارک میں پھولوں کی تلاش میں نکلی اور انجم کے لئے خوبصورت سے پھول خریدے اور اُردو ٹائمز کے دفتر پہنچ گئی ۔دونوں حسب معمول کام میں جتے ہوئے تھے ۔انجم کو پھول پیش کئے تو وہ بہت خوش ہوئی ۔انجم باتھ روم میں گئی تو خلیل کہنے لگا آپ کچھ اور لے لیتی پھول تو یہاں بہت مہنگے ہوتے ہیں ۔میں نے خلیل سے کہا یہ آپ دونوں میں جو محبت ہے اس سے مہنگے نہیں ہیں ۔خلیل تھوڑا سا شرما گیا اور کہنے لگا دراصل انجم کا میں خیال نہ کروں تو اس کا جینا مشکل ہو جائے یہ بچوں کو بہت مس کرتی ہے تو میں نے کیا یہی تو محبت ہے جس نے انجم کی فکر سے آپ کو باندھ رکھا ہے ورنہ کئی شوہر بیوی کے بارے میں اتنے حساس ہو کر نہیں سوچتے ۔خلیل کے ساتھ جیکسن ہائٹس کے علاقے کا وزٹ بھی مجھے یاد ہے جہاں ہم نے سموسے اور جلیبیاں کھائی تھیں اور معروف افسانہ نگار اور مصور ممتاز حسین سے بھی گپ شپ ہوئی تھی خلیل اور انجم کے ساتھ بہت ساری یادیں ہیں۔ جب میں پاکستان آ گئی تو شروع شروع میں ان سے رابطہ رہا پھر طویل وقفہ آگیا ۔کچھ دن سے مجھے خلیل اور انجم کا دل ہی دل میں خیال آتا جا رہا تھا مگر بات کرنے کے لئے فون اٹھاتی تو نمبر نہیں ملتا تھا کیونکہ فون کا سیٹ بدل گیا تھا اور عرصے سے ان کی طرف سے بھی رابطہ نہیں تھا ۔آج خلیل الرحمٰن کی پہلے شدید علالت اور پھر دنیا سے گزر جانے کی خبر سنی ۔دل دکھ سے بوجھل ہو گیا ۔بہت سارے سوالات ذہن میں آ رہے ہیں ۔اردو ٹائمز کا دفتر اب نیویارک کی اس سڑک پر آباد ہو گا کہ نہیں ؟ نیویارک کے مخصوص مقامات کے کونوں کے شیلف اُردو ٹائمز سے کیا خالی ہوتے ہونگے ؟ اب کسی مخالف کو اخبار اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی ؟اور اُردو ٹائمز کے دفتر کی سیڑھیاں اتریں گے تو خلیل نہیں ہوگا ؟ مگر انجم تو وہاں اکیلی نہیں بیٹھ سکتی تو کیا ہو گا ۔اور اب اسلام آباد سے میں امریکہ گئی تو کون یہ کہے کہ یہ میری گرائیں ہیں ۔ آج خلیل کے لئے محبت اور دعائیں بھیج رہی ہوں اور نیویارک کے سوگوار دوستوں سے گزارش ہے کہ اس کو محبت کے ساتھ سپرد خاک کریں ۔خدا تعالیٰ انجم کو ہمت دے جسے خلیل کے بغیر ایک قدم بھی چلنے کی عادت نہیں ہے !!۔