تحریر: (نیلوفر عباسی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ چند روز کے لئے کسی شہر، کسی ملک جائیں تو وہاں موجود آپ کے دوست، عزیز واقارب آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، خاطر مدارت، دعوتوں کا سلسلہ ہوتا ہے، یہی خیال رہتا ہے کہ دو چار دن کا ’’وزٹ‘‘ کرنے آئے ہیں جتنی ملاقاتیں ہو جائیں لیکن جب کسی جگہ مستقل قیام کی غرض سے سیٹ ہو جائیں تو صورت حال مختلف ہو جاتی ہے پتہ نہیں کیا ہوتا لوگ کیسے ہوں گے، ماحول کیسا ہو گا، سب الگ ہو گا،ایسے ہی وسوسے، خدشے اور وہم سے ملے جلے خیالات کے ساتھ ہم اپریل 1999ء میں کراچی سے نیویارک آگئے ۔
اللہ تعالیٰ مہربان ہو تو کوئی بھی شہر، ملک یا جگہ ہو آپ کے لئے آسانیاں منتظر ہوتی ہیں، اہل نیویارک نے ہمیںاس طرح ہاتھوں ہاتھ لیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی ، قمر علی عباسی کے لئے ان کا احترام محبت اور پیار دیدنی تھا، دعوتوں کا سلسلہ ہمارے نیویارک پہنچنے کے تیسرے دن سے شروع ہو گیا۔
سب سے پہلی دعوت نیویارک کی جانی مانی شخصیت وکیل انصاری نے اپنے دولت کدے پر کی، وکیل انصاری کے گھر شہر کی مقتدر اور پڑھی لکھی شخصیات جمع تھیں، سماجی و ثقافتی شخصیت بشیر قمر اور ان کی بیگم تسنیم، مشہور شاعر مسرور جاوید اوران کی بیگم طلعت، پاکستان پوسٹ کے آفاق خیال اور ان کی بیگم سارہ ، عوام اخبار کے پبلشر و مالک ڈاکٹر شفیع بیزار ،ایڈیٹر طاہرہ حسین، معروف نعت خواہ اور لکھاری سروش چغتائی اور دیگر موقر شخصیات ،اپنی باتوں کی وجہ سے ان میں سب سےنمایاں تھے خلیل الرحمن ،ان سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ اُردو ٹائمز اخبار نکالتے ہیں اور یہ پہلا اُردو اخبار ہے جو ایک ساتھ نہ صرف نیویارک اور دوسری ریاستوں سے نکلتا ہے بلکہ کینیڈا سے بھی شائع ہوتا ہے۔
بات کراچی کی ہو یا نیویارک کی کرنٹ افیئرز ہوں یا روایات و ثقافت کی خلیل الرحمن ہر موضوع پر نہایت زور و شور بلکہ بہتاتی سے گفتگو کررہے تھے، معلوم ہوتا تھا کہ جو معلومات اور آگہی انہیں ہے وہ جلد از جلد دوسروں تک منتقل کر دینا چاہتے ہیں، ان کے ساتھ ان کی پیاری سی سوبرسی بیگم تھیں انجم، کسی نے ان سے پوچھا ’’خلیل صاحب ہر موضوع پر بول رہے ہیں، آپ چپ ہیں‘‘؟ انہوں نے مسکرا کر فخریہ انداز میں کہا ’’خلیل اتنا اچھا بولتےہیں کہ پھر میرے بولنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی‘‘۔
وکیل انصاری اور ان کی بیگم نے لذیذ طعام کا اہتمام کیا تھا۔ کھانے کے بعد کچھ شعراء نے اپنا کلام بھی پیش کیا اور یوں یہ خوبصورت محفل بہت سی خوشگوار یادیں اپنے پیچھے چھوڑ کر اختتام پذیر ہوئی۔ ہیرے کی پہچان جوہری کو ہوتی ہے اور خلیل الرحمن ایک جوہری کی طرح نگینے چن چن کر اپنے اخبار کی زینت بڑھاتے تھے لہٰذا جس طرح اخبار ’’جنگ‘‘ کے بانی میر خلیل الرحمن نے قمر علی عباسی کو اپنے اخبار کے لئے چنا تھا اسی طرح نیویارک کے خلیل الرحمن نے بھی عباسی صاحب کو اپنے اخبار میں کالم لکھنے پر رضا مند کر لیا، ان کی اس کاوش میں وکیل انصاری بھی شامل تھے۔
قمر علی عباسی اپنی آخری سانس تک اُردو ٹائمز کیلئے کالم لکھتے رہے، اس تمام دوران خلیل الرحمن اور ان کی بیگم انجم نے جس طرح ان کی پذیرائی اور عزت افزائی کی وہ انہی کا ظرف ہے اور قمر علی عباسی کا حق تھا۔مختلف تقریبات میں دعوتوں میں ملاقاتیں ہوتے ہوتے انجم خلیل سے یہ شناسائی گہری دوستی میں بدل گئی، خلوص اور بے لوثی کا رشتہ قائم ہو گیا۔
خلیل اور انجم ہمیشہ اکٹھے نظر آتے، اکٹھا ملتے، نہ انجم کہیں اکیلے نظر آئیں نہ خلیل کسی محفل میں تنہا ملے، دونوں کے طریق مختلف، انجم خاموشی سے گردو پیش کے واقعات پر نظر رکھتیں اور سمجھتیں، خلیل میں جیسے ایک مضطرب روح سمائی ہوئی تھی، بے قرار، معلوم حقائق میں کسی انجانی حقیقت کے متلاشی، ان کی مستعدی میں ایک غیر معمولی انہماک تھا۔
ہل سائیڈ ایونیو جہاں اُردو ٹائمز کا دفتر تھا وہ ایک گہما گہمی والا علاقہ تھا، میں اور عباسی صاحب گروسری کرنے جاتے تو اکثر اُردو ٹائمز کے دفتر بھی ہو لیتے جہاں خلیل اور انجم نہایت انہماک سے کام میں مصروف ہوتے لیکن وہ سارا کام چھوڑ کر جلدی سے گرم گرم سموسوں اور چائے کا اہتمام کرتے اور ایسی خوشی کا اظہار کرتے جیسے یہ یہاں ہمارے ہی انتظار میں بیٹھے تھے۔
خلیل الرحمن ایک دبنگ شخصیت کے مالک تھے جو بات ہے وہ سچی اور کھری کرتے، لگی لپٹی نہ رکھتے، ان کا یہ رویہ ان کو منفرد بناتا تھا، لیکن کبھی کسی کیلئے کوئی ہلکی بات نہیں کرتے کسی کیلئے تحقیر آمیز رویہ نہیں اپنایا، منافقت نہیں برتی۔
اُردو ٹائمز کا دفتر سیدھا سادھا اخبار کا دفتر تھا، کوئی غیر معمولی لوازمات یہاں نظر نہیں آتے، ان کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ جہاں انجم اور خلیل ہوں وہاں کسی اور کچھ چیز کی گنجائش نہیں ہوتی۔
اسی دفتر میں اکثر یاران طریقت کی محفل جمتی امیگرنٹس کے مسائل سے لے کر کرنٹ افیئرز ہر بات ہوتی اور پھر ایک دن بات نکلی ’’اُردو کانفرنس‘‘ کی، اپنے اخبار ’’اُردو ٹائمز‘ کے ذریعے خلیل الرحمن جس طرح اُردو زبان و ادب کی خدمت کررہے تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا مگر اب وہ ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہتے تھے بین الاقوامی اُردو کانفرنس منعقد کر کے اور پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس سوچ کو عملی جامعہ پہنایا، نہ صرف نیویارک میں بلکہ نیوجرسی، شکاگو، لندن، کینیڈا میں عالمی کانفرنس منعقد کروائیں وہ بھی ایسے اعلیٰ پیمانے پر کہ دنیا بھر سے شاعروں، ادیبوں کو بلا کر فائیو سٹار ہوٹلز میں ٹھہرایا، مقدور بھر دل کھول کر ان کی پذیرائی کی کیونکہ وہ ’’اُردو‘‘ کے نمائندے تھے، ان کانفرنسوں میں ہندوستان سے گوپی چند نارنگ سے لے کر پاکستان سے امجد اسلام امجد، افتخار عارف، اختر ندیم سید، عطا الحق قاسمی، منیر نیازی اور بے شمار دیگر اکابرین و شعرا ءشامل تھے۔
ان کانفرنسوں میں پرمغز مقالوں اور تقریریوں کے علاوہ مشاعرے، محفل غزل، محفل قوالی کیا کچھ نہیں ہوتا تھا۔کانفرنسوں کے اہتمام اور انصرام میں خلیل کے شانہ بشانہ قمر علی عباسی، وکیل انصاری، نسیم اختر بھائی کے علاوہ جو ہر لمحے ہر قدم ہر ساتھ ہوتی تھیں وہ تھیں انجم خلیل وہ دامے، درمے، سخنے ہر طرح معاونت کرتیں۔ نیویارک میں خلیل الرحمن کا ایک کارنامہ حلقۂ اربابِ ذوق کا دوبارہ فعال کرنا بھی تھی، انہوں نے نئے سرے سے ممبر سازی کی الیکشن کروائے اور اس کے بینر تلے کامیاب نشستیں کرواتے رہے۔
خلیل اکثر کہتے انجم نے ہمارے پانچ بچوں کے ساتھ چھٹے بچے ’’اُردو ٹائمز‘‘ کو بھی پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ خلیل الرحمن کا تقریباً ہر جملہ ’’انجم‘‘ سے شروع ہوتا تھا اور کیوں نہ ہوتا انجم ہی تو ان کی زندگی کی انجمن تھیں، ہر لمحے، ہر قدم ساتھ ساتھ۔
زندگی اطمینان، سکون سے رواں دواں تھی کہ اسی سال اگست کے مہینے میں خلیل کے دانتوں میں کچھ مسئلہ ہوا ایسی تکلیفیں تو زندگی کا حصہ ہوتی ہیں، عام سی بات لگی مگر یہ عام نہ رہی بلکہ صورت حال تیزی سے بگڑنے لگی ہر ممکن علاج ہورہا تھا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، انجم اور خلیل کے لئے یہ سخت آزمائش کا وقت تھا۔
سرشار زندگی کے خواب بکھرنے لگے، شوق کی فراوانیوں کایکسر خاتمہ ہو گیا، خلیل جو مجلس آراء تھے اب گوشہ گیر ہو گئے، پہلے بحث مباحثے میں فریق مخالف کی زبان بند کر دیتے تھے اب کسی سے بحث نہ کرتے، انانیت کا کوئی مظاہرہ نہیں تھا، خاموش سے ہوتے چلے گئے۔
اس مرحلے پر بھی انجم نے حوصلہ نہیں ہارا، رات، دن خلیل کی خدمت عبادت کی طرح کرتیں، ساتھ ہی خلیل کے لگائے پودے ’’اُردو ٹائمز‘‘ کی اُسی ذمہ داری سے خوش اسلوبی سے دیکھ بھال، وقت پر اخبار نکالنا اس کی ڈسٹری بیوشن گو کہ انجم نے لٹریچر میں ماسٹرز کیا تھا مگر معلوم یہ ہوتا تھا کہ جرنلزم کی ایکسپرٹ ہیں، کالموں کا انتخاب، خبروں کی سرخیاں بنانا، تصویروں کی Placingسب کو انہوں نے اپنا کام بنا رکھا تھا، کبھی زندگی کا کوئی گلہ نہیں، البتہ اب ان کو گلہ اس بات کا ضرور ہونے لگتا تھا کہ کیا ہوا کہ خلیل جیسا توانا چست شخص دیکھتے دیکھتے گھلنے لگا وہ بھی اس تیزی سے، گلہ خوف میں ڈھلنے لگا، مگر پھر انجم ان وسوسوں، خوف کو جھٹک کر خلیل اور خود اپنے آپ کی ہمت جتانے لگتی، خلیل ٹھیک ہو جائیں گے تو ہم دونوں پھر اکٹھے دفتر جائیں گے، جیکسن ہائٹس کے ریسٹورنٹ ڈیرہ اور شاہین پر کھانے کھائیں گے حلقۂ اربابِ ذوق کے جلسوں میں شریک ہوں گے، پاکستان کا چکر لگائیں گے انجم یہ منصوبے بنارہی تھیں اور موت کا اپنا منصوبہ تھا، آہستہ آہستہ آگے بڑھتی آرہی تھی، مقابلہ زندگی اور موت کا تھا، بھلا موت سے بھی کوئی جیتا ہے!خلیل بھی ہار گئے۔
خلیل الرحمن ’’اُردو ٹائمز‘‘ کے بانی، ایڈیٹر تھے، نیویارک کی پاکستانی کمیونٹی کے بہی خواہ اور لیڈرز میں شمار ہوتے تھے، میری عزیز دوست انجم پر جان نچھاور کرنے والے ان کے شوہر تھے، ان تمام حیثیتوں سے میں انہیں جانتی ضرور تھی مگر ہزار کوشش کے باوجود سمجھ نہ سکی اور سمجھتی بھی کیسے!!خلیل تو ایک بگولہ تھے جو چکر کاٹتے اس فانی جہاں سے اس دائمی دنیا میں جا ٹھہرے، وہ تو ایک چھلاوہ تھے ابھی یہاں،، ابھی وہاں۔ خلیل الرحمن بیس نومبر 2024ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے، نیویارک کی ٹھنڈی ٹھنڈی مٹی اوڑھ کر شاید اس ’’جانِ بے تاب‘‘ کو قرار آگیا ہو
ؔ؎جاتے ہیں لوگ قافلے کے پیش و پس چلے
دنیا عجب سرا ہے جہاں آ کے بس چلے!!!!