گوہرتاج (مشی گن، امریکہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا خلیل الرحمن اور انکی اہلیہ انجم خلیل سے غائبانہ تعارف اسوقت ہوا جب مجھے امریکہ میں بسے محض چند ہی سال ہوئے تھے۔ ہر پاکستانی گروسری اسٹور اور پاکستانی ریسٹورنٹس میں اُردو ٹائمز رکھے ہوتے ۔یہ اخبار مفت ملتا اور میں کہ ایک بے وطن اور اُردو سے بچھڑی ایسے لپک کے یہ اخبار اٹھاتی جیسے کوئی میلے میں گم ہوا بچہ اچانک اپنی ماں کو دیکھ کر اسکے سینے میں مہک آئے۔ یہ کون ہے جو ہفتہ وار میری بےوطنی کے دکھ کو دور کرکے اُردو پڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے؟ یہ سوال میرے ذہن میں کبھی نہ کوندا ۔پھر پتہ چلا کہ یہ اخبار تو امریکہ کی چیدہ ریاستوں میں ملتا ہے۔ اور اسکے کچھ صفحات اس ریاست کے لکھنےوالوں کے لیے مختص ہوتے ہیں جو وہاں کے رہنے والے ہیں۔ میں شادی سے قبل لکھا کرتی تھی لیکن شادی کے بعد خود کو بھول بھال سی گئی۔ نوکریاں نپٹاتی ،تین چھوٹے بچے پالتی اور پھر امریکہ نقل مکانی ۔ بس ان فکروں اور ذمہ داریوں کے اژدھام میں خود سے بچھڑسی گئی تھی۔ اب اُردو کا استعمال صرف وطن میں رہنے والوں کوخطوط لکھنے کی حد تک ہی رہ گیا تھا۔
میں مشی گن میں رہتی تھی ۔ایک دن کسی تقریب میں اُردو ٹائمز کےمشی گن کے انچارج سے ملاقات ہوئی۔میں نے مفت مشورہ دیا کہ آپ یہاں کی نمایاں شخصیات کے انٹرویوز کیوں نہیں لیتے۔ جواب ملا بی بی آپ کیوں نہیں لیتیں یہ انٹرویوز؟ میں مشی گن کے صفحات پہ شائع کردونگا۔ اسوقت مجھے یاد آیا کہ شادی سے پہلے تو میں بھی کچھ قلم چلا ہی لیتی تھی ۔ ایک رسالہ آدھی دنیا کے لیے باقاعدہ انٹرویوز بھی لئے۔ رسائل اور اخبار کے لیے بھی مضامین لکھے۔ ججھکتے ہوئے سہی مگر میں نے حامی بھر لی۔ تو بس اس وقت سے میں اُردو ٹائمز سے جڑ گئی۔ بعد میں میرے کالمز مشی گن نہیںبلکہ ہر ریاست کے اخبار میں چھپنے لگے۔ اب میرا رابطہ براہ ِراست انجم اور خلیل الرحمن سے ہوگیا۔ خلیل الرحمن ، اُردو ٹائمز کے مالک اور اور انکی محبوب بیوی انجم خلیل۔ میں مضمون ہاتھ سے لکھ کر فیکس کرواتی اور اسے انجم ان پیچ کرواتیں۔ کبھی کوئی بات پوچھنا ہوتی تو فون پہ تبادلہ خیال ہوتا۔ فون اُردو ٹائمزکے آفس میں ہوتا ۔ جہاں انجم دیوانہ وار رات گئے اخبار کے کام میں جتی ہوتیں۔ خلیل صاحب بھی مضامین پڑھتے لیکن زیادہ تر اخبار کے لیے اشتہار اور چھپائی کے کاموں میں جتے رہتے۔ہفتہ وار کالم چھپنےکی وجہ سے میری باقاعدہ انجم تو پھرکبھی خلیل صاحب سے بھی بات چیت رہتی۔پھر یگانگت کی بنیاد پہ مجھے انجم کا سیل نمبر بھی مل گیا۔
میری انجم سے فون پہ باقاعدہ کافی دیر باتیں ہوتیں۔ دوستی اتنی ہو گئی کہ وہ اپنے میاں کی اُردو سے محبت اور دیوانگی کا تمام حال اور جھکی طبیعت کی بابت بہت بے تکلفی سے کہہ دیتی۔ وہ ان کا ہر قیمت پہ ساتھ دے رہی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ اس کے میاں ہیرا ہے۔ من کا سچا اور زبان کا کھرا۔ لگی لپٹی نہیں رکھتا جودل میں آتا ہے کہہ دیتا ہے۔ اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اگر اس شخص سے محبت اور اور اسکا ساتھ دینا ہے تواُردو ٹائمز سے محبت پہلی شرط ہے۔ اردو کا وقار امریکہ میں برقرار رکھنا خلیل صاحب کا جنون تھا۔ اس لحاظ سے اُردو ٹائمز انجم کی سوتن اور خلیل صاحب کا پہلا عشق تھا۔ بس وفا دار بیویوں اور سچی عاشق کی طرح انجم بھی اپنے شوہر کی محبت میں اپنے کو بھلا کے اُردو ٹائمز کی خدمت میں جت گئی۔ اسکی طبیعت میں خدمت گذاری اور انسان دوستی نے اسے کبھی مغرور نہیں ہونے دیا ۔ اسکے پاؤں ہمیشہ زمین پہ اور زمین پہ رہنے والے باسیوں کے ساتھ رہے۔وہ بہت ادب ، لحاظ اور رکھ رکھاؤ والی انسان ہے۔
یہ خلیل صاحب ہی تھے کہ جو پورے اہتمام سے بین الاقوامی سطح پہ امریکہ میں اُردو کانفرنسز کا اہتمام کرتے۔ انڈیا اورپاکستان سے بڑی بڑی ادبی شخصیات کو بلانا انکے لئے 5اسٹار ہوٹلوں میںقیام کا اہتمام اور آنے والوں کے لیے تین چار دن تک کھانے پینے کا اہتمام کرنا ایک جنونی انسان ہی کر سکتا ہے ۔ وہ جسے پاگل پن کی حد تک دیار غیر میںاُردو کی بقا سے محبت ہو-کانفرنس میں بہترین موضوعات پہ علمی اور ادبی شخصیات مقالے پڑھتیں ۔ عمدہ سیشنز میں شرکت کرنے والے نہ صرف سیکھتے بلکہ ان لوگوں سے ملاقات کرتے کہ جن سے دیارِ غیر میں ملناایک خواب ہی تھا۔ اس کانفرنس کا اختتام مشاعرہ پہ ہوتا اور پھر جوق در جوق دیارِ غیر میں اُردو کا جشن منانے والے یہ سوچے بغیر کہ اس کے پیچھے کس دیوانے کا ہاتھ ہے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ اللالل خیر صلا۔
نیو یارک میں ہونے والی ایسی ہی ایک کانفرنس میں انہوں نے مجھے بھی شرکت کے لیے دعوت دی تھی۔ اس پوری کانفرنس میں مجھے اندازہ ہوا کہ یہ انسان کس طرح اپنے کاندھوں پہ ساری ذمہ داری سےخاموشی کے ساتھ اپنے کام میں لگا ہوا ہے۔ دوسرے لوگ جن کے نام انتظامیہ میں ہوتے بھی تھے وہ اس طرح حصہ دار نہیں تھے البتہ نام اور خود نمائی میں شریک ضرور تھے۔کانفرنس اختتام پذیر ہونے کے آخری دم تک خلیل صاحب اور انجم دیوانہ وار کاموں میں مصروف رہے۔ ہوٹل میں مناسب کمروں کا انتظام اور وقت پہ ائیر پورٹ پہ لینا اورچھڑوانا۔یہ سب آسان نہ تھا۔
اسی کانفرنس میں میں نے پاکستان کی نمایاں شاعرہ عائشہ مسعود اور امریکہ میں اُردو کے مشہور شاعر نو ن م دانش سے پہلی بار ملاقات کی جو پھر عمر بھر کی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ قیام کے دوران عائشہ نےمیرے ساتھ کمرہ ہی نہیں اپنے دل کی باتیں بھی شیئر کیں۔ اس وقت میں سوشل ورک میں ایم ایس کےاختتامی مراحل میں تھی۔
مجھے نہیں پتہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اُردو ٹائمز کے صفحات بھی سکڑ جائیں گے۔ ایک آدھ سال تو اُردوٹائمز میں لکھا ۔پھر اسکا ساتھ چھوٹ گیا۔ انجم نے مالی خسارے کا ذکر کیا اور یہ بھی کہ تنہا کام کتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اُردو زبان کو اخبارات اور کانفرنسوں کی صورت اپنانے والوں نے کبھی سر جوڑ کے نہ سوچا ہوگا کہ اس قسم کے اخبارات کو جاری رکھنا کتنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ خود ہماری کیا ذمہ داری ہے۔ دراصل ہم سب اپنی ذمہ داریوں سے جان چراتے ہیں کیونکہ کسی کام سے مشن کی طرح جڑےرہنا کسی معمولی انسان کا کام نہیں ۔ ہم معمولی لوگ ہیں بس آج کے دن میں جینے والے۔ کل اپنی زبان کو زندہ رکھنے کا تو دیوانوں اور جنونی لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ یا ان سے اس طرح محبت کرنے والوں کا جیسی انجم نے اپنی شوہر خلیل سے کی۔ دن رات محبوب شوہر کے آدرشوں کی سیوا میں اپنے کو مٹا ہی دیا۔
باوجود کئی برسوں سے اُردو ٹائمز سے تعلق نہ ہونے کے میرے دل سے انجم اور خلیل صاحب کے لیے محبت اور عزت کم نہ ہوئی۔ کچھ سال قبل نیو یارک میں ہماری شاعرہ دوست حمیرہ رحمن کے گھر دونوں میاں بیوی مجھ سے ملنے آئے تھے۔ دو دن قبل حمیرہ سے فون پہ بات ہوئی تو انجم کے متعلق پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ میں نے کہا فون کا نمبر نہیں چلتا اگر ہوسکے تو معلوم کر کے دو۔ اس نے حامی بھر لی مگر کل ہی حلقۂ ارباب ذوق والے سعید نقوی کی فیس بک پوسٹ پہ پہلے طبیعت خرابی اور کچھ دیر بعد انتقال کی خبر ملی۔ میرا دل بیٹھ گیا ۔ ہم سب کا سفر موت کی جانب ہی تو رواں ہے لیکن یہ جدائی پیچھے رہ جانے والوں پہ شاق گذرتی ہے۔ خاص کر محبوبہ نما بیوی انجم کہ جو ایک اُردو کے جنون میں مبتلا شخص کی محبت میں رانجھا رانجھا کر کے آپ ہی رانجھا ہو گئی۔
انجم مجھے اندازہ بھی نہیں کہ کتنا بڑا خلاء خلیل الرحمن چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ہمیں تو بحیثیت قوم اپنے ہر قسم کے زیاں کا احساس جاتا رہا ہے۔
؎غزالاں تم تو واقف ہو ، کہو مجنوں کی مرنے کی
دوانہ مر گیا آخر کو، ویرانے پہ کیا گذری!!!!
(رام نرائن موزوں)