رمضان رانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے تو امریکہ میں پاکستانی امریکن آباد کار بڑی تعداد میں ہمیں چھوڑ کر جا چکے ہیں جس میں وکلا ءبرادری میں چوہدری صادق، انعام عباس، منصور اقبال کانجن، تنویر شاہ، ارشد اقبال چیمہ، میاں اشرف کے علاوہ کمیونٹی کے سرکردہ لوگ ڈاکٹر شفیع بیزار، ڈاکٹر جان، واحد بحش بھٹی صحافی، چودھری ارشد صحافی، چودھری اصغر اکائونٹنٹ ، مرزا بیگ اکائونٹنٹ، خواجہ احسان، رانا مجاہد، میاں زاہد، سرفراز چیمہ، سرفراز امین قابل ذکر ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں مگر اُردو اخبار کےا ُردو ٹائمز کے مالک ،پبلشر، ایڈیٹر ،صحافی خلیل الرحمن کی گزشتہ ہفتے وفات کا سن کر یقین نہ آیا کہ جن کو ہمیشہ صحت مند اور چلتا پھرتا دیکھا گیا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کمیونٹی کے ان چند لوگوں میں شامل تھے جو ہمیشہ پاکستانی امریکن کمیونٹی کے لئے متحرک نظر آتے تھے جنہوں نے اُردو ٹائمز شائع کر کے اُردو زبان کو بقا بخشی جس میں راقم الحروف کو اپنے مضمون لکھنے کا شرف حاصل رہا ہے جو ہر قسم کی پابندیوں سے بالاتر ہو کر شائع ہوتے رہے ہیں۔ خلیل الرحمن مرحوم کی بیگم بھی بڑی پڑھی لکھی خاتون ہیں جو اخبار کے شائع کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں، وہ اُردو تحریروں کی نوک پلک ٹھیک کرتی ہیں جس سے امریکہ میں اُردو زبان کو سہارا ملا جس کی وجہ سے اپنے بچوں کے ساتھ اُردو میں ہم کلام ہونے کا موقع ملتا ہے لہٰذا دونوں میاں بیوی نے اُردو اخبار شائع کرنے میں بڑی محنت اور ہر قسم کی جدوجہد کی ہے خلیل الرحمن مرحوم کو جب بھی دیکھا تووہ اخبار کے شائع کرنے میں مصروف نظر آئے اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے نارتھ امریکہ میں اُردو زبان کو اجنبیت سے بچایا تو مبالغہ نہ ہو گا ، انہوں نے اُردو زبان کی بقا کے لئے اخبار کے علاوہ لاتعداد بین الااقوامی اُردو کانفرنسز اور مشاعرے منعقد کیے جس میں ہندوستان اور پاکستان کے بڑے بڑے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ پاکستانی کمیونٹی میں میلوں ٹھیلوں کا انعقاد کیا، پریڈوں کا انعقاد کیا ۔ اُردو زبان کو بچانے کے لئے دوسرے بڑے اخبار نیوز پاکستان کو کریڈٹ جاتا ہے جو پورے شمالی امریکہ میں شائع ہورہا ہے جن کے پبلشر مجیب لودھی کا کہنا ہے کہ میں نے اخبار اُردو اخبارات کو دیکھ کر شائع کیا جو واقعی ایک چیلنج ثابت ہوا ، وہ بھی خلیل (مرحوم) کی طرح دن رات محنت کر کے اخبار نکال رہے ہیں خاص طور پر کرونا وبا اور موجودہ جدید ٹیکنالوجی کے موقع پر اخبارات شائع کرنا خاصا مشکل ہوچکا ہے مگر نیوز پاکستان اور اردو ٹائمز دونوں باقاعدگی سے شائع ہورہے ہیں جن کی بدولت آج نارتھ امریکہ میں اُردو زبان زندہ ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ اُردو زبان میں ہم کلام ہوتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال خلیل الرحمن بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے جن کا نماز جنازہ جمعہ کے روز پڑھایا گیا جس کے بعد واشنگٹن میموریل کے قبرستان میں دفنایا گیا جس میں ان کے رشتے داروں، دوستوں اور ہمدردوں نے بھرپور شرکت کی۔ شرکا ءنے ان کے حق میں خصوصی دعائیں کی جس کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ جو انسان دوسروں کے کام کرتا ہوا اس دنیا سے چلا جاتا ہے مگر اس کے کام کاج بطور یادداشت باقی رہتے ہیں لہٰذا جب تک امریکہ میں اُردو زبان کا چرچا رہے گا تب تک خلیل الرحمن مرحوم کا نام یاد رہے گا ۔ اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے، آمین۔