آخر کار تمام تر مخالفتوں، قانونی رکاوٹوں اور منفی پروپیگنڈہ کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 47ویں صدر منتخب ہو ہی گئے۔ اس سلسلے میں ان کو نہ صرف کامیابی بلکہ سینیٹ میں بھی برتری حاصل ہو گئی ہے۔ سیاسی پنڈت اور تجزیہ نگار انگشت بدنداں ہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ آدھے آدھے فیصد پول کے رزلٹس کے باوجود اور واضح تقسیم کے آثار کے ہوتے ہوئے نہ صرف 277الیکٹرول ووٹس حاصل کر لئے بلکہ اب توقع یہ کی جارہی ہے کہ مکمل پولنگ کے رزلٹس آنے کے بعد ٹرمپ کو تین سو سے اوپر تک ووٹس ملنے کی توقع ہے۔ ہمیں تو یوں معلوم ہورہا ہے کہ شاید ری پبلک پارٹی کو یقینا اتنی واضح اکثریت کیساتھ کامیابی پر حیرت ضرور ہوئی ہو گی۔ مجموعی طور پر ڈیموکریٹ پارٹی کی غلط پالیسیوں اور کارکردگی کے علاوہ ذاتی سطح پر صدر بائیڈن کی ناقص حکمت عملی اور دوغلی فارن پالیسی بھی اس بار کی واضح وجوہات میں شامل ہیں۔ اپنے بیٹے کے یوکرائن کی حکومت کے ساتھ کئی ایشوز پر کرپشن کے الزامات کے باوجود پچھلی دفعہ امریکی عوام نے جوبائیڈن اور ڈیموکریٹ پارٹی کو موقع دیا مگر سابقہ حکومت ڈلیور کرنے میں ناکام رہی۔ اس وقت مہنگائی کی صورت حال نے اچھے اچھے مڈل کلاس کے شہریوں کو مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے اور ان کے لئے یہ مشکل ہو گیا ہے کہ وہ اپنی گروسریز پر خرچہ کریں یا گیس خریدیں۔ خود ہیوسٹن میں صورت حال یہ ہے کہ ہر گلی اور سڑک پر بند ہوئے ہوئے بزنس کی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ ڈیموکریٹس کی شکست کی غلط اور عوامی امنگوں کے برعکس خارجہ پالیسی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان جو جنگ جاری ہے وہ دراصل روس اور امریکہ کی بالواسطہ جنگ ہے جس میں امریکی عوام کے ٹیکس کا پیسہ جھونکا جارہا ہے۔ صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ امریکہ نے اپنی یورپین حمایتی حکومتوں کو بھی اس جنگ کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ اور تو اور پاکستان بھی اس جنگ میں امریکہ کی ایماء پر بالواسطہ طور پر ملوث ہے اور وہاں کی ملٹری اسلحہ بارود کی فیکٹری سے بموں اور لوگوں کی یوکرائن کو شپمنٹ کی خبریں میڈیا میں آچکی ہیں جس کی نہ یوکرائن، نہ امریکہ اور نہ ہی پاکستان کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔ سنا یہ جارہا ہے کہ یوکرائن کو بارود کے گولے بھیجے جانے کے بدلے میں امریکہ نے پاکستانی حکومت کو آنسو گیس کے گولے فراہم کئے ہیں جو گزشتہ تین سالوں سے پاکستان کی جعلی فارم 47کی اور پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ بڑی بے دردی اور فراخدلی کے ساتھ PTIکے جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں کے مظاہرین پر استعمال کررہی ہے۔ یہ الگ ہے کہ آنسو گیس کے وہ گولے زیادہ تر ایکسپائرڈ نکلے ہیں۔ دوسری طرف دنیا بھر میں شدید مخالفتوں کے باوجود بائیڈن حکومت نے اسرائیل کو اسلحہ بارود اور انسانی نفری کی فراہمی بلا روک ٹوک جاری رکھی اور معصوم نہتے فلسطینیوں کے ایک سو تنتالیس انسانی جانوں کے قتل میں مساویانہ حصہ دار ہی۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے اور امریکی الیکشنز صرف امریکہ کے اندرونی انتخابات نہیں رہتے بلکہ اس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر دیگر اقوام پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امریکی الیکشنز میں یوکرائن اور غزہ کی جنگ کا کوئی تعلق نہیں ہے تو ٹرمپ کی کامیابی نے اس بات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ امریکی الیکشنز میں ری پبلکن پارٹی، ڈیموکریٹک پارٹی اور ان کے صدارتی امیدواروں کی ناکامی یا کامیابی کے براہ راست اثرات دنیا کے دیگر ممالک کی پالیسیوں، سٹرٹیجز پر واضح ہوتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ گزشتہ اکتوبر میں شروع ہونے والے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جنگی جنون میں جوں جوں مرنیوالوں کی تعداد بڑھتی گئی یوں یوں پوری دنیا میں اس یکطرفہ جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی شدت آتی گئی ۔اسرائیلی جنگ سازی میں سب کو معلوم ہے کہ سب سے بڑاہاتھ بائیڈن انتظامیہ کا ہے اگر صدر بائیڈن چاہتے تو ایک ہفتے بعد ہی اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کیا جا سکتا تھا مگر ان کو اپنے یہودی ووٹرز کی سب سے زیادہ فکر تھی۔ امریکہ کی دونوں سیاسی پارٹی اسرائیلی لابیز اور یہودی ووٹرز کے زیراثر رہتی ہیں مگر اس کے باوجود بھی اسرائیل پر اثر انداز ہونا بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ اب کہاں گئی وہ اسرائیلی لابی اور یہودی ووٹرز جو صدر بائیڈن یا کملا دیوی کو شکست سے نہ بچا سکے؟ پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی ڈکٹیٹر اور جابرانہ ریاستوں کو چھوڑ کر دنیا بھر میں غزہ کی جنگ کے خلاف لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے کئے جو اصل میں بالواسطہ طور پر بائیڈن انتظامیہ کے خلاف تھے۔ خود امریکہ کی ساری ریاستوں کی یونیورسٹیز کے ینگ طلباء نے مظاہرے کئے جس میں وہ صرف اسرائیل کے خلاف ہی نہیں بلکہ نیتن یاہو اور جوبائیڈن کے خلاف بھی بینرز اور پلے کارڈز لہرارہے تھے۔ مشی گن سے لیکر ٹیکساس تک امریکن یوتھ نے ری پبلکن پارٹی کے حق میں نہیں بلکہ لاکھوں ، کروڑوں نوجوانوں نے احتجاجی ووٹ کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیکراور کامیاب کرا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ ہم سمیت بے شمار ڈیموکریٹس ایسے ہیں جنہوں نے اپنا احتجاجی ووٹ ٹرمپ کو دیکر ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کے صدر بائیڈن کو ایک طرح سے ہرا کر سزا دی ہے۔ شماریات کے مطابق اس الیکشن میں نوجوان امریکی طلباء کی اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے، اگر جوبائیڈن ان لاکھوں جوانوں کے مظاہرے کے جواب میں کوئی ایکشن لیتے تو ہو سکتا تھا کہ اتنے نزدیکی الیکشنز میں نوجوانوں کے ان سوئنگ ووٹس کی وجہ سے ڈیموکریٹ شاید کامیاب ہو جاتے۔ اعداد و شمار بتائے جارہے ہیں بقول سی این این کے کہ مشی گن میں ٹرمپ کی کامیابی بھی ان ڈیموکریٹک مسلم ووٹس کی وجہ سے ہوئی ہے جنہوں نے اپنے ووٹس بطور احتجاج، پروٹیسٹ ووٹ کاسٹ کئے ہیں۔ رہ گئی ٹرمپ کے حوالے سے عمران خان فرینڈلی والی بات، تو ہم یہ ہی کہیں گے کہ اب تیل دیکھو، تیل کی دھوار دیکھو اور ’’انتظار فرمائیے‘‘ کا پلے کارڈز لیکر کھڑے رہیں!
0