ہماری عدلیہ کی تاریخ اچھی نہیں رہی، چند حج آئین و قانون کی پاسداری کرتے رہے، اور اتفاق سے وہ سب ہی غیر مسلم تھے، ایک جسٹس عبد القدیر تھے جن کا بہت احترام کیا جاتا تھا، جسٹس عبدالقدیر نے کچھ ادبی اجلاسوں کی صدارت بھی کی اور ادبی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی اور بڑا نام کمایا، قانونی اور ادبی حلقوں میں ان کا بہت احترام کیا جاتا تھا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ سارے حج ہی جسٹس عبد القدیر ، جسٹس کارنیلئیں ، جسٹس دور اب پٹیل اور جسٹس بھگوان جیسی شہرت رکھتے اور عدلیہ کو اچھے نام سے پکارا جاتا، مگر ایسا نہ ہو سکا، اس خرابی کی ابتدا جسٹس منیر کے متنازعہ فیصلے سے ہوئی جس میں انہوں نے ایوب خان کے مارشل لاء کو جائز قرار دیا اور پہلی بار قوم کے سامنے نظریہ ضرورت جیسی قانونی حکمت عملی سامنے آئی، جسٹس منیر کا یہ فیصلہ بہت متنازعہ قرار دیا گیا، اس وقت سے اب تک اس فیصلے کی بازگشت سنائی دیتی ہے جسٹس منیر کو بعد ازاں ایوب خان نے اپنا وزیر قانون بھی بنایا، یہی جسٹس منیر تھے جو ایوب خاں کے حکم پر مشرقی پاکستان کے سیاسی زعماء سے ملے اور ان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان سے الگ ہو جائیں یہ بات بھی جسٹس منیر کے ماتھے کا کلنک بن گیا، ایوب خان کا زمانہ اس اعتبار سے بھی قابل توجہ رہا کہ ایوب خان نے مختلف سیاسی مقدمات میں معروف وکیل شریف الدین پیرزادہ کی خدمات حاصل کر لیں ، شریف الدین پیرزادہ قائد کے ساتھی رہے تھے لہٰذا میڈیا قوم کو یہ یقین دلاتا رہا کہ شریف الدین پیرزادہ قائد اعظم کے وژن کو عدالتوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ہر چند کہ پیرزادہ کے دلائل اور اس وقت کی عدالتوں کے فیصلوں پر اہل رائے کو اختلاف رہا مگر پھر شریف الدین پیرزادہ کی قائد سے قربت بھی قوم کو اس طرف لے آئی کہ قائد کا ساتھی بد دیانت نہیں ہو سکتا، مگر بعد میں شیریف الدین پیزادہ شدید تنقید کی زد میں رہے اسی دوران ایوب خان کے ایک اور وزیر قانون ایس ایم ظفر نے بھی قانون کو کچرا بنانے میں بڑا نام کمایا، ایس ایم ظفر مشرف کے بھی قریب رہے گویا ایک ٹولہ تھا جو ایک طرف ایک آمر کے ساتھ تھا تو دوسری طرف وہ قانون و آئین کی گہری قبر کھود رہا تھا، اور عدلیہ بلا چوں و چرا وہ فیصلے صادر کر رہی تھی جو آئین و قانون کے صریحاً خلاف تھے ، بعد ازاں جنرل ضیا الحق کے دور میں حکومت کے تمام کالے کرتوتوں پر اسلام کی سبز چادر اوڑھا دی گئی، اور عدالتوں نے اس ماحول میں فیصلے سنانے کی بجائے آمر کے حکم پر قوالیاں گائیں ، جسٹس نسیم نے انتہائی ڈھٹائی سے ٹی وی پر کہا کہ وہ اگر آمر کا ساتھ نہ دیتے تو عدلیہ پر ٹینک چڑھ دوڑتے ، اسی دوران ہائی کورٹ کے ججوں میں ایک رجحان پیدا ہوا کہ اگر انہوں نے حکومت کے حق میں فیصلے لکھے تو ان کی ترقی ہو سکتی ان کو OUT OF TURN چیف جسٹس بھی بنایا جا سکتا ، ماتحت عدلیہ کا حال بہت بُرا رہا، میرے ایک دوست کا ایک کیس ایک حج کے پاس لگا ہوا تھا میں اکثر ان کے ساتھ عدالت جاتا تھا، جج کے سامنے والی نشستوں پر ہی جگہ مل جاتی، ایک نجی فنکشن میں وہی جج بھی تشریف فرما تھے اس فنکشن میں ایک وکیل نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ کیس کا فیصلہ آپ کے دوست کے حق میں ہو سکتا ہے مگر اس کام کے لئے ایک تھیلی میں بہت سے قائد اعظم دینے ہونگے ہمارے دوست نے ہاں بھر لی اور کیس کا فیصلہ ان کے حق میں ہو گیا، مجھے یاد ہے کہ 1964 میں ہماری عدلیہ کا ریٹینگ کے حساب سے 41th نمبر تھا اس وقت بھی دکھ ہوا اور اب جبکہ عدلیہ 129 نمبر کی ہے تب بھی شدید دکھ ہے مگر میرے ججوں کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ عدلیہ کی حالت بہتر کر لی جائے اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ عدلیہ کو فوج کے جوتے کے نیچے رہنے کی عادت پڑ گئی دوسرے یہ کہ حکومتیں ان سے غلط کام لیتی رہیں اور عدالتوں میں رشوت کا بازار گرم رہا، کہا جانے لگا کہ وکیل نہ کرو حج کر لو اگر کیس جیتنا ہے عدلیہ فوج کے جوتے کے نیچے رہی تو سیاست دانوں کو بھی شوق چرایا کہ عدلیہ ان کے جوتے کے نیچے رہے، اور حج برائے فروخت ہو گئے افتخار چودھری نے زرداری حکومت کے ہاتھ پاؤں باندھ کے رکھے، پھر یہ وتیرہ بن گیا،جج سیاسی ہو گئے، پانامہ بینچ بنا تو سب اس کے بہکاوے میں آگئے مگر پوری عدلیہ سیاسی ہو چکی تھی، اور بندیال تک یہی حال رہا، ایسا لگ رہا تھا کہ عدلیہ نہیں چاہتی کہ ملک چلے،ان حالات میں چھبیسویں ترمیم ضروری تھی، حکومت کمزور ہے مگر نواز لیگ اور پی پی پی کو جو اتحاد بنا اس نے فیصلہ کر لیا کہ بہت ہو چکا اب عدلیہ کے پر کترنے ہیں، مولانا کو ساتھ ملا کر ترمیم پاس کرائی گئی، اور آج PRACTICE AND PROCEDURE ACT میں ترمیم بھی پاس کرائی گئی ، آرمی ایکٹ میں ترمیم بھی کر لی گئی، ہر چند کہ یہ ساری ترامیم جس صورت سے منظور کرائی گئی ہیں وہ پارلیمانی تہذیب سے لگا نہیں کھاتیں مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ اپوزیشن نے اپنا پارلیمانی کردار ادا نہیں کیا، اس سے قبل نواز کے دور میں بھی قانون سازی اسی طرح ہوئی اور عمران کے دور میں یہ مکروہ روائیت نہیں ٹوٹی ، کہا جاتا رہا کہ ترامیم منظور کرانے کی اتنی جلدی کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہر جماعت کہہ رہی ہے کہ سارے ادارے تباہ ہو چکے تو اصلاحات کی بہت ضرورت تھی، اور بلاول کہہ رہے تھے کہ اب نہیں تو کب، ہمیں معلوم ہے کہ حکومت کو معلوم تھا کہ دو تہائی اکثریت کی جو سہولت اس وقت موجود ہے وہ ان کو نہ جانے کب میسر آئے ، اور یہ بھی حکومت کو اپنے استحکام کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا ورنہ ملک میں انار کی کو کوئی روک نہیں سکتا تھا یہ سچ ہے کہ عمران کی مقبولیت موجود ہے مگر اس مقبولیت کا راز وہ نئے ووٹرز ہیں جو عمران کو سپورٹ کرتے ہیں مگر عمران کا سیاسی لائحہ عمل کیا ہوگا ،احتجاج ہر مسئلے کا حل نہیں اور یہ بات تو تسلیم ہی نہیں جا سکتی کہ احتجاج صرف اس لئے کیا جائے کہ معیشت کا پہیہ چل نہ سکے ہر گز قابل قبول نہیں، ججوں کی تعداد اب سپریم کورٹ میں 34 ہو جائیگی، بیرسٹر گوہر کہہ رہے ہیں کہ ججوں کی تعداد اس لئے بڑھائی گئی ہے کہ اپنی مرضی کے جج لائے جائیں بیرسٹر گوہر غلط نہیں کہہ رہے یہ سچ ہے ایسا ہی ہے مگر سپریم کورٹ کے ججوں نے جب آئین REWRITE کرنا شروع کردیا، سیاسی فیصلے دئے جانے لگے چیف جسٹس نے ملزم کو GOOD TO SEE YOU کہا اس وقت بیرسٹر گوہر کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ سب کام سپریم کورٹ کے منصب کے منافی ہے، مگر اس وقت پی ٹی آئی بغلیں بجا رہی تھی، مجھے افسوس ہے کہ آج جسٹس منصور کو بیچارگی کے عالم میں یہ کہنا پڑا کہ کچھ تو ہمارے پاس چھوڑ دو، افسوس اس وقت بھی ہوا تھا جب نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کی بجائے پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دی گئی تھیں جس کا کوئی جواز نہ تھا، مجھے حکومت کے اس موقف سے بھی اتفاق نہیں کہ مقدمات کے LOG BACK کی وجہ سے یہ ترامیم کرنی پڑیں سچ تو یہ ہے کہ یہ سب سیاسی کھیل ہے عمران کے اقتدار میں آنا ہی بہت متنازعہ تھا اگر عمران ان چار سالوں میں کچھ کر جاتے تو آج یہ رونا نہ ہوتا مگر ساری قوت اس بات پر صرف کی جاتی رہی کہ فوج کی ناک رگڑی جائے دھماکے کرائے جائیں، معیشت کا خانہ خراب کیا جائے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کو دنیا سے کاٹ دیا جائے، پی ٹی آئی کی سیاست اس بات سے آگے نہیں نکل رہی کہ اسلام آباد پر چڑھائی کی جائے اگر پی ٹی آئی احتجاج بند کر دے تو اس کی سیاست ختم ہو جائے گی، بہر حال ترامیم ضروری تھیں مگر ان کو منظور کرانے کا طریقہ مناسب نہ تھا حالات اس ڈگر پر پہنچ گئے تھے کہ OUT OF THE BOX SOLUTION نکالنا پڑا۔
0