پاکستان کی قومی فضائی کمپنی، پی آئی اے، کی نجکاری مہم کی بلی اب تھیلے سے باہر کود کےآگئی ہے!پی آئی اے کا جنم آج سے ٹھیک ستر برس پہلے، 1954ء میں ہوا تھا اور اسے جنم دینے والی کمپنی تھی، اوریئنٹ ایرویز، جو قائد اعظم کے مخلص دستِ راست، محمد علی اصفہانی کی ملکیت تھی اور پاکستان کے ان ابتدائی برسوں میں جنہیں بچے کی مناسبت سے کسی ادارے یا قوم کا دانت نکلنے کا دور کہا جاتا ہے یہی اورینٹ ایرویز تھی جس نے پاکستان کے دونوں بازوؤں کو اپنی سروس کے ذریعہ جوڑے رکھا تھا!
پی آئی اے کے بنانے والے مخلص تھے، دیانت دار تھے، پاکستان سے محبت رکھتے تھے اور ملک کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے تھے۔ اصفہانی صاحب اس اعتبار سے بے نظیر تھے۔ بابائے قوم سے سچی، گہری اور خلوص کی گہرائیوں سے ارادت رکھتے تھے لہٰذا ان کا بویا ہوا بیج بار آور ثابت ہوا۔ پی آئی اے کا شمار بہت جلد، اس کے بچپن سے ہی، دنیا کی نامور اور ممتاز فضائی کمپنیوں میں ہونے لگا۔ قرآن کہتا ہے کہ ہر چیز کی کامیابی نیت پر مبنی ہوتی ہے، بشمول ایمان کے کہ جب تک نیت صحیح و سالم نہ ہو ایمان پختہ نہیں ہوتا۔ ادارے بھی اس کلیہ سے مستثنٰی نہیں ہوتے۔ پی آئی اے بنانے والوں کی نیت سالم اور بے لوث تھی لہٰذا ان کی بوئی ہوئی فصل بار آور ہوئی اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے کا سبب بنی۔ فیض احمد فیض نے، کہ وہ الزامات کے باوجود پاکستان کے ساتھ مخلص تھے، قومی فضائی کمپنی کو ایک نعرہ، یا سلوگن دیا باکمال لوگ، لاجواب پرواز اور پی آئی اے نے اپنی سروس کے اعلیٰ معیار سے دنیا کو دکھا دیا کہ اسے چلانے والے اور اڑانے والے واقعی با کمال تھے، لاجواب تھے اور ان کے زیرِ انتظام جہازوں پر سفر کرنے کا تجربہ اور لطف لاجواب تھا۔
اپنے تعریف کریں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تعلقِ خاطر کا تقاضہ بھی یہی ہوتا ہے کہ اپنوں کی تعریف اور توصیف کی جائے لیکن جب غیر تعریف کریں اور سندِ کارکردگی دیں تو خوشی دوبالا ہوجاتی ہے۔ پی آئی اے کو حسنِ کارکردگی کا سب سے بڑا اعزاز تو آنجہانی جیکی کینیڈی نے دیا تھا جب وہ پی آئی اے کی پرواز کے ذریعہ پاکستان کے دورے پر اس وقت تشریف لائی تھیں جب وہ امریکہ کی خاتونِ اول یا فرسٹ لیڈی تھیں۔یہ کسوٹی بھی پی آئی اے کی سروس نے اسے عطا کی تھی کہ اس کی پروازوں پر پاکستانی مسافروں کم ہوتے تھے غیر ملکی زیادہ۔ سروس کا معیار ہی ایسا تھا کہ غیر ملکی مسافر خود بہ خود پی آئی اے پر سفر کرنے کو اور ایر لائنز پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ سو جیکی کینیڈی امریکہ کی خاتونِ اول ہوتے ہوئے بھی پی آئی اے کی کمرشل پرواز کے ذریعہ پاکستان کے دورے پر آئی تھیں اور جب کراچی کے ہوائی اڈے پر ان سے پوچھا گیا کہ ان کی پرواز کیسی تھی تو انہوں نے جواب دیا تھا: اے گریٹ پیپلز تو فلائی وتھ ۔ جیکی کینیڈی کا خراجِ تحسین اس کے بعد سے پی آئی اے کا دنیا بھر میں سلوگن یا نعرہ بن گیا تھا اور پاکستانی اپنی قومی فضائی کمپنی کے اعلا معیار اور حسنِ کارکردگی پر پھولے نہیں سماتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم امریکی حکومت کے وظیفہ پر پڑھنے کیلئے بیروت کی امریکن یونیورسٹی گئے تھے تو کراچی سے اس وقت کی سب سے نامی امریکی فضائی کمپنی، پان امریکن کے جہاز سے گئے تھے لیکن جب ہماری واپسی کا وقت آیا تو ہم سے پوچھا گیا کہ گھر کس ایر لائن کی پرواز سے جاؤگے؟ اور ہم نے ایک لمحہ کے توقف کے بغیر فخر سے سینہ پھلا کے کہا تھا، اپنی پی آئی اے سے جائینگے اور کس سے! لیکن پھر یہ ہوا کہ پی آئی اے کو اپنوں کی نظر لگ گئی۔ نظر نہیں لگی بلکہ اپنوں کی ہوسِ مال و زر نے اس قومی اثاثے کو کھالیا۔ وہ جو کہاوت ہے ناں کہ گھر کو گھر کے اپنے چراغ سے آگ لگ گئی تو پی آئی اے کے ساتھ یہی ہوا کہ وہ دو منحوس خاندان جو پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ گئے انہیں کی ہوسِ زر نے پی آئی اے کو بھی اپنا شکار بنالیا۔
وہ دو خاندان جو پاکستان کی سیاست اور نظام ریاست سے جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور جان نہیں چھوڑ رہے پی آئی اے کی تباہی میں سب سے بڑا اور ناپاک ہاتھ ان خاندانوں کا ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے چوروں اور ڈکیت نے اس قومی اثاثے کو جو دنیا بھر میں پاکستان کی ترقی اور تعمیر کی علامت تھا لوٹ کھایا۔ اور ان چوروں اور ڈکیت کا ایک اور فریق تھا رسوائے زمانہ ایم کیو ایم اور اس کے چھٹ بھیے جو پی آئی اے میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے لوگ کھپانے کے شیطانی کام میں اس فضائی کمپنی کو گھن کی طرح چاٹ گئے جس نے دنیا بھر میں اپنی کامیابی اور اعلیٰ معیارِ سروس کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ ساتھ کتنی ہی اور ایر لائنز کو بنایا تھا، ان کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا تھا۔ ایک مثال تو دوبئی کی ایمیریٹس کی ہے جو آج دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اسے بنانے والی اپنی پی آئی اے ہی تھی اسی لئے آج تک اس کی تمام پروازیں شروع ہوتی ہیں ای کے سے جس کا مطلب ہے ایمیریٹس کراچی کیونکہ اس کی پہلی پرواز دبئی سے کراچی کیلئے تھی۔
پی آئی اے کے ڈوبنے کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے پاس اب جہاز تو یہی کوئی تیس بتیس بچے ہیں جن میں سے بہت سے تو پرزے نہ ہونے کی وجہ سے بیکار کھڑے ہوئے ہیں لیکن پی آئی اے دنیا کی وہ واحد فضائی کمپنی ہے جس کے ہر جہاز کی پرواز کے پیچھے سات سو سے زیادہ ملازمین کا بوجھ ہے جبکہ، مثال کے طور پر ٹرکش ایر لائنز ، جو برادر ملک ترکیہ کی قومی ایر لائن ہے اس کے جہازوں اور ملازمین کا تناسب ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں ہے۔ ترکیہ یا ترکی کی مثال پہ یاد آیا کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے آغاز تک ترکی کو یورپ کا مردِ بیمار کہا جاتا تھا لیکن پھر ترکوں کے نصیب جاگے اور انہیں کمال اتاترک جیسا بابائے قوم مل گیا جس نے اپنی ولولہ انگیز قیادت سے ترکوں کی تقدیر بدل دی۔ کمال اتا ترک کے ورثہ کو ترکی کے جرنیلوں نے اپنی ہوسِ اقتدار سے پامال کرنے کی بہت کوششیں کیں، وہاں بھی وقفے وقفے سے تین مارشل لاء لگائے گئے اور ترک جرنیلوں کی ہوسِ اقتدار نے ترکی کی جمہوریت کو ایسے ہی پانمال کرنا چاہا جیسے پاکستان کے جرنیلوں کے ہاتھوں پاکستان نہ صرف دو لخت ہوا بلکہ تباہ و برباد بھی ہوگیا۔
ترکی مقدر کا سکندر ثابت ہوا کہ اسے طیب رجب اردگان جیسا اتا ترک ثانی مل گیا جس نے جرنیلوں کو ان کی بیرکوں تک محدود کرکے انہیں ان کی اوقات دکھادی اور جتلا بھی دی۔ پاکستان اس اعتبار سے بدنصیب رہا کہ اسے سیاسی رہنما ملے تو وہ چور اور ڈکیت، نواز اور زرداری جیسے جو پاکستان کے یزیدی جرنیلوں کے ساتھ سازش کرکے ملک کو لوٹتے اور کھاتے رہے اور یہاں تک لے آئے کہ ملک کنگال ہوگیا اور اب قرضوں پہ اس کا گزارہ ہے۔ پاکستان کو بھی بابائے قوم ، قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسا ایک اردگان عمران خان کی شکل میں مل گیا تھا لیکن اس کی ایمانداری اور دیانت اس کے حق میں زہر بن گئی۔ پاکستان کے یزیدی جرنیل، جو خود گلے گلے تک کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث ہیں، عمران کی دیانت داری سے خوفزدہ ہوگئے کہ وہ نہ خود کھاتا تھا نہ انہیں کھانے دے رہا تھا جبکہ وہ تو عادی تھے نواز اور شہباز جیسے چوروں اور زرداری جیسے ڈکیت کے ۔
وہ جو فارسی زبان کا مقولہ ہے کہ کند ہم جنس باہم پرواز، کبوتر با کبوتر باز بہ بازتو وہ پاکستان کے کرپٹ جرنیلوں اور ان کے سیاسی گماشتوں کیلئے شاید کہا گیا تھا۔ عمران خان تو ڈھائی برس سے یزید عاصم منیر، اور اس کے پیش رو قمر باجوہ کی دشمنی کی سزا کاٹ رہا ہے جبکہ ان ملت فروش جرنیلوں کی اصل دشمنی پاکستان سے ہے۔ یہ وہ بدبخت، احسان فراموش ہیں جو اسی شاخ کو کاٹتے ہیں جس پر ان کا آشیانہ ہوتا ہے، اسی درخت کو نشانہ بناتے ہیں جو انہیں چھاؤں مہیا کرتا ہے۔ سو ان کی ہوسِ اقتدار اور ہوسِ زر نے جہاں ملک میں جمہوریت کو برباد کردیا وہیں قومی اثاثوں کو بھی گروی رکھ دیا ہے۔ پی آئی اے جو اپنے شباب میں پاکستان کا فخر ہوا کرتی تھی برسوں سے خسارے کا شکار ہے۔ آج، اس وقت، اس پر 203 ارب روپے کا قرضہ ہے جبکہ بازی گروں نے ایک چال چل کے ایک علیحدہ ہولڈنگ کمپنی بنائی اور 600 ارب سے زائد پی آئی اے کے قرضہ اس کے کھاتے میں ڈال دئیے۔ اصل قرضہ تو 830 ارب روپے کا تھا۔ مدت سے یہ کٹھ پتلی حکومت جو ہر چیز کیلئے جرنیلوں کی مرہونِ منت ہے اور ناجائز طور پہ، فریب اور چالبازی سے قوم پر مسلط کی گئی ہے پی آئی اے کی نجکاری کا چرچا کررہی تھی۔ نجکاری یوں بھی ضروری ہوگئی تھی کہ آئی ایم ایف، جس کے دئیے ہوئے قرض پہ ملک چل رہا ہے ، یا اب تک ڈوبا نہیں ہے، نے یہ شرط لگادی ہے کہ نقصان زدہ کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو بند کیا جائے یا ان کی نجکاری کی جائے۔
سو چور، کٹھ پتلی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اپنی ملکیت، پی آئی کے سو فیصد حصص میں سے ساٹھ فیصد حصص بیچ دئیے جائیں اور اس مقصد کیلئے دس نجی کمپنیوں کو نیلامی بولی لگانے کی دعوت دی گئی۔ یاد رہے کہ کسی غیر ملکی کمپنی نے پی آئی اے کو، حکومتی دعووں کے برعکس، خریدنے میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صرف دس کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا اور ان میں سے بھی صرف ایک کمپنی نے بولی لگائی۔ لیکن بلیو ورلڈ سٹی کمپنی نے حکومت کی کم سے کم بولی، یعنی 85 ارب روپے کا مذاق اڑاتے ہوئے بولی لگائی تو محض دس ارب روپے کی! ظاہر ہے کہ کٹھ پتلی حکومت اور اس کے سہولت کار جرنیلوں کے منہ پر یہ بڑا طمانچہ تھا۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا اس نے اصل جعلسازی کا بھید کھولا ہے۔ ہم ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ پی آئی اے پر نظریں ہیں نام کے شریف خاندان کی یا پھر زرداری ڈکیت کی اور ان کے شریکِ کار وہ جرنیل ہیں جو اپنی کمیں گاہ سے ان کٹح پتلی نوسربازوں کی ڈوریاں ہلاتے رہتے ہیں۔ وہ بھی ان کی لوٹ مار میں برابر کے شریک رہے ہیں اور ہیں! سو بلی تھیلے سے باہر یوں آئی کہ جب چور حکومت نے دس ارب کی بولی کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو مہا چور، نواز شریف اور اس کی بلیک میلر، ڈرامہ کوئین بیٹی، مریم نواز جو ملک کے سب سے بڑے صوبے پر راج کررہی ہے، ایکشن میں آگئے یا یوں کہئے کہ انہوں نے اپنےچہرے بے نقاب کرلئے!
نواز شریف، نیلامی سے پہلے، ڈرامے کی اسکرپٹ کے مطابق، ملک سے فرار ہوگیا تھا۔ رسوائے عدالت، فائز عیسٰی اور نواز آگے پیچھے ہی فرار ہوئے۔ فائز عیسی تو لندن میں رک گیا کہ وہاں اس کے فرنگی آقاؤں نے اس کی بے مثال کارکردگی کا صلہ اسے یوں دیا ہے کہ مڈل ٹیمپل ان میں اسے آسامی دے دی گئی ہے۔ لیکن نواز لندن میں رکنے کے بعد اپنے امریکی آقاؤں کی چرن دھولی لینے کیلئے امریکہ پہنچ گیا۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے دونوں چوروں کا خاطر خواہ استقبال جو کیا سو کیا لیکن نواز نے امریکہ سے پی آئی اے کو خریدنے کا عندیہ دیا ہے اور دخترِ بد اطوار نے باضابطہ اعلان کردیا ہے کہ وہ پنجاب کی طرف سے قومی ائیر لائنز کو خریدنا چاہتی ہیں۔ نواز نے تو پی آئی اے کا نام بدل کر پنجاب ائیر لائنز بھی رکھ دیا ہے۔ ہائے پاکستان اور پی آئی اے کی بدنصیبی کہ اب پنجاب ائیر لائنز پاکستان کا چہرہ ہوگی اور چورروں کا کنبہ اس کا مالک ہوگا! پی آئی اے بنانے والے عالمِ بالا میں بابائے قوم کے گلے لگ کر زار زار رورہے ہونگے اور کہہ رہے ہونگے:
؎آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل!
0