دشمن
اتحادِ مسلم کے لوگ جو مخالف ہیں
ہم پہ ان کے سارے ہی کارنامے روشن ہیں
دوش دیں کسی کو کیا اس سے فائدہ کیا ہے
سچی بات تو یہ ہے خود ہم اپنے دشمن ہیں!
قارئین کرام گزشتہ ہفتے سابق خاتونِ اول محترمہ بشریٰ بی بی کی ضمانت اور ساتھ ہی عمران خان کی دونوں بہنوں کی ضمانت سے عام قیاس یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور صاحبانِ اقتدار کے درمیان برف پگھل رہی ہے اور ذرائع ابلاغ کا قیاس یہ ہے کہ اب رفتہ رفتہ حالات میں تبدیلی آئے گی اور عمران خان کی رہائی کے امکانات مزید روشن ہونگے۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور خدا کرے کہ ایسا ہی ہو تو یہ ملک اور قوم کے لئے بہت بہتر ہو گا۔ ہم گزشتہ کالم میں لکھ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت خود نہیں چل رہی ہے بلکہ مقتدرہ کی طرف سے چلائی جارہی ہے۔ اس لئے ہر اہم اور خاص میٹنگ میں حکومت کے دیگر اراکین کے ساتھ ساتھ ایک مقتدرہ کا نمائندہ بھی ہوتا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب پاکستان آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کی کوشش کررہا تھا تو آئی ایم ایف نے پاکستان سے قرض واپسی کے لئے کچھ ضمانتیں مانگی تھیں اور ان ضمانتوں کے حصول کے لئے ہماری فوج کے سربراہ نے مشرق وسطیٰ کا سفر کیا تھا اور انہیں کی سفارش یا یقین دہانی پر پاکستان کے دوست ممالک چین، عرب، امارات اور قطر نے یہ ضمانت دی تھی۔ فوج کے سربراہ کا یہ دورہ اس بات کا غماض ہے کہ ہماری فوج نہ صرف ہماری حکومت کے پیچھے مضبوطی سے کھڑی ہے بلکہ حکومت کو رواں رکھنے میں بھی کوشاں ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت فارم 47 کی پیداوار ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت بھی فوج کی مدد سے وجود میں آئی تھی اس وقت فارم 47کا ذکر نہیں تھا بلکہ انتخاب کے نتائج سے متعلق تمام مشینوں کا مسئلہ پیدا ہوتا تھا اور کچھ لوگوں کے خیال میں یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے پیدا کیا گیا تھا۔ اصولی طور پر پاکستان میں انتخاب کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن اس ذیل میں یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ الیکشن کمیشن بھی کسی کے اشارے پر فیصلہ کرتا ہے۔ صاحبان نظر تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ جب محترم چیف جسٹس پاکستان نے پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان سلب کرنے پر صاد کیا اور پی ٹی آئی کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کیا اس میں بھی ہماری مقتدرہ پوری طرح شریک تھی اور یہ وہی مقتدرہ تھی جس کے سربراہ عمران خان کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ہر فیصلے کی تائید کرتے تھے اور جواباً عمران خان دن رات نعرہ لگاتے تھے کہ ’’ہم اور فوج ایک پیج پر ہیں‘‘ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا تھا کہ پاکستان میں اصل حکومت فوج کی ہے۔ بات برف پگھلنے کی ہورہی تھی۔ صاحبان نظر اس حقیقت کے ڈانڈے اس احتجاج سے باندھ رہے ہیں جس کے دوران پی ٹی آئی کے اہم رہنما علی امین گنڈاپور اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر بقول ان کے تازہ دم ہونے کے لئے کے پی ہائوس میں چلے گئے تھے اور وہاں سے سلیمانی ٹوپی اوڑھ کر ایسے غائب ہوئے تھے کہ دوسرے دن وہ کے پی اسمبلی میں نمودار ہوئے ذرائع ابلاغ وثوق سے کہتے ہیں اس رات گنڈاپور صاحب کے پی کی طرف سفر میں نہیں تھے بلکہ مقتدرہ سے ان کے مذاکرات ہورہے تھے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہوا ہو اور اس کے نتیجے میں یہ برف پگھلنا شروع ہو چکی ہو۔ گزشتہ ہفتے کے پی اسمبلی میں گنڈاپور کے اس بیان سے بھی یہ قیاس پختہ ہوجاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’فوج میں کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ مسئلہ مل بیٹھ کر سلجھایا جائے‘‘۔ ہمارا قیاس بھی یہی کہتا ہے کہ اب معاملات سلجھنے کی طرف جارہے ہیں۔ اس مصالحت کی فضا میں حکومت نے آئین میں جو ۲۶ ویں ترمیم کی ہے اور پی ٹی آئی نے اس معاملے میں شرکت سے صاف انکار کر دیا ہے اس سے معاملات اور الجھ گئے ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے حزب اختلاف کو پریشان کرنے کے لئے نیب کو کئی اشارے کئے تھے اور خفیہ اداروں نے محترم ثناء اللہ کی کار سے منشیات برآمد کی تھیں اس کا کیا نتیجہ نکلا آج تک کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا۔ اس طرح موجودہ حکومت کے دور میں کے پی ہائوس میں توڑ پھوڑ اور سابق صدر کی کراچی کلینک کو سیل کرنا بھی بچگانہ حرکت ہے اور اس طرح کی باتوں سے حزب اقتداور اور حزب اختلاف کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی جارہی ہے جو اس برف پگھلنے میں ایک منفی کردار ادا کررہی ہے۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ہم پوری طرح احتجاج کے لئے تیار ہیں اور یہ احتجاج ملک گیر ہو گا اگر خدانخاستہ ایسا ہوا تو یہ ملک کے لئے نیک فال نہیں ہو گی۔ پی ٹی آئی کے متعدد داخلی رہنما بہ بانگ دہل الزام لگارہے ہیں کہ موجودہ حکومت ہماری چار دیواری کاتقدس پامال کررہی ہے۔ ہمارے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ ان کے اس الزام کی کُلی تحقیق ہونی چاہیے اور اس تحقیق کو عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے حق میں حکومت کی ’’شفقت‘‘ معاملات کو سلجھا سکتی ہے اور یہ برف اتنی پگھلے کہ پیاسے اس سے اپنی پیاس بجھا سکیں۔ کاش ایسا ہو جائے۔ آمین