پاکستانی ٹی وی میڈیا پر جب ہیڈ لائینز میں کتابت کی غلطیاں نظر آتی ہیں تو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ ابھی کچھ دنوں کی بات ہے کہ عمران ریاض کی وڈیو پر ہیڈ لائنز چل رہی تھیں،اور اس آدھ گھنٹے کے شو میں راقم نے چار کتابت کی غلطیاں نوٹ کیں، جو بلا کسی روک کے متواتر چل ر ہی تھیں۔ جیسے ’چھوتی بار‘ (بجائے چوتھی بار)، بشک (بیشک) ، انشکاف (انکشاف) اور چاہت (بجائے خواہش)۔ یہ کتابت کی غلطیاں تو ہوتی رہتی ہیں، لیکن اس شو میں میں نے نوٹ کیا کہ کسی نے سٹوڈیو میں چیک نہیں کیا اور وہ متواتر دہرائی جاتی رہیں۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ ٹائپسٹ کی املا صحیح تھی اور نہ ان کے نگراں کو یہ غلطیاں دکھائی دیں۔ ہو سکتا ہے کہ نگران بھی سو رہے ہوں، یا ان کی اُردو بھی ویسی ہی ہو؟
یہ براڈ کاسٹARY پر ہو رہی تھی۔ اس چینل پر اکثر املا کی غلطیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کبھی ٹھیک کر دی جاتی ہیں اور کبھی متواتر چلتی رہتی ہیں۔ یہ راقم اکثر اس چینل کو دیکھتا ہے اس امید سے کہ یہ شاید مین میڈیا سے ہٹ کر حزب اختلاف کا نقطہ نظر بھی بتا دے۔ کبھی ایسا ہو تا ہے اور کبھی نہیں یا بہت کم۔ خیر جس کی چینل ہے اس کو اپنے اعداد و شمار بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ملک میں فسطائیت کا دور دورہ ہے۔ آزاد ی اظہار رائے پر قدغنیں ہیں۔ ناطقہ سر بگریبان ہے اسے کیا کہیے۔اب جب اے آر وائی کا ذکر خیر چل ہی نکلا ہے تو سب سے پہلے میں اے آر وائی کو اس کے مذاحیہ پروگرام ’’ہوشیاریاں‘‘پر مبارکباد دینا چاہوں گا۔ یہ شو واقعی مزاح سے بھر پور ہوتا ہے اورکافی حد تک معاشرے کی اقدار کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ اس کے میزبان ہارون رفیق اور ان کی انتہائی با ہنر ٹیم اپنے فن کا مظاہرہ جس طرح کرتی ہے، وہ ہر طبقے، اور فکر کے ناظرین کو محظوظ کرتی ہے۔ ہارون رفیق کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اداکاروںکی خوبیوں اور خامیوں سے بخوبی واقف ہیں اور ان کو ایسا ہی کردار دیتے ہیں جو ان کو فٹ بیٹھتا ہے۔اگر کوئی تنقید کی گنجائش ہے تو اس بات پر ہے کہ شو میں کرداروں پر ان کی ایسی شباہت پر مذاق اڑایا جاتا ہے جس کو وہ بدل نہیں سکتے۔مثلاً گوگا پسروری کا رنگ سانولہ ہے تو اس کا کیا قصور ہے؟ یا کوئی چھوٹا ہے تو وہ کچھ بھی کرے لمبا نہیں ہو سکتا۔اگر کوئی گنجا ہے تو وہ اس کا کیا کر سکتا ہے؟ اگر انسانی جسم پر ہی مذاق اڑانا مقصود ہے تو ایسے ادا کارائوں کا مذاق اڑائیں جو موٹے ہیں، کیونکہ موٹاپا ان کا خود کا بنایا ہوا ہے۔یا انکی پوشاک کا مذاق اڑایا جا سکتا ہے جو ان کے اختیار میں ہے۔ اسی طرح مرحوم کے بالوں کا مذاق بالکل درست ہے۔ انسانی کمزوریوں پر مزاح کی بنیاد بنانا ایک پرانی روایت ہے، اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔جو دو بہت اچھی اداکارہ خواتین ہیں وہ پھول کر کپا ہو رہی ہیں۔ ان کے موٹاپے کا مذاق ضرور اڑائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی حالت پر فوری توجہ دیں؟
اے آر وائی کا ایک بالکل بے کار اور وقت ضائع کرنے والا ایک ٹائم فلر ہے جس پر مجھے بہت اعتراض ہے، وہ ہے : Most Extra Ordinary Facts کیا آپ جانتے ہیں؟ اب مجھے بتائیے کہ پاکستان میں آپ کے ناظرین کو یہ حقیقت جان کر کیا فرق پڑے گا کہ کاہلو، جو کہ یہاں کا جانور بھی نہیں، ایک مہینے میں ایک میل کا سفر کرتا ہے۔وہ بیچارہ تو ایک جنگلی جانور ہے وہ اگر لومڑی کی طرح ایک مہینے میںپچاس میل بھی سفر کر سکتا تو کیا؟ اگر واقعی ایسی حیرت انگیز حقائق کا ذکر کریں جن سے پاکستانی عوام کو دلچسپی ہے تو بات بنتی ہے۔جیسے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی بات کریں کہ جو ہر سال سالانہ قوت نمو بجائے بڑھانے کے اور کم کر لیتی ہے، تو یہ ہےغیر معمولی حقیقت۔ اس سے بھی زیادہ کہ پاکستان وہ ملک ہے جس میں ایک امیدوار ستر ہزار سے زیادہ ووٹ لیکر انتخاب جیتا لیکن اس کا مخالف ووٹوں کی گنتی میں ہیرا پھری کر کے اتنے ہی نمبروں سے جتوا دیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات، جو آپ جانتے ہیں یا نہیں ، کہ تین سیاسی جماعتیں انتخابات میں بری طرح سے ہار کر پھر ووٹوں کی ہیرا پھیری سے، حکومت بنا بیٹھیں۔ اور جو لیڈر سب سے زیادہ ووٹوں سے جیتا اسے پابند سلاسل کر دیا گیا۔ یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے۔ جو پارٹی اکثریت سے انتخابات جیتی، اس کو ملک کے طاقتور ادارے نے کھڈے لائین لگا دیا اور ہاری ہوئی جماعتوں کی حکومت بنا لی۔ اب بتایئے کہ یہ حقائق غیر معمولی نہیں جو اس پروگرام پر بتائے جائیں؟
خیر چھوڑیں۔ میڈیا اتنا بھی آزاد نہیں کہ اتنی حیرت انگیز حقیقتیں بتانا شروع کر دے۔ اس پر صرف کاہلو کی حقیقت بتانے کی اجازت ہے۔ چلیے سیاسی باتیں نہ سہی، کچھ غیر سیاسی لیکن پاکستانیوں کی زندگی سے متعلق حقائق تو بتائے جا سکتے ہیں؟
اب آپ کو کچھ واقعی حیرت انگیز حقائق بتائیں:
۱۔کیاآپ جانتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کی 2023 کی آبادی24.7 کروڑ سے بڑھ کر سن 2050 میں37.2 کروڑ ہو جائے گی ۔
۲۔پاکستان میں پیدائش پرانسانی توقع حیات سن 2000 میں اوسطاً ساٹھ سال تھی جو سن 2021 میں بڑھ کر چھیاسٹ سال ہو گئی
۳۔ پاکستان میں کل اموات کی دوسر ی بڑی وجہ دماغ میںشریان کا بند ہونا ہے۔
۴۔ سن 2021 اعداد و شمار کے مطابق ہر ایک لاکھ اموات میں 26.3 اسہال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔اس کے بعد 22.7 ذیابیطس سے ، 20.1 تپ دق سے اور تقریباً ۱۲ اموات ٹریفک کے حاثات سے۔اس کو اگر اس تناسب کو پاکستان کی کل آبادی سے ضرب دے کر مجموعی صورت حال جانیں تو پتہ چلے گا کہ سالانہ کل تقریباً ۶۵ ہزار اموات اسہال کی وجہ سے ہوتی ہیں
۵۔ کیا آپ جانتے ہیں، کہ پاکستان میں ایک سال میں ہر ایک لاکھ میں سے تقریباً9 لوگ خود کشی کر کے مر جاتے ہیں۔یعنی پوری آبادی سے 22,230 لوگ۔
۶۔ پاکستان کی کل پیداوار جو سن 2022 میں 6.2% تھی وہ 2023 میں منفی0.2% تک نیچے چلی گئی تھی، اس سال 2.4% کا تخمینہ ہے۔جو سارے خطہ کے ملکوں میں سب سے کم ہے۔
۷۔ دنیا کے تمام ملکوں میں پاکستان میں سب سے زیادہ سکول کی عمر کے بچے سکول نہیں جاتے۔ان کی تعداد 20 – 26 ملین کے درمیان ہے۔
ہمارے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ناظرین کو اگر آپ نے کچھ حیرت انگیز خبریں بتانی ہیں تو کیوں نہ ایسے حقائق بتائیں جن کو جان کر ان میں تجسس پیدا ہو اور اپنے ملک کی حالت سنوارنے کی امنگ پیدا ہو؟
ہم سب جانتے ہیں کہ ٹی وی میں تیس سیکنڈ کا اشتہار بھی دینا ہو تو لاکھوں روپے دینے پڑتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی چینل پبلک سروس پیغام دینا چاہتا ہے تو اسے فضول اور بے معنی معلومات پر ضائع نہ کریں۔
جہاں تک ایک قومی ٹی وی چینل پر ہیڈ لائینز میں اتنی غلطیاں ہونا صرف شرم کا مقام نہیں، عبرت کا مقام بھی ہے۔ اس لیے کہ لکھائی کا یہ معیار پورے نظام تعلیم کی کمزوریوں کو اجاگر کرتا ہے۔پرائمری تعلیم پرایک رپورٹ کے مطابق، امیر حسین کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم نمبر ۱۸، کے بعد سے بنیادی اور سیکنڈری تعلیم صوبوں کی ذمہ واری بن چکی ہے۔ لیکن صوبوں کو اور بہت سے کام ہوتے ہیں اس لیے پرائمری تعلیم کے مسائل التوا میں رہتے ہیں۔ ان ذ مہ واریوں میں ایک ذمہ و اری تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی بھی تھی، جو غالباً کہیں نظر نہیں آ رہی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں ابتدائی تعلیم کا معیار سب سے کم ہے۔ یہ باوجودیکہ آئین بنیادی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ پرائمری تعلیم پر جو تحقیق کی گئی ہے اس سے وافر ثبوت ملتا ہے کہ ابتدائی تعلیم میں بہت خامیاں ہیں ، خصوصاً اگر علاقائی موازنہ کیا جائے۔
کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان تعلیم پر اپنی کل پیداوارکا صرف ۲ فیصد خرچ کرتا ہے جو 2019 ا س کے ہمسایہ ممالک میں سب سے کم شرح ہے۔ امید کی گئی تھی کہ صوبوں کو ابتدائی تعلیم کی ذمہ واری ملنے کے بعد حالات بہتر ہو نگے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ایک مثل ہے کہ جتنا گڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہو گا۔ اگر حکومتیں تعلیم پر خرچ کم کریں گی تو تعلیم بھی واجبی ہی ہو گی۔ہماری بنیادی تعلیم ہی تو ہے جہاں کوالٹی پہچانی جاتی ہے۔ پھر یہ کوالٹی ثانوی تعلیم پر بھی ویسی ہی جاتی ہے۔
اپنی رپورٹ میں مصنف نے جو نتیجہ تحریر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ’’ پاکستان میں ابتدائی تعلیم کی حالت قابل رحم ہے۔‘‘ اگر بنیاد ہی ناقص ہو تو بعد کی تعلیم اسے کیسے بہتر کرے گی؟ پاکستان میںباوجود سرکاری سطح پر اس کی نشاندہی ہونے کے، سکول جانے سے پہلے کی تعلیمی تیاری سرے سے ہی نہیں ہے، اس کو شروع کرنا ہو گا۔
جب طالبان کو کوالٹی کی تعلیم نہ ملے تو ہمارے مستقبل کی افرادی قوت پر اثر پڑتا ہے۔ نوجوان جب فارغ التحصیل ہو کر عملی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو ان کو نوکری صرف ان کے سکول یا کالج سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر ملتی ہے، ان کی ذہانت اور قابلیت کا کوئی امتحان نہیں لیا جاتا۔پھر وہ اور ان کے نگران جو خود بھی اسی قسم کی تعلیمی قابلیت والے ہوتے ہیں، طرح طرح کے گل کھلاتے ہیں۔جس کی ایک مثال ہم اوپر پیش کر چکے ہیں۔ زیادہ مسئلہ تب ہوتا ہے جب پاسپورٹ اور نادرا کے دفتر میں بیٹھے کلرک حضرات لوگوں کے نام، پتے لکھنے میں غلطی کرتے ہیں، اور اس غلطی کو ٹھیک کروانے میں جو متاثرین کا وقت ، ذہنی کوفت اور مالی نقصان ہوتا ہے، اسے لاکھوں سے ضرب دے لیجئے۔
تعلیم میں بے توجہی، اساتذہ کی ٹریننگ میں کمی، اور مالی ذرائع کی کمی ہماری افرادی قوت کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں۔لیکن پاکستان کی حکومتیں اپنے حلوے مانڈے میں اتنی مگن ہیں کہ تعلیم پر وہ وسائل نہیں بڑھاتیں۔اس کی بڑی وجہ ایک اور بھی ہے اور وہ ہے کہ حکومت اپنے مالیہ سے بمشکل اندرونی اور بیرونی قرضوں اور ان کی قسطوں کو پورا کرتی ہیں اور جو بچتا ہے وہ دفاع اور حکومتی کارندوں پر لگ جاتا ہے۔ تعلیم پر تو دو فیصد خرچ کرنا بھی محال لگتا ہے۔
تعلیمی بجٹ سے متعلق کسی سمجھدار کی بات بھی سنئے:’’جتنا تعلیمی بجٹ ہے، اس سے تو اپنے بچے پڑھانا مشکل نظر آ رہا ہے، اور ہم نے تو دشمن کے بچے پڑھانے کی ذمہ واری لی ہوئی ہے۔‘‘
اب آخر میں ایک تعلیمی لطیفہ بھی حاضر ہے: استاد: وعدہ کرو کبھی سگریٹ نہیں پیو گے؛ لڑکے: نہیں پئیں گے سر۔ استاد: لڑکیوں کا پیچھا نہیں کرو گے۔ لڑکے: نہیں کریں گے۔ استاد: لڑکیوں سے دوستی نہیں کرو گے؛ لڑکے: نہیں کریں گے سر۔ استاد: اور اپنی زندگی وطن پر قربا ن کرو گے۔ لڑکے: (یک زبان ہو کر بولے) ۔کر دیں گے سر۔ ایسی زندگی کا کرنا بھی کیا ہے !!۔
0