چار برس پہلے ہونیوالے صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان انتخابی عمل کے مکمل ہونے کے آٹھ روز بعد ہوا تھا۔ اس سے پہلے 2016 میںڈونلڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن کے مقابلے کا فیصلہ رات گیارہ بجے تک ہو گیاتھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سات Swing یا ڈولنے والی ریاستوں میںواضح طور پر برتری حاصل ہو گئی تھی۔ چار سال پہلے ا نتخابی نتائج کے کئی دن بعد آنے کی وجہ ان معلق ریاستوں میںووٹنگ کی گنتی کا بروقت مکمل نہ ہونا تھا۔ اسوقت کووڈکی وجہ سے لاکھوں ووٹروں نے Mail in Ballot استعمال کئے تھے جنکا شمار کئی دنوں تک ہوتا رہا تھا۔ لیکن تاخیر کی اصل وجہ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کا فوٹو فنش مقابلہ تھا۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اگر معلق ریاستوں میں واضح سبقت حاصل ہو جاتی تو نتائج کے اعلان میں تاخیر نہ ہوتی۔ اس مرتبہ بھی یہی کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ کالم جب قارئین کے ہاتھوں میں پہنچے گا تو انہیں شاید نتائج کا علم ہو چکا ہو گا مگر اسے لکھتے وقت مجھے نہیں معلوم کہ پانچ نومبر کا فاتح کون ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور کاملا ہیرس میں سے کون اگلے چار سال کے لیے وائٹ ہائوس کا مکین ہو گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر شکست کھاتے ہیں تو وہ پچھلے صدارتی انتخاب کی طرح اس مرتبہ بھی نتائج کوفوراًمسترد کر دیں گے اور امریکہ ایک مرتبہ پھر ایک نئے سیاسی بحران کی لپیٹ میں آ جائیگا۔ اسکے بر عکس کاملا ہیرس اگر ناکام ہوتی ہیں تو ڈیموکریٹک پارٹی اپنی روایات کے مطابق نتائج تسلیم کر کے اس حساب کتاب میں لگ جائے گی کہ انکے امیدوار کی شکست کی کیا وجوہات تھیں۔ سامنے کی بات تو یہی ہے کہ صدر بائیڈن نے اکیس جولائی کو صدارتی مقابلے سے دستبردارہونیکا اعلان کیا تھا اور وہ بھی بعد از خرابی بسیار۔ امریکی تاریخ کے اس ڈراما ئی موڑ کے بعد نائب صدر کاملا ہیرس نے صرف دس ہفتوں میں امریکی عوام سے اپنا تعارف بھی کرانا تھا اور انہیں قائل بھی کرنا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر صدارتی امیدوار ہیں۔ امریکہ کے انتخابی نظام میں صدارتی امیدوار اپنی ریاست کی Presidential Primaries یا کاکس میں حصہ لیتے ہیں۔ دونوں جماعتوں میں زیادہ تر Primaries کے ذریعے صدارتی امیدوار کا چنائو کیا جاتا ہے۔ یہ عمل چھ سے نو ماہ تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران ہر جماعت کے درجن بھر صدارتی امیدوار شرح صدر کے ساتھ قومی مسائل پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید کے علاوہ اپنا مؤقف بھی بیان کرتے ہیں۔ یوں اس طویل مشق کے دوران ہر امیدوار ایک کھلی کتاب کی طرح عوام کے حاشیہ خیال میں آ جاتا ہے۔ کاملا ہیرس کو یہ موقع نہیں ملا۔ اس نے ایک قلیل مدت میں اپنی شخصیت‘ نظریات‘ ماضی اور خواہشات عوام پر منکشف کرناتھے۔ وہ اگر کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ انکی محنت اور ذہانت کا کمال ہو گا۔
انکی کامیابی اس سوال کو جنم دے گی کہ انہوں نے اتنے کم عرصے میں کیسے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ بعض سیاسی پہیلیوں کا جواب ادب کی کتابوں میں تھوڑی سی تلاش کے بعد مل جاتا ہے۔ امریکی ڈرامہ نگار ‘ ادیب اور فلمساز David Mamet ‘ جنہوں نے Pulitzer Prize بھی حاصل کیا ہے نے کہا ہے کہ لوگ ٹی وی سکرین کے سامنے صرف خبریں سننے نہیں بیٹھتے۔ They will only tune in and stay tuned to watch drama. ڈیوڈ مامٹ کی رائے میں لوگ ڈرامے کی طرح سیاست میں بھی ایسے ہیرو کو تلاش کرتے ہیں جو بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہوے اپنا طے شدہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سکرین رائیٹر Aaron Sorkin اسی بات کو بڑھاتے ہوے کہتے ہیں کہ ایک اچھے ڈرامے کا پلاٹ ہیرو کی نیت اور مشکلات کے گردبنا یا جاتا ہے۔ ہیرو ایک مضبوط اور مخصوص خواہش کا اسیر ہوتا ہے اور وہ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہوتا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کیا چاہتا ہے وہ کونسی خواہش ہے جس کے حصول کے لیے وہ دشمنوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ وہ کئی بار کہہ چکا ہے کہ وہ بد دیانت اشرافیہ اور بے لگام ریاستی اداروں سے عوام کو نجات دلانا چاہتا ہے۔ اسکے برعکس لوگ یہ نہیں جانتے کہ کاملا ہیرس کیا چاہتی ہے۔ اسکے بارے میں لوگ صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ لوگوں کی فلاح بہبود کے کام کرنا چاہتی ہے اور اسکی یہ خواہش ہے کہ لوگ ایک خوشحال زندگی گذاریں۔ اسکے ناقدین کاکہنا ہے کہ She is scared to talk directly to the American people. یعنی وامریکی عوام سے براہ راست بات کرنے سے گھبراتی ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اسکے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس نے ووٹ لینے کے لیے لوگوں کو بتانا ہے کہ معیشت‘ امیگریشن‘ اسقاط حمل‘ مہنگائی‘ ماحولیات‘ ہیلتھ کئیر کی سہولیات‘ قومی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میںاسکی ذاتی سوچ کیا ہے ۔اسنے لوگوں کو یہ بھی بتانا ہے کہ بحثیت قوم وہ کہاں کھڑے ہیں۔ وہ دشمنوں کا مقابلہ کیسے کرے گی۔ اور یہ بھی کہ اسکی زندگی کی کہانی کیا ہے۔ رونلڈ ریگن نے لوگوں سے کہا تھا کہ اس نے غربت میں آنکھ کھولی اور اداکاری کا پیشہ اختیار کیا۔ پھر شہرت حاصل کرنے کے بعد اس نےکوشش کی اور کیلی فورنیا کا گورنر بن گیا۔ امریکی محاورے میں اسے Rag to Riches یعنی غربت سے امارت کا سفر کہتے ہیں۔ امریکی عوام کے لیے یہ ایک توانا اور جاندار کہانی ہے۔
ڈونلد ٹرمپ کی زندگی کی کہانی اور اسکی جہدو جہد کئی عشروں سے لوگوں کے سامنے ہے۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ و ہ آمرانہ مزاج رکھتا ہے اور سزا یافتہ مجرم بھی ہے مگر اسکی جہدو جہداتنی طویل اور زندگی کی کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ لوگ اسے ہیرو سمجھتے ہیں اور اسے اعلیٰ ترین منصب دینا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ کاملا ہیرس نے یہ سفر ابھی شروع کیا ہے۔ اسکے باوجود وہ اگر کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ ایک حیران کن کامیابی ہو گی۔
0