امریکہ میں صدارتی انتخابات ہورہے ہیں، لیکن ابھی تک کسی صدارتی امیدوار نے مجھ سے ووٹ کے لیے رابطہ نہیں کیا۔خود میرا بھی رجحان ان انتخابات سے مکمل گریز بلکہ پرہیز کا ہے۔ بطور پاکستانی انتخابات کے حوالے سے میرا تجربہ اور مشاہدہ ایسا رہا ہے کہ اب انتخابی نتائج پر اعتبار نہیں آتا۔الٹا نتائج کا اعلان سن کر پہلے پہل تو ہنسی آ جایا کرتی تھی، اب ہنسی کے عوض غصہ آنے لگتا ہے۔ دراصل انتخابات کا عمل پاکستان میں اب مخفی علوم کا حصہ بن چکا ہے اور اس کالے علم اور مخفی عمل کے نالائق و ناہنجار عامل بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جہاں تک امریکہ کے صدارتی انتخابات کا تعلق ہے تو میں شرمائے یا گبھرائے بغیر یہ بات بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں اس بار بھی امریکی الیکشنز میں کسی امیدوار کو ووٹ دینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔کملا ہیرس کو تو بالکل نہیں ،وجہ کوئی اور نہیں ،صرف جو بائیڈن کی نائب اور معتمد ہونا ہے۔دوسرے بائیڈن اور کملا ہیرس کے امریکہ نے خود امریکہ کے لیے ہزیمت اور شرمندگی کے متعدد منصوبے تیار اور مکمل کر رکھے ہیں ، یہ لوگ جنگ کی آگ میں اپنی معیشت کی روٹیاں پکانے پر یقین رکھتے ہیں ،اس کے لیے اگر ہزاروں بچوں ،عورتوں اور مردوں کو دردناک طریقے سے قتل بھی کرنا پڑ جائے تو بھی انہیں کوئی ندامت یا شرمندگی محسوس نہیں ہوتی ۔خیر چلیئے جو بائیڈن کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ بوجہ زائدالعمری شرم و حیا یا حمیت و غیرت کی حدود سے باہر نکل چکے ہیں ۔وہ ان دیکھی مخلوقات کے رابطے میں رہنے کا تاثر دیتے ہیں ، ان سے باتیں کرتے ہیں ،جن کا کوئی مطلب یا مفہوم نہیں ہوتا ۔ستم ظریف جو بائیڈن کی قلبی اور دماغی صورت حال کو اس لیے اہمیت نہیں دیتا کہ امریکی صدر کو زیادہ دل یا دماغ کے استعمال کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ان کی طرف سے کئے گئے فیصلے اور بنائی گئی حکمت عملی ایک چلتا آ رہا مضبوط “سسٹم ” تیار کرتاہے اور وہی “سسٹم”ان کے نفاذ کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ جو بائیڈن اس الیکشن میں خود تو امیدوار نہیں ہیں ،لیکن پھر بھی وہ پورے خلوص کے ساتھ ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کی ہزیمت کے لیے نت نئی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ابھی حال ہی میں انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتیوں کو کچرے سے تشبیہ دے کر کملا ہیرس کے لیے مشکل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔خیر اگرچہ کملا ہیرس نے کملی بننے کی بجائے بائیڈن کے اس غیر محتاط اور واقعتاً احمقانہ بیان سے لاتعلقی اور ناپسندیدگی کا تاثر دیا ہے ۔لیکن عملی طور پر ایسا نظر آرہا ہے کہ جو بائیڈن کی لرزتی ہوئی غیر محتاط گفتگو کملا ہیرس کی شکست کے راستے صاف کر رہی ہے۔دوسری طرف میں اس بات کو بھی چھپانا مناسب نہیں سمجھتا کہ؛ میں ان الیکشنز میں ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ووٹ نہیں دوں گا۔وجہ یہ نہیں کہ مجھے ووٹ کی اہمیت ، افادیت اور طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔یا یہ کہ میں کسی تیسرے امیدوار سے وعدہ کئے بیٹھا ہوں، وجہ صرف یہ ہے کہ میں امریکی شہری نہیں ہوں اور میرا امریکی الیکشنز کے ساتھ ووٹ کا رشتہ نہیں ہے۔ہاں بطور ایک سچے پاکستانی میرا یہ فرض ہے کہ میں امریکی صدور کے انتخاب اور بعد از انتخاب حرکات و سکنات پر گہری نگاہ رکھوں۔اور دعا کرتا رہوں کہ کسی امریکی صدر کو کبھی بھی زکام نہ ہو۔کیونکہ ایسی صورت میں امریکی صدر کی ایک چھینک بھی اپنے چھینٹے پاکستان تک پہنچا دیتی ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کی جسمانی قوت مزاحمت اتنی قوی نہیں ہوتی کہ ایسے چھینٹوں کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکیں،لہٰذا وہ بھی ایک ردھم کے ساتھ چھینکنے اور کھانسنے لگتے ہیں۔بطور ایک سچے پاکستانی کے ، مجھے ہر اس معاملے سے دلچسپی ہے ، جس سے میرا براہ راست کوئی تعلق نہ ہو۔مجھے میرے حکمرانوں نے ملک کے اندر کے معاملات و مسائل سے غافل یا لاتعلق رکھنے کے لیے ہمیشہ بین الاقوامی تنازعات میں الجھائے رکھا ہے۔ اس جادوگری کے لیے ایک تو میری “اسلامی بین الاقوامیت” کو ابھارہ گیا اور پھر مجھے اس فریب کا یقین دلا دیا گیا کہ خود اپنے ملک کے سوا، پوری دنیا کو درست کرنا میرے اولین فرائض کا لازمی حصہ ہے۔مجھے دنیا بھر کے تنازعات کی درد ناک تصویریں اور ہولناک واقعات دکھا اور سنا کر اداس و ناامید رکھا گیا۔اس ذہنی پس منظر کے ساتھ میری امریکہ کے صدارتی انتخابات میں دلچسپی کی وجوہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ؛ہمارے یہاں ملکی سطح پر ہر خرابی کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دینے کی روش پون صدی پرانی ہے۔ بغداد پیکٹ، سیٹو ، سینٹو، افغان جنگ بعنوان جہاد اور پھر دہشتگردی کا بزنس، کون سا ڈرامہ ہے جو امریکہ نے پاکستانی اسٹیج پر نہیں کھیلا۔ خیر یہ عرض حال یعنی شکوہ اور جواب شکوہ تو چلتا رہے گا۔اس وقت کی اہم بات تو یہ ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں باہم مقابل و متحارب امیدواروں میں سے کون امریکہ کے عالمی کردار میں مثبت تبدیلیاں لانے کی ہمت یا جرات کر سکتا ہے۔کملا ہیرس بہت مضبوط امیدوار ہو سکتی تھیں اگر ان کے سر پر بابا جو بائیڈن کا سایہ سوار نہ ہوتا۔ایک عام تاثر تو یہ بھی ہے کہ کملا ہیرس جو بائیڈن کی شروع کردہ عالمی پنگے بازیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کریں گی۔ جنگ کی معیشت اور فساد کی خارجہ پالیسی نے خود امریکی شہریوں کو شرمندہ اور پریشان کر رکھا ہے ۔یوکرین اور اسرائیل کے ذریعے اپنے بین الاقوامی کردار کو رواں رکھنے کی حکمت عملی نے امریکہ پر اعتراضات و طعن میں اضافہ کیا ہے۔جو بائیڈن نے اسرائیل کے نیتن یاہو کو لگام دینے کے عوض ڈھیل دے کر انسانیت سے پیار کرنے والے امریکیوں کو سخت مایوس بھی کیا ہے۔میں یہ تو نہیں سمجھتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگر جیت جائے تو اسرائیل سے التفات کم کر دے گا، لیکن شاید وہ بیرون امریکہ اسلحے کی ترسیل اور انسانی نسل کشی سے ہاتھ کھینچ سکتا ہے۔شاید وہ یوکرین والی شرارت اور اسرائیل والی ڈھیل کو کچھ کم کر سکے۔لیکن بہرحال ستم ظریف کا یہ کہنا کچھ غلط معلوم نہیں ہوتا کہ؛ امریکی صدور کے طرز فکر وعمل کے بارے میں پیشگی اندازہ لگانا عموماً درست نہیں ہوتا۔ہاں مگر یہ جو ٹرمپ امریکہ کی چلتی ہوئی ٹرین کے ہر ڈبے کی کھڑکی پر “سر اور بازو اندر رکھیں” کا بورڈ آویزاں کرنا چاہتا ہے ،وہ شاید انواع و اقسام کے مسائل کا شکار عام امریکیوں کو متوجہ اور متاثر کر سکے۔ڈونلڈ ٹرمپ بنیادی طور پر سرمایہ دار تاجر بھی ہے ، وہ منافع کی معیشت میں سے تباہی کے کاروبار کو الگ کرنے کا سوچ سکتا ہے۔امریکہ کا اب تک کا عالمی تجربہ قضیئے حل کرنے کی بجائے ، انہیں بڑھانے کا رہا ہے۔شاید یہی وہ بنیادی حکمت عملی ہے جس کے ذریعے امریکہ نے اپنے عالمی کردار اور اپنے عالمی تصرفات کو توسیع اور دوام دینے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے ۔لیکن شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں امریکہ کے عالمی ٹھیکے داری نظام ،جو بہرحال بہت ہی زیادہ مہنگا کاروبار ہے ، کسی تبدیلی یا ترمیم کی راہ اپنا سکے۔دنیا میں طاقت کا توازن اپنے محور اور پیمانے تبدیل کر رہا ہے ۔اب ضرورت ہے کہ امریکی ذہن دوسری عالمی جنگ کے بعد والے خمار سے باہر نکل کر اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے عالمی تناظرات کا محتاط مطالعہ کرتے ہوئے اپنے عمل اور ردعمل کے پیمانوں ، ترجیحات اور طریقہ کار کو تبدیل کرنے پر خود کو آمادہ و تیار کرے۔جہاں تک امریکہ کے صدارتی انتخابات کا تعلق ہے ،تو چونکہ میں دونوں امیدواروں کا ووٹر نہیں ہوں ، لہٰذا مجھے کملا ہیرس کے ہارنے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میری دلچسپی صرف یہ ہے کہ اس الیکشن کے نتائج خود امریکہ کے اتھرے عالمی کردار پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔
0