جب تحریک انصاف بنی تھی تو میں نے ایک مضمون لکھا تھا میں نے لکھا تھا کہ عمران کا کوئی تعلق سیاست سے نہیں ہے لہٰذا وہ سیاست میں کامیاب نہ ہو پائیں گے ،اس وقت تک عمران کا تعلق شائد فوج سے نہیں تھا، فوزیہ قصوری اور نسیم زہرا ان کے ساتھ تھیں کچھ غیر مانوس چہرے بھی عمران کے سیاست میں آنے سے قبل ڈاکٹر اسرار اور حکیم سعید نے بتا دیا تھا کہ عمران غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کار ہیں اور ان کی تربیت کی جا رہی ہے ، ڈاکٹر اسرار اور حکیم سعید کی آواز صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوئی، میرا خیال ہے کہ عمران امریکہ کا پراجیکٹ تھا مگر فوج نے اس کو گود لے لیا، چھوٹی چھوٹی باتیں جو بہت اہم ہوتی ہیں جب عمران نے کرکٹ چھوڑنی چاہی تو جنرل ضیا نے عمران سے کہا کہ وہ کرکٹ ٹیم کی قیادت کرے، ایک اور موقع پر جنرل ضیا الحق نے عمران کو اپنا بیٹا کہا تھا، عمران نے جب کرکٹ چھوڑی اور سیاست میں آنا چاہا تو اس نے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا، جماعت اسلامی کو سیاست کی PULSE کا کبھی اندازہ نہیں ہوا، عمران سے کہا گیا کہ وہ شباب ملی میں شامل ہو جائیں، عمران نے انکار کر دیا، سوال یہ ہے کہ مغرب کا پلے بوائے جب کرکٹ چھوڑ دیتا ہے تو مذہب کی طرف مائل کیوں ہو جاتا ہے، اگر یہ دلیل دی جائے کہ خدائے لم یزل دلوں کو پھیر دیتا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ دین کا کام ہی کیوں نہیں کرتا وہ دین کا کام کرنے کے لئے سیاست کا انتخاب ہی کیوں کرتا ہے، ہر چند کہ عمران پروفیسر مجید اختر سے بہت متاثر تھے مگر اس سے زیادہ وہ جنرل گل حمید سے ذہنی طور پر قریب تھے ، تحریک انصاف میں شروع شروع میں کچھ اچھے لوگ شامل ہوئے مگر رفتہ رفتہ وہ ساتھ چھوڑ گئے، فوزیہ قصوری نے عمران کے لئے کافی کام کیا وہ تحریک انصاف کی ایک موثر آواز تھی، میں ان سے مل چکا ہوں وہ مدلل گفتگو کرتی تھیں انہوں نے تحریک انصاف کا ایک روشن خیال چہرہ دکھانے کی کوشش کی اور لوگ ان کو پسند کرتے تھے ، مگر ان کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ پارٹی چھوڑ دیں پھر نسیم زہرا بھی الگ ہو گئیں، مجھے جسٹس وجیہہ کے الگ ہونے کا ملال ہوا وہ تحریک انساف کا ایک معتدل مزاج چہرہ تھا، عمران کی پروجیکشن سائنسی انداز میں ہوا کسی ڈھابے کی بینچ پر سوتے ہوئے تصویر یا پھر ڈھابے میں چار پائی پر بیٹھ کر کھانا، عوام میں پزیرائی ہوئی ، مگر اہل نظر دیکھ رہے تھے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، آخر عمران کے گرد یا تو پیرا شوٹرز تھے یا مشرف دور کی باقیات، چونکہ میں اسلام کو ذاتی مسئلہ سمجھتا ہوں لہٰذا اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ اسلام قوم کے سیاسی معاشی، تہذ یہی ، معاشرتی اور سماجی مسائل حل کر سکتا ہے، یہ دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہے لہٰذا کینسر کا علاج دعاؤں سے نہیں کیا جا سکتا، میرا یہ بھی یقین سا ہے کہ خمینی کو فرانس سے لانا اور ایران پر مسلط کر دینا مغرب کی سٹرٹیجی کا حصہ تھا ایران اگر خمینی کے ہتھے نہ چڑھتا تو شاید مشرق وسطی مختلف ہوتا غور کیجیے کہ ساؤتھ ایشیا اور مشرق وسطی کو مذہب کی جانب کیوں دھکیل دیا جاتا ہے، کیا اس وجہ سے کہ خطے کی خوشحالی کہیں مغربی مفادات پر اثر انداز نہ ہو، کئی کتابیں ہیں جن میں واشگاف الفاظ میں مغرب کی پالیسی کا ذکر ہے کہ وہ ملک جو کبھی مغرب کی کالونی رہے ہیں ان کو مذہب کے ذریعے MANAGE کیا جائیگا اور صورت حال آپ کے سامنے ہے، چلیں ایک مفروضہ قائم کر لیتے ہیں کہ ایران اور پاکستان اگر روشن خیال ملک ہوتے تو خطے کی سیاسی صورت کیا ہوتی، معاشی ترقی میں کیا ایران اور پاکستان پورے خطے کو لیڈ کر رہے ہوتے ، یہ چند سوالات ہیں جو اپنی طرف کھینچتے ہیںعمران کا مذہب کی جانب کھینچے چلے جانا سوالات اٹھاتا ہے، ایسا کیوں کہ طالبان کی محبت عمران کو بہا لے گئی اور ایسا بھی کیوں کہ عمران کی تبلیغ کا مرکز نہ پنجاب تھا نہ سندھ نہ بلوچستان بلکہ صرف پختوں خواہ ہی رہا، امریکہ کے جانے کے بعد عمران پاکستان سے زیادہ افغانستان کی محبت میں گرفتار ہو گئے، افغان حکومت کو تسلیم کرانے کے لئے بہت بے چین اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد عمران کا سارا فوکس احتجاج پر ہی رہا، اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ عمران کو معلوم تھا کہ معیشت میں بہتری آئی تو ان کی سیاست مر جائے گی لہٰذا 2022 سے عمران مستقل سڑکوں پر ہیں، ان کو گرفتار نہ کیا جا سکا، عمران کی ساری قوت پختون، افغانی جو اب پاکستان کے شہری بن گئے ہیں ، طالبان، افغانی طالبان، طالبانی حکومت جو قندھاری گروپ کے زیر اثر ہے اور ممکنہ طور پر داعش، اسی لئے جنرل عاصم کو کنٹرول کرنے میں وقت لگا، یہ سچ ہے کہ جنرل فیض حمید کی وجہ سے عمران کا فوج کے کچھ جز لز پر اثر و رسوخ تھا، پی ٹی آئی کی تمام سوشل میڈیا مہم کو سابق فوجی افسران ہی کنٹرول کرتے رہے، اور حاضر سروس جز لز کو زچ کرتے رہے، مگر اب حالات قابو میں ہیں اور فوج نے اس کے لئے بہت قربانیاں دیں ان عناصر کو بہت حد تک CONTAIN کیا جا چکا ہے عمران کی گرفتاری کے بعد بھی مزاحمت جاری رہی ، گو اس میں پہلی جیسی شدت نہیں رہی ، گنڈا پور کو اسی لئے لایا گیا کہ وہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا لہو گرماتا رہے، عدلیہ میں بھی عمران کے ہمنوا موجود رہے میڈیا بھی عمران کے ساتھ ، کسی نے سچ کہا کہ اگر سلور اسکرین سے عمران کو نکال لیا جائے تو میڈیا کو کہانیاں نہیں ملیں گی اینکرز یتیم ہو جائیں گے مگر اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ معیشت پر جو کام ہو رہا ہے وہ لوگوں کو نظر آنے لگتا، عمران کی ہم نوا عدلیہ کو بے اثر کرنے کے لئے حکومت کو آئینی اصلاحات کا ڈول ڈالنا پڑا، اور حکومت نے سوچ لیا کہ اسے ہر قیمت پر اصلاحات لانی ہیں، عمران کے ہاتھوں سے ریت نکل رہی تھی اسی لے پہلے اسلام آباد کے قریب سنگجانی کے مقام پر جلسہ ہوا جس میں بیہودہ زبان استعمال کی گئی ، اسی وجہ سے لاہور کا جلسہ ناکام ہوا اور پھر گنڈا پور نے بانی کی ہدایت پر اسلام آباد پر چڑھائی کی، یہ دوسری مرتبہ ہوا کہ گنڈا پور غائب ہو گیا، اور اب پی ٹی آئی کے ورکرز نے اس پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا، پی ٹی آئی کی باقی قیادت بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت، سلمان اکرم راجہ ، روف حسن، شبلی فراز ، شیخ وقاص اکرم، وغیرہ گنڈا پور کے اس فائینل راؤنڈ سے دور رہے، یہ مکمل ایک فلاپ شو تھا جس نے پی ٹی آئی ورکرز میں مایوسی بھر دی ہے صرف OVERSEAS SOCIAL MEDIA KEYBOARD WARRIORS لندن دبئی نیو یارک اور ٹورنٹو میں بیٹھے پھٹے ہوئے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ کوشش سوشل میڈیا سے پیسے کمانے کی کوشش ہے کمائی کا یہ ذریعہ بھی بہت جلد ختم ہو جائیگا، اسد طور، مطیع اللہ جان، ثاقب بشیر ، اور ان جیسے U TUBERS کا کاروبار ختم ہو جائے گا، مذکورہ بالا U TUBERS نے جوں کے بارے میںہتک آمیز زبان استعمال کی اور بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جس کا پول کھل چکا ہے، گنڈاپور کے بعد اب پی ٹی اآئی کی صفوں میں کوئی ایسا لیڈر رہا نہیں جو کارکنوں کو MOBILZEکر سکے لہٰذا یہ فائنل رائونڈ ختم ہوا، اب مولانا کو بھی نظر آچکاہو گا کہ ان کےبغیر بھی اآئینی اصلاحات ہوسکتی ہیں، امید ہے کہ مولاناآئینی اصلاحات کی حمایت کرینگی، تحریک انصاف کا ذہن سیاسی ہوتا اور وہ فوج کے اشاروں پر نہ چلتی تو سیاست میں باقی رہتی۔
0