0

آخر کب تک؟

سیاسی بحث
پھنسی ہے قوم گردابِ بلا میں
اس بحران میں پھیلائو کب تک؟
دبائو، دھمکیاں تکرار کیسی
سیاسی بحث میں گھیرائو کب تک؟

ہمیں اللہ کی ذات پر یقین ہے کہ یہ کالم شائع ہونے تک اسلام آباد میں حالات معمول پر آجائیں گے اور شہر اور شہریوں کو معمول کی زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ تحریک انصاف کو جس طرح حکومت سے نکالا گیا ہے اور اس نکالنے میں فوج اور سیاسی جماعتوں نے جو کردار ادا کیا ہے وہ ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود انتخابات بروقت نہیں کرائے گئے اور بدرجۂ مجبوری حکومت نے انتخابات کرائے بھی تو تحریک انصاف کے دعوے کے مطابق اس کے امیدواروں کے نتائج کو تبدیل کر کے دوسری جماعتوں کے امیدواروں کو الیکشن کمیشن نے دھاندلی سے کام لیا اور موجودہ حکومت فارم 47کی حکومت کہلائی۔ ہمارے خیال میں عدالت عظمیٰ کو تحریک انصاف کے اس دعوے کی مزید تحقیق کر کے قوم کو نتائج سے آگاہ کرے تاکہ ہر پاکستانی کو انتخابات کے دیانت دارانہ ہونے کا یقین ہو جائے۔ ہماری حکومت کئی بار تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دے چکی ہے اور تحریک انصاف کے روح رواں عمران خان کی ضد ہے کہ وہ مذاکرات صرف اور صرف فوج ہی سے کریں گے کہ موجودہ حکومت کی پشت پر فوج ہی موجود ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اتنے ہنگاموں کے بعد عمران خان کو حکومت سے مذاکرات کرنے چاہئیں البتہ وہ یہ شرائط لگا سکتے ہیں کہ ان مذاکرات میں فوج کی نمائندگی بھی ہو تاکہ معاملات آگے بڑھ سکیں۔ گزشتہ تین چار دن سے اسلام آباد اور لاہور میں جو افراتفری مچی ہوئی ہے وہ ملک و قوم کے لئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے بہت اہم اور صف اول کے رہنما جیل میں ہیں۔ اگر حکومت واقعی تحریک انصاف سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو اسے ان تمام لوگوں کو رہا کرنا ہو گا تاکہ خیر سگالی کا تاثر قائم ہو سکے اور مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت کا ’’جمود‘‘ حکومت کے لئے مستقل بے چینی کا باعث بنا رہے گا۔ اس بے یقینی اور تنائو کی موجودگی میں حکومت نے جو آئینی ترمیم رات کے اندھیرے میں منوانے کی کوشش کی ہے اس نے فضا اور بھی خراب کر دی ہے۔ پہلے تحریک انصاف عمران خان کی آزادی اپنے مینڈیٹ کی واپسی کا نعرہ لگارہی تھی اب اس نعرے میں آئینی ترمیم کا معاملہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ ابھی عدالت نے ایک مقدمے میں فیصلہ دیا ہے کہ اپنی جماعت کے علاوہ کوئی ارکان اسمبلی کسی اور جماعت کو وٹ دیتا ہے تو اس کی نشست تو ختم ہو سکتی ہے لیکن اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا اس طرح پارلیمان کے انتخاب میں ہارس ٹریڈنگ در آنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ جب ایک جماعت کے وکیل نے اس بارے میں کینسر کا لفظ استعمال کیا تو ہمارے منصف اعلیٰ نے اس لفظ کے استعمال سے انکار کر کے معاملات کو اور الجھا دیا۔ کئی دن سے اسلام آباد اور لاہور میں جو کچھ ہورہا ہے وہ پوری دنیا کے لئے عموماً اور اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں کو بہت تشویش میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ کے پی کے وزیراعلیٰ اپنے احتجاج پر صوبے کا پیسہ خرچ کررہے ہیں اور وزیراعلیٰ کے حامی حکومت پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ اس احتجاج سے نپٹنے کے لئے عوام کا پیسہ بے دریغ لٹارہی ہے۔ پولیس، رینجرز اور فوج کے علاوہ کنٹینرز اور خندقوں کی کھدئی پر وفاقی حکومت قوم کا پیسہ بے دریغ خرچ کررہی ہے۔ ہر طرح سے نقصان قوم کا ہی ہورہا ہے۔ ملائیشیا کے وزیراعظم جا چکے ہیں وہ اور ان کے ساتھی کنٹینرز کی بہار دیکھ چکے ہوں گے اور اب اگلے ہفتے ہونے والی سمٹ کے مہمان بھی اگر تحریک انصاف کا یہ احتجاج اور ہنگامی آرائی دیکھیں گے تو ان پر ہمارے ملک کی فضا کا کیا اثر ہو گا۔ گزشتہ دو تین دن میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور خصوصاً عمران خان کی بہنوں کی گرفتاری نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ ان حالات میں حکومت کو بہت سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ ہماری تجویز ہے کہ حکومت تحریک انصاف کے تمام کارکنوں کو رہا کرے اور فوج کی موجودگی میں تحریک انصاف سے مذاکرات شروع کرے اگر دوسرے ممالک سے متعدد سیاسی اور تجارتی معاملات میں فوج کی نمائندگی ہو سکتی ہے تو سیاسی معاملات میں کیوں نہیں؟ اگرسنجیدگی سے اس موضوع پر حکومت کچھ نہیں سوچتی اور حالات کو سنبھالنے کے لئے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھاتی تو ملک اسی افراتفری اور ہنگامے کا شکار رہے گا۔ خدا ہمارے ملک کو اپنی حفاظت میں رکھے۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں