ہماری زندگی میں سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر جھوٹ ڈھٹائی کے ساتھ سوشل میڈیا پر بولا جاتا ہے اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے،میڈیا آرگنا ئز ز جانتے ہیں کہ اسی فیصد لوگوں تک سچ کی رسائی نہیں، وہ اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہیں فیک نیوز پھیلاتے ہیں اور بی بی سی سننے والے لوگوں کی نئی نسلیں فیک نیوز کا اعتبار کر لیتی ہیں، جھوٹ پر مبنی ویڈیوز ریلیز کر دی جاتی ہیں اور ان کو سچ مان لیا جاتا ہے کسی بھی جھوٹی خبر یا فیک ویڈیو کو چیک کرنے کی اہلیت ان پڑھ طبقے میں نہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جھوٹ پوری دنیا کا چکر لگا کر واپس آجاتا ہے جبکہ سچ اپنے بوٹوں کے تسمے باندھ رہا ہوتا ہے، جو کشش جھوٹ میں ہوتی ہے وہ سچ میں کہاں، مسئلہ یہ ہے کہ سچ ہمیشہ کسی نہ جھوٹ کا پردہ چاک کر رہا ہوتا ہے لہٰذا اس کی قبولیت کم ہوتی ہے، یا پھر سچ انسانی معاشروں کی جھوٹی قدروں کو جھٹلاتا ہے جو انسانوں کے عقیدوں کا حصہ بن جاتی ہیں یہ عقیدے ٹھوس چٹانوں کی طرح ہوتے ہیں جن کو پاش پاش کرنا کوئی آسان کام نہیں، مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلے پہل سچ کا مذاق بنایا جاتا ہے، پھر اس کی شدید مخالفت کی جاتی ہے اور پھر اس کو اس طرح قبول کر لیا جاتا ہے کہ یہ تو عام سچائی ہے، یہ علمی، ادبی، اور مجلسی ورزش ہمارے جیسے معاشروں میں ہوتی ہے جہاں سچ اور جھوٹ کی تعریفیں ہی وضع نہ ہو سکیں، مغرب میں AVENGILISTS نے MIRACLES کا شور پچھلی صدی سے مچانا شروع کیا اور ٹی وی کی ایجاد نے اس کاروبار کو بہت ندرت بخشی، لوگ اس مذہبی فکشن کو شوق سے دیکھنے لگے ہمارے ہاں تصوف نے کرشموں کے نام پر بے انتہا جھوٹ بولا ایسی ایسی کہانیاں گھڑیں کہ لوگ الف لیلیٰ کی کہانیوں اور طلسم ہوش ربا کو بھول گئے، جہالت نے اس کاروبار کو خوب چمکایا مگر جیسے ہی کیمرہ ایجاد ہوا معاشرے سے ولی غائب ہو گئے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان کے ولیوں نے تمام انبیاء کے تمام معجزات کا جی بھر کے مذاق اڑایا، ایک شق القمر کا معجزہ تھا جو ان کہ فتنہ طرازیوں سے بچا رہا، علم کی روشنی جہاں جہاں پھیلی وہاں وہاں ان کہانیوں پر سوال اٹھنے لگے بد قسمتی سے اس جھوٹ کا جواب تھا نہیں، سائنس کو فروغ ملا تو مشینوں کی ایجادات نے بہت سے عقائد کا پول کھول دیا، ان ملاؤں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو انہوں نے ہر ایجاد کو حرام قرار دینا شروع کر دیا اب دینا کے ہر ملک میں علم کی روشنی پھیل چکی اور وہ سمجھ چکے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی اس دور کی سچائیاں ہیں مگر ساؤتھ ایشاء کے تین ملکوں میں رجعت پرستی اپنے پاؤں جمائے ہوئے ہے پاکستان، ایران اور افغانستان وہ بابرکت ممالک ہیں جو سائنس ٹیکنالوجی اور لاجک سے مسلسل انکار کر رہے ہیں اور وہ لوگ جو ان ممالک سے ہجرت کر کے کسی نہ کسی طرح مغرب کے ممالک میں پہنچ گئے یا امریکہ پہنچ گئے وہ اپنا رجعت پسندانہ پیکچ لے کر گئے مذکورہ بالا ممالک کے سیاسی اجزائے ترکیبی بڑے مختلف ہیں، ایران میں خمینی انقلاب نے ایران میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہ روک کر مغرب اور امریکہ کی بہت مدد کی، جب لیاقت علی خان امریکہ میں KENSAS UNIVERSITY میں خطاب کرنے آئے تو امریکہ نے لیاقت علی خان کو دو تھیلے دئے تھے ایک میں سوکھا دودھ اور اسلام تھا اور دوسرے تھیلے میں جعلی جمہوریت تھی لیاقت علی نے کہا دیکھنا اس قوم کو اسلام کے چکر میں ایسا پھنساؤنگا کہ یہ کبھی نہ نکل سکے گی اور پھنسا دیا پھر مڑ کر کبھی اس قوم نے عقل کی شکل نہیں دیکھی، پھر افغانستان جو ماشا اللہ صدیوں سے ویسا ہی ہے جیسا تھا افغانیوں نے بھی عقل کو سنگسار کر دیا، غور کیجیے کہ پچھلی ایک صدی سے مغرب میں کوئی جنگ نہیں ہوئی مگر عالم مسلسل جنگ کی آگ میں جل رہا ہے سوال یہ ہے جنگ مشرق وسطی یا جنوب مغربی ایشیا پر ہی کیوں مسلط کی جاتی ہے تجزیہ کار کی نظر اگر عالمی امور پر نہیں ہے بہت سی چیزیں دھندلی رہ جاتی ہیں اور حقائق تک رسائی ممکن نہیں ہوتی ، پاکستان میں کسی بھی سیاست دان کے پاس وژن نہیں ہے، مجھے اکثر یہ بات پریشان کرتی ہے کہ 1971 کے الیکشن میں مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں ترقی پسند کامیاب ہوئے تھے وہ متحد کیوں نہ ہو سکے اور بھٹو ایک متنازعہ آئین قوم کے گلے میں باندھ گیا اور اس کام کے ہونے کے بعد اس کا JUDICIAL MURDER کرا دیا گیا، کیا یہ سب ایک تحریر شدہ منصوبہ تھا، بھٹو جیسے ترقی پسند نے ملک کے لئے ایک اسلامی آئین پسند کیوں کیا اور ایسا کیوں ہوا کہ اس کے بعد بھٹو کی موت ضروری ہو گئی ، یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان سے باہر ہوتے ہیں، کیا یہ فیصلہ بھی باہر ہوا؟ کیا بھٹو اس منصوبے کا حصہ تھا؟ اگر حصہ تھا تو اس کا عدالتی قتل کیوں کر دیا گیا، کیا یہ خوف تھا کہ بھٹو آئین بدل دے گا، کیا نام نہاد افغان کا فیصلہ کر لیا گیا تھا جس کے لئے بھٹو کو راہ سے ہٹانا ضروری تھا، ایوب خان کے زمانے میں مفتی محمود کو پروموٹ کیا گیا اور پھر اس پروموشن نے بہت سے بچے دیئے، اور ملائیت کا ملک میں راج ہو گیا، ایک غیر ملکی تجزیہ کار نے لکھا کہ پاکستان امریکہ کے لئے ہمیشہ ہی اہم رہے گا، PAKISTAN IS INEVITABLE یہ بھی لکھا گیا کہ پاکستان کا خود کفیل ہونا امریکہ اور مغربی طاقتوں کے لئے ایک دھچکا ہوگا، پاکستان کے لئے امریکی پالیسی سازوں نے STATEGIC LOCATION کی اصطلاح وضع کی ، یہ بات پاکستانی سیاست دانوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، اسی اصطلاح کو پاکستان کی بیورو کریسی نے استعمال کیا جس کے بارے میں امریکیوں نے اس کو DOUBLE CROSS کہا تھا اور سہیل وڑائچ نے کہا تھا کہ اس بار امریکہ کو دودھ میں منگنیاں ڈال کر نہ دینا، سیدھی سی بات ہے کہ امریکہ کے ساؤتھ ایشیا میں مفادات ہیں، ان مفادات کا امریکہ تحفظ کرتا رہے گا امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہمیشہ ہی رہے گی، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکہ بحیرہ عرب جیسی گزرگاہ کو چھوڑ دے ،اسی لئے امریکہ نہیں چاہتا کہ سی پیک کامیاب ہو، بلوچ علیحدگی پسند جو دھماکے کر رہے ہیں وہ اس کی نشاندہی کرتے ہیں بلوچ علیحدگی پرستوں نے حال ہی میں عسکری تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ چینی شہریوں کو نشانہ بنایا ہے ادھر کان پر حملہ کرکے مشنری کو ناکارہ بنادیا ہے،ان حملوں میں کس کس کا مفاد چھپا ہوا ہے اور کوئی نادیدہ ہاتھ اگر کسی بڑی طاقت کا نکل آیا تو کوئی تعجب نہیں ہوگا، پاکستان کے فطری دوست چین اور روس ہی ہو سکتے ہیں، مگر تعجب ہے کہ چین اور پاکستان ایران کے ساتھ مل کر کوئی بلاک کیوں نہیں بنا سکتے جس میں روس بھی شامل ہو، ایسا اس لئے نہیں ہوگا کہ پاکستان کو وڈیرہ شاہی اور ملائیت نے یر غمال بنایا ہوا ہے ہمارے ایک دوست نے بہت سادگی سے ایک مسئلہ حل کر دیا کہنے لگے امریکہ پاکستان کی ترقی نہیں چاہتا، یہ مولوی اور وڈیرے بھی پاکستان کی ترقی نہیں چاہتے ، تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ وڈیرے اور مولوی کسی عالمی طاقت کے گماشتے ہیں ، اگر ہیں بھی تو تعجب کیا اس سر زمین پر اتنے وطن فروش پیدا ہوئے ہیں جتنے ساری دنیا میں پیدا نہیں ہوئے، یہ مولانا فضل الرحمن ہی تھا جس نے ایک امریکی اہل کار سے کہا تھا کہ مجھے وزیر اعظم بنا دیں، پچھلے کئی عشروں سے سی پیک کی تکمیل میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں اور وہ صرف اس لئے کہ سی پیک کامیاب ہو گیا تو بحیرہ عرب پر چین کا راج ہوگا اور پاکستان عالمی ہاتھوں سے نکل جائیگا، مگر پھر بھی ایک سوال ہے کہ چین کیا اپنے مفادات کے لئے پاکستان کو استعمال نہیں کرے گا، ساؤتھ ایشیا کو کسی بڑی جنگ میں بھی نہیں دھکیلا جا سکتا مگر ساؤتھ ایشیا کو مستحکم دیکھنا بھی امکان میں نہیں، پاکستان اگر پابندیوں کے خوف سے باہر نکل آئے تو شائد ٹوپی سے کبوتر نکل سکتا ہے۔
0