0

چوروں کی ہیرا پھیری !

کون ہے جس نے یہ کہاوت نہ سنی ہو کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہیں جاتا!
اور پھر پاکستانی قوم کے سروں پر مسلط کئے ہوئے چور ! الامان و الحفیظ۔ یہ تو وہ ہیں جن کی رگ رگ میں، نس نس میں چوری کا خمیر ایسا رچا ہوا ہے کہ خون کے ساتھ وہ بھی ہمہ وقت ان میں گردش کرتا رہتا ہے۔
یہ کہاوت یوں یاد آئی کہ چوروں کی اس منڈلی نے ستمبر کے مہینے میں سر توڑ کوشش کی قوم کے ساتھ ایک بھیانک مذاق کیا لیکن وہ ابلیسی کوشش ناکام ہوگئی۔ ناکام بھی ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ چور اور ان کے سرپرست، جو ان سے بڑے چور ہیں لیکن کم سامنے آتے ہیں۔ وہ سہولت کار تو جی ایچ کیو میں اپنی کمیں گاہوں میں چھپے ہوئے سازش پہ سازش کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں لیکن سامنے رکھتے ہیں اپنے ان بے غیرت اور بے شرم مہروں کو جنہیں پاکستانی جمہور 8 فروری کے انتخاب میں مکمل طور پہ مسترد کرچکے تھے، انہیں ان کے کریہہ اور بھیانک خد و خال انتخابی نتائج کے آئینہ میں دکھاچکے تھے لیکن ان کے ملک دشمن سہولت کار اپنے فسطائی حربوں کے ساتھ ان کی مدد کو میدان میں کود پڑے اور پھر جو ہوا وہ ہماری موجودہ تاریخ ہے!
تو سہولت کار ان مہروں اور ٹٹ پونجیوں کے ذریعہ پاکستان کے آئین میں وہ تبدیلیاں کرنا چاہتے تھے جن کا مقصد آئین اور قوانین کو جرنیلوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنادینے کا وسیلہ ہوتے۔ ایک اور مقصد فائز عیسی جیسے بے ضمیر اور لچر منصف کو اس کی مسندِ اقتدار پہ قائم رکھنا تھا اسلئے کہ وہ ان طالع آزماؤں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے ہر ناجائز کام کو قانون کی قبا پہنانے کیلئے حاضر رہتا ہے۔
لیکن وہ مذموم کوشش ناکام ہوگئی کیونکہ دو تہائی اکثریت کیلئے نمبر پورے نہیں ہورہے تھے.لیکن چوروں کی ہیرا پھیری والی فطرت کہاں چین سے بیٹھتی ہے۔ سو رسوائی اور ہزیمت کے باوجود پھر سے مچھیرے نئے جال لیکے آنے کی تیاریاں کر رہے ہیں تاکہ آئینی ترمیمات کا شیطانی منصوبہ تکمیل تک لیجایا جائے۔
شرم و غیرت نام کی کوئی چیز ان بے شرموں میں نہیں ہے۔ شرم ہوتی تو شہباز شریف کے خلاف ابھی پچھلے دنوں جب وہ اپنے ہی جیسے بے غیرتوں کا جہاز بھر کے ٹولہ نیویارک لیکر آیا تھا لیکن نیویارک کے غیرتمند پاکستانیوں نے جس طرح اس چور کو آئینہ دکھایا تو اس میں اپنے کریہہ خد و خال دیکھنے کے بعد فوری مستعفی ہوجاتا۔ لیکن توبہ کیجئے۔ ایک چھٹ بھیے کو جس میں منشی بننے کی استعداد بھی نہ ہو اور گذشتہ دورِ اقتدار میں کی گئی کرپشن پر جو اپنی بقیہ زندگی جیل کی کال کوٹھڑی میں گذارنے کا حقدار ہو وزارتِ عظمی مل جائے، یزید عاصم منیر اور اس کے ہم جلیس ابنِ زیاد کی مہربانیوں سے تو لوہار کے بیٹے میں ایسی شرم کہاں کہ وہ اپنے منصب سے تائب ہوجائے !
شرم و غیرت تو فائز عیسی میں بھی نام کو نہیں ہے۔ شرم ہوتی تو اسی دن گھر میں اپنا سیاہ چہرہ چھپاکے بیٹھ جاتا جس دن اسلام آباد کی ایک بیکری کے نوجوان ملازم نے اسے آئینہ دکھایا تھا !
تو بے شرموں کا ٹولہ اپنے باوردی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے پھر سے آئینی پیکج کا ڈول ڈال رہا ہے اگرچہ نمبر اب بھی پورے نہیں ہیں۔ ہدف یہ ہے کہ کسی طرح جوڑ توڑ سے 25 اکتوبر سے پہلے گوہرِ مقصود مل جائے تاکہ شیطان فائز عیسی، جو اس تاریخ کو مسندِ عدل سے جدا ہونے کو ہے وہ کسی طرح رک جائے۔ یا اس کیلئے سپریم کورٹ کے متوازی اور مساوی ایک آئینی عدالت کھڑی کردی جائےتاکہ ایک طرف تو سپریم کورٹ کے پر قینچ ہوجائیں تو دوسری طرف فائز عیسی جیسے ننگِ عدالت کا ساتھ نہ ٹوٹے جو مفسدوں کے ہر غیر قانونی کام پر عدالت کہ مہر لگانے کیلئے تیار رہتا ہے!
تو نمبر پورے کرنے کیلئے فائز عیسی نے راہ ہموار کردی ہے اپنے ہی جیسے بے ضمیر چار دیگر ججوں کی مدد سے آرٹیکل 63- اے کی نئی تشریح کرکے۔
اب کوشش یہ ہے کہ عمران کی تحریکِ انصاف کے کچھ اراکینِ اسمبلی کو دھونس، دھاندلی یا رشوت سے خرید لیا جائے تاکہ گنتی پوری ہوجائے اور شیطانی ہدف حاصل ہوجائے۔
پنجاب کی فسطائی پولیس اس شیطانی کھیل میں سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ آج ایک تقریب میں مجھ سے ایک خاتون نے سوال کیا کہ کیا ان پولیس والوں کی مائیں، بیویاں یا بیٹیاں نہیں ہیں جو عمران خان کی بہنوں جیسی دیگر معزز اور خاندانی خواتین کو جیلوں میں بند کر رہے ہیں، انہیں ہراساں کرتے ہیں، نہ چادر کا احترام ہے نہ چار دیواری کا! کیا ہوگیا ہے ان پولیس والوں کو؟ کیا انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ انہیں مرنا بھی ہے اور اس منصفِ ازل کو حساب بھی دینا ہے جو فائز عیسی جیسا نہیں ہے؟
میں نے کہا کہ بی بی، یہی تو اصل مسئلہ ہے کہ نہ تو پنجاب کی پولیس کو اس بات پر ایمان ہے کہ انہیں مرنا بھی ہے اور نہ ہی ان کے وردی والے اور چھٹ بھیئے بے وردی والے آقاؤں کو! یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کامل یقین ہے کہ ان سے کوئی حساب نہیں لیا جائے گا۔ حساب کا خوف ہوتا، موت پر یقین ہوتا تو یہ حرکتیں نہ ہوتیں!
یہ وہ جاہل یزیدی ٹولہ ہے جسے یہ شعر یاد نہیں کہ
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے!
تو ابلیسی ٹولہ اپنے ہتھکنڈوں میں، ہیرا پھیری میں ہمہ تن مصروف ہے۔ دنیا کے سب سے مشہور قیدی، نمبر 804، عمران خان نیازی کے خلاف ہر وہ حربہ آزمایا جارہا ہے جو کسی مضبوط سے مضبوط تر شخص کو توڑ کے رکھ دیتا لیکن عمران میں شرافت اور شرافت سے جنم لینے والے جذبہء حریت کا جو خمیر ہے وہ اسے ان چھٹ بھیوں کے ہتھکنڈوں سے قطعا” ہراساں نہیں ہونے دیتا۔ اب اس کے قید و بند میں اسلام آباد میں اگلے چند دنوں میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بہانے سے اور سختیاں کی جارہی ہیں۔ جو کمینی فطرت کے حامل کرسکتے ہیں وہی عمران کا دشمن یزیدی ٹولہ کررہا ہے۔ اس کی کال کوٹھڑی کی بجلی بند کرکے، اس سے اہل خانہ اور دوستوں کی ملاقاتوں پر پابندی عائد کرکے۔ کمینہ صرف اوچھے ہتھیار ہی استعمال کرسکتا ہے لیکن غیرت مند اپنے عزم و حوصلہ کو حصار بنالیتا ہے اور شیطانی حربے اس کے سامنے ناکام ہوجاتے ہیں!
عمران پر عقوبت ڈھانے والے چھٹ بھیوں کو شاید یاد بھی نہیں کہ اگلے چند روز میں مشہورِ زمانہ اور مؤقر و محترم آکسفورڈ یونی ورسٹی کے چانسلر کا انتخابی عمل ہونے والا ہے جس میں عمران خان امیدواروں کی فہرست میں سب سے آگے اور سب سے نمایاں ہے۔ اس کی جیت کے امکانات سب سے زیادہ ہیں اور وہ جیت گیا تو پھر عاصم منیر اور اس کے چھٹ بھیئےحواریوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی!
اسی لئے عمران کے قریبی حلقوں کی طرف سے اس خدشے کا اظہار ان دنوں بہت ہورہا ہے کہ یزید عاصم منیر اور حواری عمران کو جیل میں ہی ہلاک کردینے کے منصوبے بنارہے ہیں۔ بناتے رہیں لیکن یاد رکھیں کہ زندگی اور موت اس کارسازِ ازل کے ہاتھ میں ہے جس کے سامنے ہر شیطانی منصوبہ یا سازش ناکام ہوجاتی ہے۔ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے!
یزیدیوں کی نحوست کس کس طور ملک و قوم کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے یہ صاحبانِ بصیرت ہی جانتے ہیں۔
عمران خان کی قیادت میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم دنیا میں سب سے آگے اور سب سے بہتر تھی۔ ورلڈ کپ جیتا تھا اس نے عمران کی کپتانی میں۔ لیکن آج چھٹ بھیئےمحسن نقوی کی نحوست پاکستانی کرکٹ ٹیم کو اس مقامِ ذلت پہ لے آئی ہے کہ اپنے ہی ملک میں 11 ٹیسٹ میچوں میں ایک میں بھی ہماری ٹیم کو کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اس کے بالکل برعکس، آٹھ (8) ٹیسٹ میچ مسلسل ہارتی آئی ہے۔ ناکامی یہاں تک ہے، زوال اس حد تک ہے کہ بنگلہ دیش جیسی ٹیم سے اپنے ہی ملک میں دونوں ٹیسٹ ہار گئی۔
لیکن بجائے اسکے کہ ٹیم کو کھلونا بنانے والے منحوس ہاتھوں کو بدلا جاتا، ٹیم کے بہترین کھلاڑی بابر اعظم کو انگلینڈ کے خلاف ہونے والے باقی ماندہ میچوں کیلئے ان فٹ قرار دے دیا گیا ہے۔ اور دو بہترین فاسٹ باؤلر، شاہین آفریدی اورنسیم شاہ کو بھی نکال دیا گیا ہے۔ اب جو ٹیم انگلینڈ کا مقابلہ کرے گی تو وہ تو شاید دو دن میں ہی ڈھیر ہوجائے گی۔ لیکن چھٹ بھیئے محسن نقوی کو زوال نہیں کیونکہ وہ یزید کی جورو کا بھائی ہے اور آپ نے وہ کہاوت تو سنی ہی ہوگی کہ:
ساری دنیا ایک طرف
جورو کا بھائی ایک طرف !
آئی ایم ایف نے ابھی چند دن پہلے جو سات ارب ڈالر کی بھیک نہیں دی بلکہ قرضہ دیا ہے، اور کڑی شرائط کے ساتھ دیا ہے اس نے بھی آئینہ بھی دکھایا ہے اور ساتھ ہی اس چوروں کی منڈلی کے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ بھی مارا ہے یہ کہہ کر کہ پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہے دوسری طرف ٹیکسٹائل کی صنعت کو جو ٹیکس کی چھوٹ اور مراعات دی جاتی ہیں انہوں نے پاکستانی معیشت کی جان نکال لی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان دنیا میں اپنی معاشی ترقی کے حوالے سے 90 نمبر پر ہے جبکہ افریقہ کے کئی ممالک اس سے بہت آگے ہیں۔ پاکستانی معیشت کی صنعتی پیداوار آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں آج سے چوبیس برس پہلے تھی۔ جنوبی ایشیا اور خطہ کی دیگر معیشتیں پاکستان سے کہیں آگے نکل گئی ہیں کیونکہ ان معیشتوں کو زمیندار اور صنعت کار دیمک کی طرح نہیں چاٹ رہے، گھن کی طرح نہیں کھا رہے۔
پاکستان میں اس چور حکومت کے تحت چالیس (40) فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے گر چکے ہیں۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر، عرب ممالک اور چین کے کرم سے اب کہیں دس پندرہ ارب ڈالر کے ہوئے ہیں جبکہ پڑوسی بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر 705 ارب ڈالر کے ہیں اور بھارت ان ذخائر کی بنیاد پر دنیا میں امیر ملکوں کی صف میں چوتھے نمبر پر آگیا ہے!
یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو غیرتمند کو شرم سے ڈوب مرنے پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن پاکستان کی بدنصیبی تو یہ ہے کہ بے غیرت، بے شرم اور بے حس چور اور ڈاکو اس پر مسلط ہیں جن کو اپنی ذات کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ملک سے لوٹی ہوئی ناجائز دولت کے انبار نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے اور انہیں کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔
یہ ہے پاکستان کو بنانے والے بابائے قوم کے پاکستان کا احوال۔ اس ایماندار ہستی کا پاکستان جو سرکاری خزانے پر ایک چائے کی پیالی کا بوجھ ڈالنا بھی گناہ سمجھتا تھا !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں