0

ڈونلڈ ٹرمپ یا کاملا ہیرس

امریکی صدارت کے لیے ڈیڑھ برس قبل شروع ہونیوالی انتخابی مہم اسوقت اتنے تغیر و تبدل سے گذر رہی ہے کہ اسکے بارے میں پنڈت‘ دانشور اورتجزیہ نگار حتمی رائے دینے سے گریز کر رہے ہیں۔جولائی میں صدر بائیڈن کو انکی اپنی جماعت کے پاور بروکرز نے بمشکل تمام اس مقابلے سے دستبردار ہونے پر آمادہ کیا۔ یہ ایک ایسا ڈرامائی واقع تھا جسکی نظیر امریکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والے واقعات ڈونلڈ ٹرمپ پر جولائی اور ستمبر میں ہونیوالے دو قاتلانہ حملے تھے۔ اب یہ تینوں واقعات ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ جولائی کا مہینہ اس لیے بھی سنسنی خیز تھا کہ اس میں تیرہ تاریخ کو ایک انتخابی جلسے میںسابقہ صدرپر قاتلانہ حملہ ہوا۔ پنسلوینیا کے شہر بٹلر میں ہونیوالے اس حملے میں گولی انکے کان کو چھوتی ہوئی گزری تھی۔ پھر جولائی ہی کی بیس تاریخ کو صدر بائیڈن نے صدارتی مقابلے سے دستبردار ہو کر نائب صدر کاملا ہیرس کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ اسکے بعد ڈیمو کریٹک پارٹی کے ووٹروں کے جوش و خروش میں اتنا اضافہ ہوا کہ کاملا ہیرس کے صدر بننے کے امکانات واضح طور پر نظر آنے لگے۔ پھر انیس سے بائیس اگست تک شکاگو میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں کاملا ہیرس نے اتنے جچے تلے انداز میں اپنے خواب‘ عزائم‘ زندگی کی کہانی اور وطن سے محبت کا تذکرہ کیا کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔اس تقریر کے فوراًبعد یہ طے ہو گیا کہ کاملا ہیرس صدر بائیڈن سے کہیں زیادہ بہتر صدارتی امیدوار ہیں۔ اسکے بعد دس ستمبر کو فلاڈلفیا میں ہونیوالے صدارتی مباحثے میں کاملا ہیرس نے واضح طور پر کامیابی حاصل کر کے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ گذشتہ ماہ کے تمام Opinion Polls کے مطابق کاملا ہیرس کو سات Swing States میں تین سے پانچ پوائنٹ کی برتری حاصل تھی۔ لیکن اکتوبر کے مہینے میں اس میدان جنگ کا نقشہ اچا نک بدل گیا ۔
گذشتہ نصف صدی میں ہونیوالے تمام امریکی انتخابات کا فیصلہ سات سونگ سٹیٹس ہی میں ہوا ہے۔ اسوقت بھی یہی نظر آ رہا ہے کہ جیسے الیکشن ان ہی سات ریاستوں میں ہورہے ہیں۔ باقی کی 43 ریاستوں کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان میں کس جماعت کا پلڑا بھاری ہے۔ سونگ کا لغوی مطلب جھولنا یا ادھر سے ادھر لنگر کی طرح ڈولنا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں اسکے کئی مفہوم بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک ’’ اٹھلاتی چال سے چلنا ‘‘ بھی ہے۔ تو اسوقت یہ سات ریاستیںاٹھلاتی چال سے چل رہی ہیں۔ لیکن ان سات وسط مغربی اور جنوبی ریاستوں میں اکتوبر میں ہونیوالے Opinion Polls ڈونلڈ ٹرمپ کو آگے بڑھتا ہوا دکھا رہے ہیں۔ رواں مہینے کے پہلے ہفتے میں ہونیوالے دو مستند پولز ‘ جن میں سے ایک The Hill ہے اور دوسرا Decision Desk HQ ہے کے مطابق ٹرمپ کو سات میں سے پانچ ریاستوں میں ایک سے تین پوائنٹ کی برتری حاصل ہے جبکہ کاملا ہیرس کو صرف دو ریاستوں میں ایک یا دو پوائنٹس کی سبقت حاصل ہے۔ اس ماہ کے پہلے ہفتے میں کاملا ہیرس چار ریاستوں میں جیت رہی تھیں۔ اب ڈیمو کرٹک پارٹی یہ کہہ رہی ہے کہ انکے امیدوار کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو گیا ہے۔ James Carville جو ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر تجزیہ نگار ہیں نے چند روز پہلے کہا ہے کہ I am freaking nervous انکا کہنا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہیرس کے پول نمبرز اچانک نیچے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کو عام ووٹر سے لیکر سرمایہ دار ڈونرز تک سب نے اتنے چندے دئے ہیں کہ اسکے پاس فنڈز کی کوئی کمی نہیںاسکے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ آجکل اپنے حامیوں پر گرجتے برستے دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ انہیں انتخابی مہم کے لئے چندے نہیں دے رہے۔ اسکے باوجود اگر کاملا ہیرس کی مقبولیت ایک جگہ پر رک گئی ہے تو اسکی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے تجزیہ نگار ڈھکے چھپے لفطوں میں کہہ رہے ہیں کہ انکے امیدوار میں کچھ ایسی کمزوریاں ہیں جو اسکی مقبولیت میں کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کاملا ہیرس میں اعتماد کی کمی ہے۔ وہ ایسے سوالات کا جواب نہیں دے سکتیں جن کے لیے انہوں نے تیاری نہ کی ہو۔ ایسے ووٹرز جنہوں نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا وہ بعض معاملات پر دو ٹوک اور فیصلہ کن بات سننا چاہتے ہیں۔ کاملا ہیرس ہر غیر متوقع اور مشکل سوال کو ٹال دیتی ہیں۔ ABC نیوز چینل کے پروگرام The View میں جب ان سے پوچھا گیا کہ صدر بائیڈن کے وہ کونسے فیصلے ہیں جن سے انہیں اتفاق نہیں۔ یہ سوال ایک ایسی دو دھاری تلوار ہے جسکا آسان جواب نہیں ہو سکتا۔ کاملا ہیرس اگر ایسے فیصلے بتا دیتیں تو صدر بائیڈن کے علاوہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ایک دھڑا بھی انکے خلاف ہو جاتا۔ انہیں اس بات کا ادراک تھا اس لئے انھوں نےیہ کہہ دیا There is not a thing that comes to mind. اور اب پنڈت یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگ جو بائیڈن کی پالیسیوں سے نالاں ہیں وہ اب کسی صورت کاملا ہیرس کو ووٹ نہیں دیں گے۔ انکی رائے میں کاملا صدر بن کر وہی کچھ کریں گی جو صدر بائیڈن کرتے رہے ہیں۔
کاملا ہیر س کی سب سے بڑی مشکل ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک Cult یا مسلک ہونا ہے۔ اسکے عقیدت مندوں اور پرستاروں کا ایک ایسا جم غفیر ہے جو اسے پرستش کرنے کی حد تک چاہتا ہے۔ یہی لوگ کوئی معاوضہ لئے بغیر اسکی انتخابی مہم چلا رہے ہیںاور ان ہی کی وجہ سے وہ ایک مرتبہ پھر وائٹ ہائوس کی طرف بڑھتا ہوا نظر آ رہاہے۔ کاملا ہیرس کی کامیابی کو ان حالات میں بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی Cult of Personality ایک ایسی فصیل ہے جسے ہیلری کلنٹن کے بعد کاملا ہیرس کے لیے بھی عبور کرنا آسان نظر نہیں آ رہا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں