0

پاکستان کیسے فتح ہوا؟

اہل پاکستان، مبارک ہو۔ ہماری فوج نے ایک پورا، ثابت ملک فتح کر لیا اور ہمیں خبر تک نہ ہوئی۔ جی ہاں۔ ہماری فوج نے ایک جہازی سائز کا ملک فتح کر لیا جس کی آبادی ۲۳ کروڑ ہے۔ کب کیا یہ ہمیں نہیں معلوم ۔ البتہ ایک دن میں فتح نہیں کیا اور بلا خون بہائے کیا۔ اب گذشتہ دو سال سے وہ اس ملک میں اپنا قبضہ مستحکم کرتی جا رہی ہے۔ اسے فتح کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوئی کیونکہ اسے مقامی سیاستدانوں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی مل گیا جو اس کے ساتھ ملکرمفتوحین کو ٹھکانے لگانے، انہیں ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے میں مدد گار ثابت ہوئے۔ انہوں نے اپنے تمام وسائل قابض فوج کے حوالے کر دیئے۔ مثلاً انہوں نے پولیس کے سب محکمہ لائن حاضر کر دیئے۔ اور پولیس کو ہدایات جاری کر دیں کہ وہ کسی قانون، ضابطے اور آئین کی پرواہ نہ کریں، بس حکم بجا لائیں۔ ان قبضہ کرنے والوں کو وہ تمام سہولتیں دی جا رہی ہیں جو کسی بھی قابض فوج کو بزور شمشیر لینا پڑتی ہیں۔ یہ پٹھو قسم کے سیاستدان اس وفاداری کے بدلے میں زیادہ نہیں کچھ مانگ رہے، بس چاہتے ہیں کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بنگلہ، گاڑی اور نوکر چاکر ملے رہیں ، وہ چھوٹے ، موٹے کمیشنوں سے اپنی جیبیں بھرتے رہیںاور اپنے دفاتر میں بیٹھ کر حکم بجا لائیں۔
اس فوج کو کسی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں۔ صرف ایک طرف سے کچھ ڈر رہتا ہے وہ یہ کہ ایک سیاسی پارٹی ان کے قابو میں نہیں آ رہی۔ انہوں نے اس کے اکثر قائدین کو جیلوں میں ٹھونس رکھا ہے۔ اگرچہ وہ سیاسی جماعت خاصی مقبول ہے۔ فوج نے غیر ملکی فوج نے غیر ملکی دبائو میں آ کر ملک میں عام انتخابات کروا دیئے،لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ عوام نے سب سے زیادہ اسی جماعت کو ووٹ ڈالے جو اس مقبول عام عوامی قائد کی تھی۔ خیر اس کا کچھ اندازہ تو تھا اور اس کا انتظام ملک کی انتظامیہ کو ساتھ ملا کر انتخابات کے نتائج کو صرف فارموں کی ہیرا پھیری سے ہار ے ہوئوں کو جتوا دیا۔ پوری کی پوری سیاسی جماعتوں کو جتوایا اور نقلی جیتنے والوں کی حکومت بنا دی۔ اب ایسی حکومت بھلا کیسے ان کی مرضی کے خلاف ایک قدم بھی اٹھا سکتی ہے؟ ان کا اقتدار منٹوں میں مٹی میں ملایا جا سکتا ہے۔ وہ چوں نہیں کر سکتے۔
اب ہماری پیاری فوج کی چاندی ہی چاندی ہے۔ انہوں نے جہاں چاہا جسے چاہا اپنے حاضر سروس اور سابق فوجی جرنیلوں کو اونچی سے اونچی کرسیوں پر بٹھا دیا ہے۔ اور ان وزارتوں پر بھی جن کے پاس نظم و نسق کا کنٹرول ہوتا ہے۔جیسے وزارت داخلہ۔انہوں نے نادرا کے دفتر کا سر براہ بھی اپنا فوجی جنرل لگا دیا ہے اس سے بڑی آسانی ہو گئی ہے کہ کوئی بھی مرد، عورت ان سے چھپ نہیں سکتا۔ منٹوں میں وہ پتہ چلا لیتے ہیں کہ کون کون ہے، اس کی فیملی میں کتنے لوگ ہیں، وہ کہاں رہتے ہیں، ان کی عمریں کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اتنا اعلیٰ انتظامی ڈھانچہ توقسمت سے ہی ملتا ہے۔ اصل میں جب ملک کا وزیر اعلیٰ ہی آپکی جیب میں ہو تو کوئی کام مشکل نہیںرہتا۔
سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ قابض فوجوں کو ڈر ہوتا ہے کہ ملک کی فوج میں سے کوئی اٹھ کر بغاوت نہ کر دے۔یہاں ایسے خطرات پر پوری طرح قابو پالیا گیا ہے۔ اس کے لیے بہت دیر سے کام کیا جا رہا تھا۔ سب سے پہلے تو جو افسر تھے ان کو اعلیٰ جگہوں پر زمینوں کے پلاٹ دیئے گئے۔ وہ ان پلاٹوں کو سویلین کو بیچ کر اچھی خاصی رقم لے سکتے تھے یا اس پر گھر ، بنگلہ بنا کر رہ سکتے تھے۔ گو ذرا بڑے افسر تھے ان کو تو دو دو تین تین پلاٹ بھی دیئے گئے، اسی لیے کہ وہ ایک کو بیچ کر اس سے دوسرے پر گھر بن سکیں۔یہ سہولیات ایسی جگہ دی گئی جہاں پوری کالونی فوجی انتظام کے ساتھ چلائی جاتی تھی۔یعنی لوگ ایسی کالونی میں گھر بنانے کا خواب ہی دیکھ سکتے تھے کیو نکہ وہاں بجلی، پانی، صفائی ستھرائی کا خاص انتظام رکھا جاتا ہے۔ اگر شہر میں ایک کنال کا پلاٹ ایک کروڑ کا ہے تو یہاں تین کروڑ میں آسانی سے بک جاتا ہے۔یہ پراپرٹی کا کاروبار اتنا وسیع اور عریض ہے کہ سارے ملک میںپھیلا دیا گیا ہے۔اب فوجی افسروں کے پاس اتنا پیسہ آگیا ہے کہ وہ ملک سے باہر بھی جائدادیں بنا رہے ہیں۔
یہ فوج اپنے افسروں کا بہت خیال رکھتی ہے۔ انہیں ملک سے باہر ٹریننگ کروانے بھجواتی رہتی ہے۔ جس سے ان کے تعلقات ان ملکوں کے فوجی افسران کے ساتھ گہرے ہوتے ہیں۔ اور وہ افسر بھی اپنے بڑوں کے مشکور اور احسان مند ہو جاتے ہیں۔جیسے امریکہ اور برطانیہ تو تقریباً ہر بڑا افسر تربیتی کورس کر کے آیا ہو تا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ تربیت نہیں وہ احسان ہوتا ہے جو اس افسر پر ہوتا ہے۔ورنہ اس ملک کو تو کبھی جنگ کرے دہائیاں گذر چکی ہیں۔ اس لیے یہ سب ٹریننگ ملک کے اندر اپنا قبضہ بڑھانے پر استعمال کی جاتی ہے۔مسئلہ کسی حد تک عام سپاہیوں کا ہوتا ہے جنہیں باہر جانے کے مواقع کم ہی ملتے ہیں۔ ان کے لیے اقوام متحدہ کا ایک پروگرام ہے جسے پیس کیپنگ فورس کا نام دیاگیا ہے۔ اس میں عام سپاہیوں کو ، جن پر خاص عنایت ہو، بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ وہاں دو تین سال خوب زر مبادلہ بھی کماتے ہیں اور مزے کر کے آتے ہیں۔ انہیں وہاں لڑنے بھڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف اقوام متحدہ کی وردی پہن کر دکھانی ہوتی ہے۔یہ زندگی اتنی عمدہ اور فائدہ مند ہوتی ہے کہ ہر سپاہی اس فورس میں جانا چاہتا ہے۔ملک کے اندر ایسی سہولتوں والی پوسٹیں کم ہی ہوتی ہیں۔لیکن کئی بے چارے اس کے انتظار میں ریٹائر بھی ہو جاتے ہیں۔جو سپاہی ریٹائر ہوتے ہیں انہیں معقول پینشن ملتی ہے۔اور اکثر یا اپنے آبائی دیہاتوں میں جا کر زمینوں کا کام سنبھال لیتے ہیں اور کچھ شہروں میں سیکیورٹی گارڈ اور چوکیدار کی نوکری کر لیتے ہیں۔ وہ بھی ٹھیک ٹھاک آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے۔
ہماری فوج اپنے افسروں اور سپاہیوں کا خاص خیال رکھتی ہے۔ ان کو مزید فائدے پہنچانے کے لیے، فوج نے آہستہ آہستہ ان شعبوں میں کام شروع کر دیا جن میں نجی شعبہ والے اپنا حق سمجھتے تھے۔ یہ اس وقت شروع ہوا جب کے فوجی مارشل لاء کے ذیعے ملک پر قابض ہو جاتے تھے۔ فوج نے اپنے سابق فوجیوں کی امداد کے لیے کارخانے بنوائے ، ہوائی جہازوں کی کمپنی بنوائی، بینک بنوا لیے،اور بھی کئی کام شروع کر لیے۔ ان تمام اداروں میں بہت سے سابق جنرلوں، کرنلوں ،بریگیڈیروں اور چھوٹے موٹے صوبیداروں کو لگا کر ایک اچھی خاصی صنعتی سلطنت بنا لی گئی ہے۔یہ سب فوجی فائونڈیشن کے نام پر ہوتا ہے۔ ان تمام کاروباروں سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ کہاں جاتی ہے، اس پر سر کھپائی کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اوپر کی آمدنی بہت سوں کا منہ بند رکھنے اور انہیں تابعدار رکھنے کے لیے کافی ہے۔سب سے بڑی بات یہ کہ ریٹائر ہونے والے وفادار فوجیوں کو اپنی وفاداری کا انعام بھی تو انہی اداروں میں ملازمتوں سے دیا جاتا ہے۔
یہ فوجی حکومتوں کا صلہ ہی تو ہے کہ ملک میں فوج نے بہت پہلے سے ہی اپنے قدم جمانے شروع کر دیئےتھے۔اب انہیں ماشل لاء لگانے ضرورت نہیں رہی۔ انہیں سب معلوم ہے کہ سویلین حکومتیں کیسے فائدے حاصل کرتی ہیں، اور بڑے بڑے منصوبوں سے بڑے بڑے کمیشن کیسے کھائے جاتے ہیں۔عوا م کوکیسے بیوقوف بنایا جاتا ہے اور ان کا خون چوسنے کے کیا کیا طریقے ہیں۔ فوج نے اپنے ہر اقتدار کے دور میںاپنی نفری بڑھوائی۔ تاآنکہ اب وہ سات لاکھ ہو گئی ہے۔ اس کے لیے حکومت وقت کو ایک بڑا بجٹ رکھنا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اتنا مالیہ اکٹھا نہیں کر پاتی کہ فوج کے ہر مطالبے کو پورا کر سکے۔ اور فوج کی ضروریات بڑھتی جاتی ہیں۔ ہر حکومت اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ وہ فوج کو نہیں بتا سکتی کہ بھائی ہمارے پاس اتنا مالیہ نہیں کہ ہم تمہاری ہر خواہش پوری کر سکیں۔اور پھر وہ کاسہ لیکر نکل جاتے ہیں ملک ملک سے ادھار مانگنے۔اب وہ وقت آ گیا ہے کہ کوئی ملک ادھار بھی دینے کو تیار نہیں۔ خدا خدا کر کے 11فیصد سود پر انگلینڈ کے بینک سے چھ سو ملین ڈالر کا قرضہ ملا ہے، آیندہ شاید یہ بھی نہ ملے۔
لیکن کوئی بات نہیں۔ اب فوج خود سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کو بلائے گی اور کئی بلین ڈالر ملک میں آ جاے گا۔
لیکن لوگوں کا منہ تو نہیں پکڑا جا سکتا۔ باتیں بنانے والے باز نہیں آتے۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اتنی فوج کی کیا ضرورت ہے؟ نہ ہندوستان ہم پر جنگ مسلط کرے گا اور نہ ہی کوئی اور ہمسایہ ملک۔ تو کیوں نہیں فوج کی نفری کم کر دیتے؟ ان لوگوں کو پتہ نہیں کہ ملک پر قبضہ کرنا ہے تو نفری تو چاہیے۔ ہمارا مطلب قبضہ نہیں، حفاظت ہے۔ بھارت سے کشمیر کا قضیہ ابھی ختم نہیں ہوا۔بھارت بلوچستان میں خانہ جنگی کروا رہا ہے، ادھر گوادر اور سی پیک کو ختم کروانا چاہتا ہے، اس لیے آئے دن چینی باشندوں پر قاتلانہ حملے ہو تے ہیں۔ دوسری طرف دہشت گردوں نے انت اٹھائی ہوئی ہے۔اس لیے فوج تو چاہیئے۔ اور مفت میں تو فوج نہیں رکھی جا سکتی۔
در اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرپٹ سیاستدان اور سول سروس مالیہ اکٹھا نہیں ہونے دیتے۔ فوج کی اپنی ضرورتیں ہیں۔عوام ٹیکس دینے سے گھبراتی ہے۔ ادھر آئی ایم ایف والے اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں۔پاکستان کا خزانہ توتقریباً خالی ہی رہتا ہے۔وہ وقت دور نہیں کہ ملازمین کو تنخواہ دینا بھی مشکل ہو جائے گا۔بیرون ملک پاکستانیوں نے زر مبادلہ کی ترسیلات بھیجنا کم کر دی ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات بھی نہیں بڑھ رہیں بلکہ درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ اب وہ وقت دور نہیں کہ ملک کو دیوالیہ کا اعلان کرنا پڑے گا۔ پھر تو لٹیا ہی ڈوب جائے گی۔اس لیے فوج کے لیے اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنا قبضہ مکمل کرلے۔ اور سیاستدانوں سے چھٹکارا حاصل کر لے۔یہ صرف فوج ڈسپلن، نظم و نسق، اور محنت ہی ہیں جو اس ملک کو بچا سکتے ہیں۔ اور یہی وہ سچی لگن ہے کہ عوام ایک دن اس کی قدر کریں گے۔
اب تک فوج نے غالباً اپنی تربیت کا پوار فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اس کے قائدین کو ٹھکانے پر لگا رکھا ہے۔ اب ہماری کوششوں سے اگر ایک آئینی ترمیم منظور ہو گئی تو سمجھیں گے کہ فو ج کا قبضہ مکمل ہو گیا۔ کیو نکہ اب صرف ایک عدالتی نظام ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہم اپنا جنرل نہیں لگا سکتے۔ اس لیے وہاں اگر ہماری مرضی کے منصف لگ جائیں تو ہمارا قبضہ مکمل ہو جائے گا۔بالکل ٹھیک۔
اگر کوئی سمجھے کہ فوج کو اپنے ہی ملک پر قبضہ نہیں کرنا چاہیئے، تو اس کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی فوجی حکومت آئی ملک میں ترقی ہوئی، اور حالات بہتر ہوئے۔ لیکن جب بھی سیاستدانوں نے حکومت سنبھالی، ہر چیز کا بیڑہ غرق ہی ہوا۔ تو اس کا مطلب صاف ہے کہ آج جب کہ پاکستان کی معیشت تباہ، اس کے ذرائع آمدنی کم اور ترقی کی رفتار سب سے کم ، تو سمجھ لیں کہ اگر فوج نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تو پاکستانیوں کا کیا بنے گا؟ تحریک انصاف کا مسئلہ اور ہے۔عمران خان کو امریکن نہیں چاہتے تو ہمیں مجبوراً اس کے اور اس کی پارٹی کے خلاف یہ بیہودہ اقدامات لینے پڑ رہے ہیں۔ اگر امریکہ بہادر اجازت دے دے تو ہم خان صاحب کو با عزت بری کر دیںگے ۔ اس لیے ہم پر کوئی الزام نہ لگائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں