آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف الیکشن ٹربیونل نے انتخابی عذرداریوں کے لئے کچھ ججز کو مقرر کیا تھا کہ وہ ان کی تحقیقات کریں اور فیصلہ دیں۔ اسلام آباد کے یہ وہ تین حلقے ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کے تینوں امیدوار ہزاروں ووٹس کی اکثریت سے جیتے تھے مگر الیکشن کمیشن نے فارم 45کے بجائے جعلی فارم 47کی بنیادوں پر پی ڈی ایم ٹو کے امیدواروں کو کامیاب قرار دے دیا۔ تینوں امیدواروں نے الیکشن ٹربیونلز میں ان نتائج کے خلاف شکایات درج کیں اور ان ٹربیونلز میں سے ایک میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیر سماعت کررہے تھے۔ جسٹس جہانگیری نے جیتنے والے پی ڈی ایم کے امیدواروں سے کہا کہ وہ اپنے اپنے فارم 45جمع کرائیں جس کے بعد حتمی طور پر ان کی کامیابی کو منسوخ کر دیاجانا تھا۔ جرنیلی ٹولے نے جسٹس طارق محمود جہانگیری پر ہر قسم کا دبائو ڈالا اور فسطائی حربے استعمال کئے مگر وہ ڈٹے رہے۔ اس کے بعد آخری حربہ فوج نے ایک شہری کی طرف سے درخواست دائر کروائی کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جامعہ کراچی کی LLBکی ڈگری جعلی ہے اور جب تک اس کی تصدیق کراچی یونیورسٹی نہیں کر دیتی، جسٹس جہانگیری کو کسی بھی کیس کی سماعت کرنے سے روک دیا جائے جس سے لازمی طور پر فائدہ ان تین حلقوں کے جعلی نتائج کے حل پر پڑنا تھا۔ قانون کے مطابق اس قسم کی تادیبی کارروائی کرنے کا اہل صرف عدلیہ کا ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل ہے مگر قاضی فائز عیسیٰ زندہ باد اور جنرل آصف منیر شاہ پائندہ باد، جسٹس جہانگیری کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی۔ فوجی ٹولے نے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر خالد محمود عراقی پر دبائو ڈالا کہ جسٹس جہانگیری کی ڈگری منسوخ کر دی جائے۔ وائس چانسلر نے یونیورسٹی کی اس حوالے سے کمیٹیوں میں سنڈیکیٹ ممبران سمیت سب پر یہ بات واضح کی تھی کہ انہیں اسلام آباد طلب کر کے یہ فیصلہ کرنے پر پریشر ڈالا جارہا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کمیٹی کااجلاس طلب کیا گیا جس کی سربراہی وی سی صاحب کررہے تھے مگر سنڈیکیٹ ممبران میں سے ایک ممبر ڈاکٹر پروفیسر ریاض احمد ایک اصول پرست انسان ہیں۔ انہوں نے پہلے تو سنڈیکیٹ پر یہ بات واضح کی کہ جسٹس جہانگیری کے خلاف یہ کارروائی یونیورسٹی کے قوانین کو بائی پاس کر کے کی جارہی ہے اور دوسری بات یہ کہ جسٹس جہانگیری کو سنڈیکیٹ میں اپنی وضاحت اور اپوزیشن واضح کئے بغیر یکطرفہ فیصلہ غیر قانونی ہو گا۔ بہرحال سنڈیکیٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ اجلاس سیٹر ڈے کو سہ پہر تین بجے جامعہ کراچی میں ہو گا جس میں یہ مسئلہ طے کیا جائے گا لیکن سہ پہر ایک بجے گھر سے اجلاس میں شرکت کیلئے جاتے ہوئے تین ویگو ڈالوں میں سوار کئی نقاب پوش نامعلوم افراد نے ڈاکٹر ریاض کو اغواء کر لیا اور وہ آٹھ گھنٹوں تک مسنگ پرسن رہے۔ اس بات کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ سنڈیکیٹ کے ممبران کو خوف کا یہ پیغام دیا جائے کہاگر انہوں نے جرنیلوں کے احکامات کی پیروی نہ کی اور ان کی مرضی کا فیصلہ نہ دیا تو انہیں بھی اس طرح سے نامعلوم افراد اٹھا کر لیجائیں گے اور وہ کبھی بازیاب نہ ہو سکیں گے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ دوسرے ملکی تعلیمی ادارے بھی اس اغواء سے سبق پکڑیں اور بلاچون چراں ان کے احکامات پر عمل کریں اور پھر ہوا بھی یہ ہی۔ اس بغیر پروفیسر کے سنڈیکیٹ کے اجلاس نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی کراچی یونیورسٹی کی ڈگری کو جعلی قرار دے دیا۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اپنے ضمیر کا سودا کر لیا اور وہ یقینا اربوں میں ہوگا کیونکہ کروڑوں کی بات کرنا تو اب پاکستان میں معیوب گردانا جاتا ہے۔ سندھ کا گورنر، کراچی یونیورسٹی کا چانسلر ہوتا ہے۔ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری کا تعلق MQMسے ہے اور وہ یوں تو بڑی بونگیاں مارتے ہیں، جمہوریت اور شہری حقوق کے علمبردار ہونے اور انسانی حقوق اور پاکستانی عوام کے خدمت گار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ اس وقت منہ میں گنگویاں ڈالے بیٹھے ہیں ان کا ضمیر سو گیا ہے ان کی زبان بند ہو گئی ہے، وہ جرنیلوں کے تھلے لگ گئے ہیں کیونکہ وہ بھی جنرل عاصم منیر کے ایک طاقتور ٹائوٹ ہیں بالکل محسن نقوی کی طرح اس کھلی ناانصافی پر وہ بے ضمیر اور بے غیرت ہو گئے ہیں چونکہ وہ بکائو مال ہیں۔ سال کے بارہ مہینے ہر وقت مہاجر مہاجر کھیلنے والی ایم کیو ایم کراچی کو علیحدہ صوبے کا دعویٰ صوبہ بنانے کی حمایتی ایم کیو ایم، کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے اس سانحے پر ایک لفظ بھی منہ سے نہ کہہ سکی۔ ماضی میں کراچی کے نامی گرامی بدمعاش اور معروف غنڈے اور بھتہ گیر گورنر کامران ٹیسوری، کاش وہ اس واقعے پر بھی ذرا سی بدمعاشی کا مظاہرہ بھی کر دیتے نہ کہ بزدلی کا نشانہ اور تصویر بنے رہتے۔ صحیح کہا ہے کہ کسی نے خوف، عہدے اور پیسے کے سامنے جواں مرد بھی نامرد بن جاتے ہیں، سب سے بڑھ کر ہمیں حیرت کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء پرہے جنہوں نے صرف ایک دن کی ہڑتال پر ہی اکتفا کر لیاہے۔ نادرہ پنجوانی اور حسین جمال جیسے سرمایہ دار ڈونرز نے تو یہ ہی کرنا تھا کہ ان کی دنیا اور دین دونوں ہی پیسہ ہیں مگرجامعہ کراچی کے سارے ڈاکٹرز اور پروفیسرز میں صرف ایک ہی مرد مجاہد پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد ہی نکلا؟ پشاور میں بچوں کے ہائی سکول میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستانی فوج کے پبلسٹی ادارے، آئی ایس پی آر نے ایک گانا ریلیز کیا تھا۔ ’’ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘۔ حافظ سید جنرل عاصم منیر احمد شاہ صاحب آپ بچوں کو کیا پڑھائیں گے، آپ نے تو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی مادر علمی درسگاہوں کو ہی اتنا گرادیا کہ اب بچے سکول جانے سے، پڑھائی کرنے سے ہی گریز کریں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ صاحب اگر آپ نے جرنیلوں کے اشاروں پر ہی چلنا ہے تو جسٹس جہانگیری کی جعلی ڈگری کی بنیاد پر ان کے پچھلے 35سالوں کے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیں۔ ہے اتنا تپڑ آپ میں؟ کہاں ممکن ہے ، آپ خود بھی تو ایک ٹائوٹ ہیں۔
0