0

پاکستانی پارلیمان میں چوہا گردی

میں پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کا مداح اور ایسے نظم حکومت سے بہت ساری امیدیں وابستہ کرنے والا ایک بے اختیار ووٹر ہوں۔ووٹر کے طور پر “بے اختیار” اس حقیقت کی وجہ سے لکھا ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن میں جیتنے ہارنے کا دارومدار ووٹرز کی حمایت یا مخالفت پر نہیں ،بلکہ “پیا من بھانے”پر مدار کرتا ہے۔پاکستان کے نظم ریاست اور امور سیاست پر متصرف “پیا لوگ” اپنی دنیا آپ پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، وہ ہمہ وقت اک جہانِ تازہ کے خواب دیکھنے اور ان خوابوں کی تعبیر تشکیل دینے میں مصروف رہتے ہیں۔وہ “پیا لوگ” عقل کے پورے بھلے سے نہ ہوں ، گانٹھ کے پورے لازماً ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ریاست میں بسنے والی مخلوق خدا جس حال میں بھی ہو ،”پیا لوگ” ہمیشہ خوشحال رہتے ہیں۔عامتہ الناس کی دشنام طرازی سہنے،اور بد دعاؤں کا ہدف بننے کے لیے انہوں نے کچھ سیاستدان رکھے ہوتے ہیں ، جن میں سے ایک وزیراعظم بنا کر اور باقیوں کو کابینہ کا حصہ شمار کرتے ہوئے “پبلک”کے سامنے سنگ ساری اور سنگ باری کے لیے کھڑا کر دیتے ہیں۔موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کو ان کی دریوزہ گری کے فن میں مہارت کی وجہ سے وزیراعظم رکھا گیا ہے ،انہوں نے بھی اپنی شکل سے مناسبت رکھنے والے چند جملے یاد کر رکھے ہیں ،ان جملوں کو وہ اتنی بار دھرا چکےہیں کہ اب انہیں دور ہی سے دیکھ کر غیر ملکی سربراہان اپنا راستہ بدل لیتے ہیں ۔ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے ایک جرمن خاتون منسٹر وزیراعظم سے طے شدہ ملاقات کرنے کے لیے آرہی تھی، پھر جو بھی ہوا ، وہ راستے سے پلٹ گئی کہ میں نہیں ملتی وزیراعظم سے۔سنا ہے کہ اسے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر واپس آنے اور مل لینے پر آمادہ کیا گیا۔ملک میں پارلیمان کی ہر اہم معاملے میں مکمل خاموشی اور قانون سازی سے عدم دلچسپی کے علاوہ سستے کھانے کھا کر، مہنگی مراعات حاصل کرنے والے اراکین پارلیمان کے ڈرے سہمے رہنے کی اصل وجہ سامنے آگئی ہے۔اور وہ وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ ؛ انسانوں کے ووٹوں سے انسانوں کے لیے قانون سازی کرنے کی خاطر بنائی گئی پارلیمنٹ پر ایک مدت سے چوہوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ اگرچہ پاکستان میں اُردو ادبیات پر تحقیق و تنقید حد سے زیادہ ترقی کر چکی ہے، بلکہ پاکستان میں اب اُردو میں تحقیق کا عمل مابعد الطبیعیات تک جا پہنچا ہے ، پھر بھی یہ بات ہنوز تشنہ تحقیق ہے کہ؛چوہے اُردو کے نامور شاعر میر تقی میر کے اشعار اور ان اشعار میں اَرزاں کی گئی ہدایات کا مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں ؟ ہر چند پارلیمنٹ میں ان چوہوں کا زیادہ سروکار سرکاری دستاویزات ہی سے رہتا ہے ۔بلکہ شاید یہ بات سچ ہو کہ ؛ پوری دنیا میں ” دستاویز خور” چوہے ہماری پارلیمان ہی میں پائے جاتے ہیں۔شاید اسی دستاویز خوری کے باعث چوہے اپنے آپ کو راز میں نہ رکھ پائے۔اگر وہ میر تقی میر کا مطالعہ کرنے پر قادر ہوتے،تو اس شعر سے کچھ نہ کچھ تو سمجھ ہی سکتے تھے؛کسی کے واسطے رسوائے عالم ہو ،پہ جی میں رکھ کہ مارا جائے :جو ظاہر کرے اس راز پنہاں کو:اب یہ راز پنہاں جونہی عیاں ہوا تو خواب خرگوش کے مزے لیتی حکومت کروٹ لے کر بیدار ہوئی اور اسپیکر قومی اسمبلی نے وفاقی ترقیاتی ادارے عرف سی ڈی اے کو ان چوہوں سے مقابلہ کرنے اور یہ مقابلہ لازمی طور پر جیتنے کا حکم دیا ہے ۔ معتبر تو خیر نہیں کہہ سکتے ،ہاں باخبر ذرائع کے مطابق چوہوں کی توجہ کا مرکز پارلیمنٹ ہاؤس کی پہلی منزل ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ کی اس پہلی منزل پر وہ معروف کنٹین بھی واقع ہے ،جہاں حیرت انگیز ریٹس پر کھانے پینے کے سامان اور پکوان دستیاب ہوتے ہیں ۔ویسے تو ہر کنٹین اپنے حصے کے چوہے رکھتی ہے، اور ان کو قانون قاعدے کے اندر رکھنے کے لیے کنٹین والے بلیاں بھی پال لیتے ہیں ۔لیکن پارلیمنٹ کے چوہوں کو عام چوہے شمار نہیں کرنا چاہیئے۔یہ اپنی خوراک کے لیے کسی کنٹین کے بچے کھچے کھانوں کے محتاج نہیں ہوتے۔پہلے یہ جان لیجئے کہ پارلیمنٹ کی پہلی منزل پر ہوتا کیا کیا ہے؛ اس پہلی منزل پر سینیٹ آف پاکستان میں قائد حزب اختلاف کا دفتر قائم کیا گیا ہے۔ اسی منزل پر مختلف وزارتوں کی قائمہ کمیٹیوں کے دفاتر بھی ہیں ۔ اسی منزل پر بہت سارے کمیٹی رومز بھی قائم کئے گئے ہیں جہاں نہ صرف سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں، بلکہ مختلف وزارتوں کی قائمہ کمیٹیاں بھی اپنے اجلاس اسی پہلی منزل پر منعقد کرتی ہیں۔اور وہ منزل بھی یہی ہے جہاں پر پارلیمنٹ کا اہم ریکارڈ ذخیرہ کیا جاتا ہے۔میں ستم ظریف کے اس گمان سے تو متفق نہیں ہوں کہ پارلیمنٹ کی حساس دستاویزات کی حفاظت پر مامور عملے نے ان چوہوں “افسران بکار خاص” مقرر کر رکھا ہے، لیکن ان چوہوں کی دستاویز خوری کی عادت نے کئی ایسے سوالات کو جنم ضرور دے دیا ہے کہ جن کے جواب کبھی نہیں ملیں گے ۔حدود پارلیمان میں چوہوں کی موجودگی اور خوشحالی کا راز اس وقت افشا ہوا جب وفاقی وزارت برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی قائمہ کمیٹی نے وزارت سے متعلقہ کسی معاملے پر 2008ء کا ریکارڈ طلب کیا۔ لیکن اس ریکارڈ کو تلاش کرنے کی کوشش میں جو کچھ پارلیمنٹ کے ریکارڈ روم سے دستیاب ہو سکا، اس ریکارڈ کا زیادہ تر حصہ تو چوہوں کے نظامِ انہضام کا حصہ بن کر تلف ہو چکا تھا۔ ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکا کہ چوہوں کی دستاویز خوری پر پارلیمنٹ کا متعلقہ عملہ ناراض ہے یا حد درجہ خوش۔؟ لیکن ان چوہوں کو یہاں سے نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کی ذمہ داری کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سپرد کرنے پر ستم ظریف مطمئن نہیں ہے، وہ کہتا ہے کہ ؛ یہی ذمہ داری ایک اور محکمہ زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتا تھا۔شاید ایسا ہی ہو ،لیکن کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو اس کے ساتھ ہی جو دوسری ذمہ داری سونپی گئی ہے ،وہ شاید کوئی دوسرا ادارہ پوری نہ کر سکتا ہو۔وہ ذمہ داری چوہوں کو قید کرنے کے لیے پنجروں کے علاوہ تنومند بلیوں کا انتظام کرنے کی ہے۔اب بلیوں کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ ان کتوں جیسے چوہوں کے مقابلے پر بلیوں کو لانا بھی کسی سازش کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔ایک عمر رسیدہ بلی کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والی سازشوں کا آخری ٹھکانہ ہمیشہ پارلیمنٹ ہی ہوا کرتی ہے۔ایسے میں اپنے قد کاٹھ سے کتے نظر انے والے چوہوں کے مقابل میاوں میاوں کرنے والی بلیوں کو لانا کسی طور سودمند ثابت نہیں ہو سکتا ۔ اسی عقلمند بلی نے یہ بھی کہا کہ اب زمانہ میاوں میاؤں سے بہت آگے نکل چکا ہے۔اب اگر میاں لوگ سوچتے ہیں کہ ان کی ضرورت اور افادیت باقی ہے تو یہ فریب عقل وفہم کے سوا کچھ اور نہیں۔اس زیرک بلی کی باتوں سے متاثر ہو کر ستم ظریف نے قیاس ظاہر کیا ہے کہ میاں لوگ اینڈ کمپنی کو مارشل لاءکا سول چہرہ سمجھ کر اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ ؛ ن لیگ اور پی ٹی آئی کا باہم معاملہ سوتن والا ہے۔ ان کے ساتھ کھیل رچانے والےآج کل پھر سے تقریر کرنے کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ ؛ دو شادیوں والا جب زیادہ بولنا شروع کردے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ پھر سے دلہا بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔جہاں تک پارلیمان میں چوہوں کی موجودگی ،تصرف اور مصرف کا معاملہ ہے،یہ اس ملک میں شاید کبھی ختم نہ ہو سکے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں