0

آنکھیں روزن میں!

تاریخ کہتی ہے کہ انگلینڈ نے تین سو سال تک چرچ سے جنگ کی، ایسا نہیں تھا کہ پارلیمنٹ اور چرچ کی لڑائی میدان جنگ میں رہی ، دو بدو لڑائی کے ساتھ ساتھ یہ جنگ کاغذ پر بھی لڑی گئی، چھاپہ خانہ ایجاد ہو چکا تھا ہر شہر میں چھوٹے بڑے اخبار نکلتے تھے ، اخبار نئی چیز تھی اس لئے لوگ شوق سے پڑھتے تھے ، شہر کے اندر چائے خانوں اور شراب خانوں میں اخبار پڑھ کر سنائے جاتے خبروں پر گفتگو ہوتی دلائل دیئے جاتے یہ سلسلہ روز ہی چلتا، اس سے مکالمے کا ماحول بنتا چلا گیا، ہمارے ہاں ظل اللہ کا نظریہ تھا اسی سے متاثر ہو کر مغرب میں DIVINE RIGHTS OF KING اخذ کیا گیا، ہمارے ہاں خلیفہ وقت کی لامحدود طاقت پر بات کرنا جرم تھا امام ابو یوسف نے اولوالامر کا فتوی دے کر خلیفہ کی لامحدود طاقت کو معتبر ٹہرایا جس نے اس سے انحراف کیا اس کی گردن گئی چرچ بھی اپنے مخالفین کو زندہ جلا دیا کرتا تھا، مگر چرچ کے خلاف تلوار اور بندوق سے زیادہ قلم نے خدمات انجام دیں، اور ذہن بنتا چلا گیا، ایک ایسی تہذیب بنی جہاں برداشت تھی، بات کو سننے اور بات کہنے کا سلیقہ ملتا چلا گیا، چرچ کے پاس سوائے عقیدے کے کچھ نہ تھا، دلیل تو قطعاً تھی ہی نہیں ، لہٰذا اس معاشرے میں جمہوری روایات بنیں پڑھے لکھے لوگ تھے مکالمہ کے ہنر سے واقف تھے اس طرح قانون کا احترام ذہن نشین ہوا، مشینی دور میں معاشرہ داخل ہوا تو زندگی میں نظم و ضبط آتا چلا گیا، جب پارلیمنٹ کو اختیارات ملے تو مسائل پر سنجیدہ گفتگو ہوئی اور پارلیمنٹ سے باہر بھی جو دلیل دی گئی اس کا بھی احترام کیا گیا، یہاں تک کہ مغرب سترھویں صدی میں داخل ہوگیا اس صدی میں انسان کو ایجاد کیا گیا انسان کے حوالے سے گفتگو کی گئی نظریات تراشے گئے اورلوگوں نے ان نظریات سے اتفاق کیا، انسان کی حفاظت، انسانی حقوق کی پاسداری، اور ایک پر امن معاشرے کی تعمیر ہوتی چلی گئی یہ کم و بیش چار یا پانچ صدیوں کا سفر تھا، مجھے نہیں معلوم کہ ان پانچ صدیوں کے دوران تعلیم اور صحت موضوعات تھے حکومتوں نے بلا تخصیص عوام کو تعلیم کی سہولیات دیں اور صحت پر کام ہوا، یہ ضرور ہے کہ نظام کو بہتر بنانے کے لئے ادیبوں اور شاعروں نے قابل ذکر کام کیا اور حکومتیں ان کی روشنی میں نظام میں تبدیلیاں کرتی چلی گئی ، جب سے مغربی معاشرے پر CAPITALIST پنجے گاڑے ہیں، فرد کا استحصال ہوا ہے مگر فرد کے استحصال پر مستقل بات ہو رہی ہے اور اب ہم FEMINIST دور تک آ پہنچے ہیں ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے تقریباً 150 سال حکومت کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ملک میں اسکول سڑکیں اور ہسپتال بھی بنائے ، حکومت برطانیہ نے ہندوستان پر کنٹرول 1858 میں سنبھالا، اگر جنگ عظیم اوّل اور دوم نہ ہوتیں تو ممکن ہے برطانیہ ہند میں قیام کرنے کی سوچتا مگر جنگ عظیم اول کے بعد ہی ALL INDIA NATIONAL CONGRESS کا قیام عمل میں آچکا تھا، گویا یہ اشارہ تھا کہ برطانیہ ہندوستان ہندوستانیوں کو سونپ دے گا، ہمارے ہاں جمہوریت آئین، سیاست، سیاسی جماعتوں کے تصورات آناً فاناً آئے، برطانیہ پر اس کے شاعروں اور ادیبوں کے اثرات بہت زیادہ ہیں، شائد انگریزوں نے سوچا ہو کہ ہندوستان پر غالب کے نظریات ہونگے مگر ایسا نہ تھا، ایران میں رومی اور سعدی کے اثرات تو تھے کیونکہ وہ مذہب سے قریب تھے مگر رازی اور حافظ کے اثرات نہ تھے ہند میں شاعر مشاعروں تک محدود تھے، شاعری کے اثرات زندگی پر ہر گز نہ تھے ، غالب، مومن، یگانہ کے اثرات ہوتے تو انسانی اقدار کا چرچا ہوتا، ہندوستان کی سماجی حالت دیکھ کر ہی لارڈ ڈلہوزی نے حکومت برطانیہ کو مراسلہ روانہ کیا تھا کہ ہندوستان پر تین قبریں حکومت کرتی ہیں جب کہ شیلے نے لکھا کہ POETS ARE THE UNANNOUNCED LEGISLATURES OF THE WORLD اس کا اطلاق نہ بھارت پر ہوتا ہے نہ پاکستان پر بھارت کہنے کو ایک سیکولر جمہوریہ ہے مگر سیاست پر مذہب کی گہری چھاپ ہے، پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر یہ اسلامی ہے نہ جمہوریہ پاکستان بننے کے بعد کیمونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی گئی مگر ترقی پسندی پر بات ہوتی رہی، مگر اس دوران مذہب پرست ادیبوں اور افسانہ نگاروں کو بہت عروج ملا اس تحریک کے بانی قدرت اللہ شہاب تھے اشفاق احمد اور ممتاز مفتی نے بھی نام کمایا، کچھ جرائد ترقی پسندی کی بات کرتے رہے جن میں احمد ندیم قاسمی کا فنون بھی تھا مگر آخر قاسمی صاحب بھی COMPROMOSED ہو گئے مذہب پرست ادیبوں نے جو کچھ لکھا اس کی حکومتوں اور مذہبی حلقوں میں پذیرائی ہوئی ، مذہبی جماعتوں کا میڈیا اور حکومتوں پر اس غلبہ ہے کہ ترقی پسندانہ بات بھی کفر کے زمرے میں آچکی ہے اور میڈیا کی مجال نہیں کہ روشن خیالی کی بات کر سکے، سیاست دانوں اور مقتدرہ کی سر پرستی بھی ان کو حاصل ہے،حکومتوں کی تعلیمی پالیسی میں ،حکومتوں کی تعلیمی پالیسی میں THOUGHT PROVOKING MATERIAL کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لئے MODERNISM/POST MODERNISM جیسی تحریکوں سے طلباء ناواقف ہیں کچھ طلباء نے خارجی طور پر اس کا مطالعہ کیا مگر نصاب میں ان تحریکات کو پڑھنے کا مطلب یہ کہ نوجوان ان کو سمجھیں اور عملی زندگی میں برتیں مگر ایسا نہ ہو سکا اس کے برعکس لوگوں کو یہ بتایا کہ کورونا کا علاج یہ ہے کہ قرآن پڑھا جائے اور نماز ادا کی جائے رزق کی فراوانی کے وظیفے بھی یاد کرائے گئے، اس طرح قرار دادِ مقاصد کے تقاضے پورے ہوئے اور اب حال ہے کہ کوئی شخص لاجک پر بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے روزِ اوّل سے پاکستان کا مسئلہ معاشی تھا پاکستان جب بنا تو ہندوستان نے پاکستان کے حصے کا اثاثہ نہیں دیا، اور یہ کہا کہ پاکستان چھ ماہ بھی SURVIVE نہ کر پائیگا بہر حال ہم زندہ رہے وسائل کا منصفانہ استعمال اگر ہوتا تو ترقی کی راہیں نکل سکتی تھیں پاکستان کی سیاسی تاریخ بہت گھناؤنی ہے 1956 تک شیروانی بریگیڈ ملک پر مسلط رہا ان میں سے کسی کو معاشیات کی ابجد بھی نہ آتی تھی پھر ملک کو مارشل لاؤں نے گھیر لیا جز لز کو جنگوں کا شوق تھا تین جنگیں لڑ لیں آدھا ملک گنوادیا، کارگل میں رسوا ہوئے مگر شوق حکمرانی نہ گیا، فوج کے ایک اعلیٰ افسر سے پوچھا کہ جز لز کو تقریریں کون لکھ کر دیتا تھا تو بولے سول سروس کے لوگ ، بیورو کریٹس کو کبھی نوکر شاہی کہا جاتا تھاوہ فوج کے نوکر بن گئے اور عدلیہ بھی کنیز بن گئی ، اب حال یہ ہے کہ فوج سیاست دان عدلیہ اور بیورو کریٹس سے ملک نہیں چل رہا، پچھلے کالم میں DEEP STATE کا ذکر ہوا تھا، یہ غیر مرئی ہاتھ ہیں، آئی پی پیز کے معاہدے کچھ چین کے ساتھ بھی ہوئے ہیں چین بھی ملک کو لوٹنے میں شامل ہے یہ اہم سوال ہے مگر اس کا سادہ سا جواب ہے کہ حکومتِ پاکستان نے چین سے معاہدے کئے ہیں اور پاکستان ان معاہدوں کا پابند ہے معاہدے تو اب سامنے نہیں ہمیں تو یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں ملک سے وفد آیا تھا اور باہمی دلچسپی کے معاملات پر بات ہوئی اور انہوں نے کہا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ بڑی بہادری سے لڑی ہے اس کے علاوہ ہمیں کچھ پتہ نہیں مگر اتنا پتہ ہے کہ چین کا ایک معاہدہ سری لنکا سے ہوا تھا سری لنکا قرض ادا نہ کر سکا اور سری لنکا کو ایک بندر گاہ ایک طویل عرصے کے لئے چین کے حوالے کرنی پڑی ۔۔ معاہدے کے تحت، ہمارے بھی بہت سے معاہدے چین کے ساتھ ہیں خدا جانے کیا ہیں بجلی گھروں کے معاہدے کے بارے میںاویس لغاری چین جا رہے ہیں کیوں؟ خدا جانے، چینی بنکوں سے بھی بھاری شرح سود پر قرض لے رکھا ہے ہر سال ROLL OVER ہوتا ہے سنا ہے چینی بنکوں سے معاہدے کے بارے میں پاکستانی اہل کار نے چینی بنکوں سے شرح سود کم کرنے کو کہا تو چینی افسر نے پوچھا آپ کے اسٹیٹ بنک نے شرح سود کیا مقرر کی ہے اس بات کا جواب نہ تھا بہر حال مریض کے لئے دعا کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں