ٹرمپ کی فتح کو امریکی تاریخ کا سب سے بڑا Political Comeback کہا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے کسی سابقہ امریکی صدر نے چار سال کے وقفے کے بعداتنی بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ اقتدار حاصل نہیں کیا۔ گذشتہ ہفتے کے الیکشن کو سب سیاسی پنڈت انیس بیس کا مقابلہ کہہ رہے تھے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف الیکٹورل کالج میں 312ووٹ حاصل کر کے تمام اندازے غلط ثابت کئے بلکہ اس نے ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس سے پاپولر ووٹ بھی زیادہ لیکر مخالفین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ گذشتہ بیس برس میں ریپبلیکن پارٹی نے کبھی بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے زیادہ پاپولر ووٹ نہیںلیے۔ یہ سب بجامگر ٹرمپ کی فتح کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے میدان چھوڑ دیا ہے۔ اگر دونوں امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب دیکھا جائے تو ان میں کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ کملا ہیرس نے الیکٹورل کالج کے 226 ووٹ حاصل کیے اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے اعدادو شمار کے مطابق اس نے 72,343,265 پاپولر ووٹ حاصل کئے۔ اسکے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے 75,485,711 پاپولر ووٹ حاصل کئے۔ یوں آخری تجزئے میںمنتخب صدر نے اپنے مد مقابل سے تقریباًتین ملین ووٹ زیادہ حاصل کیے۔ سینٹ میں ریپبلیکن پارٹی سو میں سے باون سیٹیں لیکر برتری حاصل کر چکی ہے اور ایوان نمائندگان میں بھی اسکی جیت کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ڈونلڈ ٹرمپ اگلے چار برس تک ایک طاقتور صدر کے طور پر حکومت کریں گے ۔ الیکشن کے بعدشکست خوردہ جماعت کے حامی کیا کہہ رہے ہیں‘ وہ کس موڈ میں ہیں۔ انکے کیمپ میں سوگ کا سماں ہے‘ مایوسی ہے یا غصے اور ہیجان کا غلبہ ہے ان سوالات کے جواب میں میں اپنی رائے اور تجزیہ دے سکتا ہوں مگر میں نے ایک امریکی اخبار میں قارئین کے چند ایسے خطوط پڑھے ہیں جو امریکی عوام کی سوچ کی براہ راست عکاسی کرتے ہیں۔ ان خطوط میں جذبات کی گرمی بھی ہے‘ حقیقت کا اعتراف بھی اور اندیشہ ہائے دور و دراز بھی۔ یہ خطوط سات نومبر کے دی نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے پہلا خط Judith Adams نے اوہائیو سے لکھا ہے۔ انکے خط کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔’’ میں آج صبح جاگی تو امریکہ ایک مختلف ملک تھا۔ آٹھ سال تک مسلسل ڈونلڈ ٹرمپ کے جھوٹ‘ طعن و تشنیع ‘ غصے اور نفرت کو دیکھنے اور سننے کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہاں‘ ہمیں یہی کچھ چاہیئے اور زیادہ چاہیئے۔اب وہ خوشامدی اور چاپلوس لوگوں کی فوج کیساتھ وائٹ ہائوس میں داخل ہو گا۔ وہ ایک ایسے وقت میں اقتدار سنبھالے گا جب دنیا خطرناک مسائل سے دو چار ہے اور کرہ ارض ماحولیاتی تباہی کی زد میں ہے۔ اسے طاقت کے تمام ایوانوں پر مکمل کنٹرول حاصل ہو گا۔ ایسا صرف اس لئے ممکن ہوا کہ ہم نے کہا کہ ہاں ہمیں یہی کچھ چاہیئے اور زیادہ چاہیئے۔ اس انتخابی مہم کے دوران اسکی تقریریں سنکر مجھے Maya Angelou کا یہ مقولہ یاد آیا کہ کوئی اگر یہ کہے کہ میں ایسا ہوں تو ہمیں پہلی مرتبہ ہی اسکی اس بات کا یقین کر لینا چاہیئے۔ چلو اچھا ہوا امریکہ‘ تم نے ہمیں بتا دیا کہ ہم کون ہیں۔ افسوس کہ یہ کوئی اچھا منظر نہیں ہے۔ ‘‘
لیٹر ٹو دی ایڈیٹرز میں ریاست Maine کے شہر Portland سے Jo Trafford نے لکھا ہے ’’ بے یقینی؟ کوئی بے یقینی نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہی کرے گا جو اسنے کہا ہے۔ آپکو لسٹ چاہیئے؟ وہ ہر اس شخص سے انتقام لے گا جس نے اسکا احتساب کیا۔ وہ لاکھوں کی تعداد میں ان تارکین وطن کو واپس بھیجے گا جو ہماری خوراک کی صنعت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ وہ ٹرانس جینڈر لوگوں کو واپس تاریکی میں دھکیل دے گا۔ وہ اپنے دشمنوں کو گرفتار کرنے کے لیے فوج کو استعمال کرے گا۔ وہ یوکرین کے مقابلے میں روس کااور فلسطین کے مقابلے میں اسرائیل کا ساتھ دے گا۔ اور اس مرتبہ اسے روکنے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔ MAGA سینٹ‘ MAGA ہائوس اور ایک قدامت پسند سپریم کورٹ اسکے ہر وعدے کو پورا کر دے گی ۔ وہ ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کرے گا جو اس سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ اب ہمیں منصوبہ بندی کرنا ہو گی کہ ہم اپنی آئینی ریپبلک کی کسیے حفاظت کریں گے۔ اس جھنجھٹ میں نہ پڑیں‘ اس دھوکے میں نہ آئیں کہ ٹڑمپ کے دور میں بے یقینی ہو گی۔وہ وہی کرے گا جو اس نےکہا ہے۔ یہ ہمارا خرابہ ہے۔ امریکی عوام نے ایک نہایت خطرناک آدمی کو صدر منتخب کیا ہے۔ Stop being so damn polite.‘‘
نیو یارک سے Stuart Gottlieb نے لکھا ہے’’ ہم جان گئے ہیں کہ ہماری قوم اتنی منقسم نہ تھی۔ ہم ریپبلیکن لہر کے لیے تیار تھے۔ ریپبلیکن پارٹی نے نہ صرف ملک کے ہر حصے میں کامیابی حاصل کی ہے بلکہ اس نے لاکھوں کی تعداد میں ایسے ووٹ بھی حاصل کئے ہیں جو روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کو ملتے تھے۔ ان ووٹروں میں نوجوان ہسپانوی اور سیاہ فام شامل ہیں۔ اب یہ سوال باقی رہ گیا ہے کہ کیا ڈیمو کریٹک پارٹی اور قومی میڈیا میں اسکے حمایتی اس الیکشن سے کچھ سبق سیکھیں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ امریکی عوام کیا چاہتے ہیںاور امریکی جمہوریت کیسے آگے بڑھتی ہے۔ باراک اوباما کی کامیابی کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی نے معاشی‘ کلچرل اور ماحولیاتی مسائل کے بارے میں بائیں بازو کی انتہا پسند پالیسیوں کو فروغ دیا اور اسنے ڈونلڈ ٹرمپ کی کردار کشی میں خاصا وقت ضائع کیا۔ یہ جمہوریت کی موت کا ڈھنڈورا بھی پیٹتی رہی مگر2024 کے الیکشن نے یہ سب کچھ غلط ثابت کردیا۔‘‘ اس صفحے پر شائع ہونیوالے دس خطوط میں سے آٹھ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہیں اور دو اسکے حق میں ہیں۔
0