0

!پی آئی اے

وطن کا قرض
خزاں نے پھول، کلی، پات کچھ نہیں چھوڑا
چمن کو خون سے سنوارو کہ بات بن جائے
ہماری قوم کا ایک ایک فرد ہے مقروض
وطن کا قرض اتارو کہ بات بن جائے!

ایک زمانے میں ایشیا کی سب سے زیادہ فعال، پسندیدہ اور باکمال ایئرلائن پی آئی اے تھی۔ اس کا نعرہ تھا ’’باکمال لوگ لاجواب پرواز‘‘ اس ایئر لائن نے ایمرٹس جیسی ایئر لائن بنائی۔ کچھ اور ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ میں ایئر مالٹا ترتیب دی۔ پاکستان اس ایئر لائن میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور بڑے فخر سے کہتے تھے کہ یہ ایئر لائن پاکستان کی ہے۔ ہم یہاں پی آئی اے کی کارکردگی کا ایک واقعہ لکھنا چاہتے ہیں۔ غالباً 80ء کی دہائی میں کراچی سے ایک پرواز لندن پہنچی۔ مسافر حسب معمول جہاز سے اتر کر اپنے سامان کا انتظار کرنے لگے۔ جب بہت دیر تک سامان بیلٹ پر نہیں آیا تو مسافروں کو فکر ہوئی کہ سامان کہاں ہے۔ بھاگ دوڑ کے بعد معلوم ہوا کہ جہاز میں سامان اتارنے کا حصہ ’’لوک‘‘ ہو چکا ہے اور کسی طرح کھل نہیں پارہا۔ لندن ہیتھرو کے عملے نے بھی بھرپور کوشش کے بعد ’’ہاتھ کھڑے کر دیے‘‘ پی آئی اے نے اس پرواز سے آنے والے مسافروں سے معذرت کی اور اطلاع دی کہ جوں ہی پرواز کا سامان والا دروازہ کھلے گا سامان مل جائے گا۔ مسافر اپنے گھر جائیں تو ان کا سامان گھر پہنچا دیا جائے گا۔ پھر یہی ہوا کہ جہاز اسی حال میں کراچی پہنچا وہاں اس کا دروازہ کھولا گیا اور اگلی پروازسے سامان لندن پہنچا اور سامان لوگوں کے گھروں تک پہنچا دیا گیا۔ ہم نے پی آئی اے کی اس کارکردگی پر ایک کالم بھی لکھا جس کا عنوان تھا ’’ پی آئی اے زندہ باد‘‘ رفتہ رفتہ پی آئی اے چیرہ دستیوں اور منفعتوں کا شکار ہو گئی۔ جو حکومت بھی آئی اس نے اپنے لوگوں کو بے تحاشا بھرتی کرنا شروع کر دیا اور ایئر لائن رفتہ رفتہ زوال پذیر ہو گئی۔ کئی حکومت نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن بوجوہ اس امر میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ عمران خان صاحب کی حکومت میں ایک بڑا ظلم یہ ہوا کہ وزیر ہوا بازی نے ایک اعلان فرما دیا کہ پی آئی اے میں بیشتر پائلٹ تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ وہ غیر معیاری طور پر بھرتی کر لئے گئے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں کہ ان کے بدلے پائلٹس کے امتحان میں دوسرے لوگوں نے پرچے حل کئے ہیں۔ اس نہایت خطرناک، نقصان دہ اور حیرت انگیز بیان نے پی آئی اے کی کارکردگی پر کاری ضرب لگائی اور مغرب میں پی آئی اے کی پروازیں بند کر دی گئیں۔ صاحبان فکر کا کہنا ہے کہ اگر وزیر ہوا بازی کو علم ہوا تھا کہ کچھ غیر تربیت یافتہ پائلٹس جہاز چلارہے ہیں تو ملکی مفاد میں اس مسئلے کو بہت احتیاط سے حل کرنا چاہیے تھا۔ کم از کم دو دہائیوں سے پی آئی اے مستقل خسارے میں جارہی ہے اور اس کاحال بھی سٹیل مل جیسا ہو چکا ہے۔ مستقل خسارے کے پیش نظر موجودہ حکومت نے بادل نخواستہ پی آئی اے کو نیلام کرنے کا فیصلہ کیا اس سلسلے میں کئی میٹنگز کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ پی آئی اے کو تقریباً 80ارب میں نیلام کر دیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تین اداروں نے شروع میں دلچسپی کا اعلان کیا اور بعد میں دو کمپنیاں غائب ہو گئیں اورایک کمپنی نے صرف 10ارب پی آئی اے کی قیمت لگائی۔ اب پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور سابق وزیراعظم محترم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ پنجاب کی موجودہ وزیراعلیٰ پاکستان میں ’’پنجاب ایئر لائن‘‘ کے نام سے ایک ایئر لائن شروع کرنے جارہی ہیں اور پی آئی اے کو خریدنے کی بات بھی ہورہی ہے۔ فی الوقت حکومت پنجاب نے پی آئی اے کو خریدنے کے معاملے کی تردید کی ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ حکومت پنجاب آج نہیں تو کل پی آئی اے کو خریدے گی۔ ادھر خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اعلان کیا ہے کہ ہماری حکومت پی آئی اے کو خرید کر چلائے گی۔ موضوعی حالات میں ہمیں نظر نہیں آتا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کوئی ایسا قدم اٹھا سکتی ہے۔ پنجاب ایئر لائن شروع کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس ایئر لائن میں حکومت کے شیئرز بھی ہوں گے۔ ان حالات میں قرائن کہہ رہے ہیں کہ پنجاب ایئر لائن ہی پی آئی اے کو اونے پونے خریدے گی۔ اب بات قابل غور یہ ہے کہ پی آئی اے کتنے میں فروخت کی جائے گی۔ صرف 10ارب کی قیمت تو اس ذیل میں بہت ہی مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ قوم شدت سے منتظر ہے کہ اب پنجاب ایئر لائن پی آئی اے کی کیا قیمت لگاتی ہے اور پی آئی اے کے موجودہ ملازمین کے تحفظ کا کیا لائحہ عمل ترتیب دیتی ہے۔ ہم یہی دعا کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہو وہ ملک کے لئے اور قوم کے لئے بہتر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں