0

محافظ جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں !

بلوچستان جل رہا ہے لیکن وہ جو اپنے منہ میاں مٹھو خود کو پاکستان کے محافظ کہتے ہیں اور جبر کے تابع اپنی کٹھ پتلیوں سے بھی یہی کہلواتے ہیں کہ ہمارے جرنیل ملک کے محافظ ہیں ، اپنی شعبدہ بازی اور بازی گری میں ایسے ہمہ تن مصروف و مشغول ہیں کہ انہیں اس کے سوا کسی اور چیز کا ہوش نہیں، کوئی ادراک نہیں۔ ان شعبدہ گر جرنیلوں کی تمام تر توجہ کا مرکز یہ ہے کہ عمران خان کو ہر حالت میں پابندِ سلاسل رکھا جائے اور کسی صورت اسے قید و بند سے نکلنے نہ دیا جائے !
کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر جو حادثہ ہوا، حادثہ نہیں بلکہ سانحہ رونما ہوا، وہ اتنا سنگین اور ہولناک تھا کہ اس نے دنیا بھر کے نیوز میڈیا کو چونکا دیا۔ دنیا کا شاید ہی کوئی نشریاتی ادارہ ہو جس نے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بم کے خودکش دھماکہ میں ہلاک ہوجانے والوں کی خبر نشر نہ کی ہو۔
اس دھماکہ میں کوئی تیس افراد ہلاک ہوئے جن میں کوئی بارہ افراد کا تعلق سکیورٹی کے عملہ سے تھا۔
دس دن میں یہ دوسرا واقعہ تھا بلوچستان میں دہشت گردی کا۔ اس سے پہلے مستونگ میں، جو کوئٹہ سے کوئی تیس چالیس کلومیٹر دور ہے ایک حملہ ہوا تھا جس میں ہلاک ہونے والوں میں ایک کنبے کے چار بچے تھے اور اسکول کا ایک اور طالبعلم بھی تھا۔ یہ پانچوں بچے ان کلیوں کی مانند تھے جنہیں کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا گیا۔
مستونگ سے ایک مہینے پہلے ایک کان پر، جو دکی نام کے مقام پر ہے، دہشت گردی کے ایک واقع میں کان میں کام کرنے والے بیس کان کن ہلاک ہوگئے تھے۔
کوئٹہ اور دکی کے حادثات کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نام کی دہشت گرد تنظیم نے بڑے زعم، بڑے فخر کے ساتھ قبول کی ہے، جبکہ مستونگ کے سانحہ کی تاحال کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔ لیکن ذمہ داری قبول کرنے یا نہ کرنے سے دہشت گردی کی انتہائی خطرناک اور قاتل مہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دہشت گرد اپنا ابلیسی کھیل تسلسل سے اور ان کے نقطہء نظر سے انتہائی کامیابی کے ساتھ کھیلتے جا رہے ہیں۔
مسئلہ تو یوں ملک و قوم کیلئے سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے کہ وہ ساتھ لاکھ افراد پر مشتمل فوجِ قاہرہ جسے قوم اپنے وسائل کا سب سے بڑا حصہ دیکر پال پوس رہی ہے وہ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے سے کیوں مکمل طور پہ قاصر ہے ؟
اس سوال کا صرف اور صرف ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ غریب قوم اپنا پیٹ کاٹ کر جس فوج کو پال رہی ہے وہ اس کی اہل ثابت نہیں ہورہی کہ اسے ملک کی حفاظت کی ذمہ داری سونپ کر قوم اطمینان سے سوسکتی ہے، اس خیال سے کہ محافظ جاگ رہے ہیں اور وہ گھر میں نہ نقب لگنے دینگے نہ اسے آتش زدہ ہونے دینگے!
فوج کی ناکامی اس لئے ہے کہ اس کی قیادت نااہل ہی نہیں ہے بلکہ کرپشن اور لوٹ مار کے کھیل میں وہ رسوائے زمانہ پاکستانی سیاستدانوں، چوروں اور ڈاکوؤں سے دس ہاتھ آگے ہے۔
یہ وہی نااہل اور ہوس گزیدہ عسکری قیادت ہے جس نے قائدِ اعظم کے پاکستان کو ملک کے عہدِ شباب میں دو ٹکڑے کرکے ویران کردیا تھا، لوت لیا تھا، پامال کردیا تھا۔ قائدِ اعظم کے پاکستان کو گلے گلے تک کرپشن اور عیاشی کے ابلیسی اور فسطائی کھیل میں غرق جرنیلوں کی ہوس کھاگئی تھی۔ لیکن آج تک نہ صرف یہ کہ اس عسکری قیادت، ان مہا کرپٹ جرنیلوں نے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا تو کجا ان بھیانک گناہوں پر قوم سے معافی بھی نہیں مانگی۔
معافی مانگنا تو بڑی بات ہے، ان بدمست جرنیلوں کے نزدیک مشرقی پاکستان کے الگ ہونے میں ان ’’معصوموں‘‘کا تو کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ جو کچھ کیا وہ سیاستدانوں نے کیا، ان کے ہی کرتوت تھے جو پاکستان کو دولخت کروا بیٹھے ورنہ یہ معصوم فرشتے تو پاکستان کی حفاظت کے فریضے کو اتنی اچھی طرح سے نبھا رہے ہیں کہ بچا کچھا ملک ان کے ہاتھوں یرغمال ہوچکا ہے اور یہ قوم کے سینے پر سوار مسلسل مونگ دل رہے ہیں۔
بلوچستان جل رہا ہے، دہشت گردوں کے حوصلے محافظوں کی پست ہمتی ، بلکہ بزدلی، سے دن بہ دن بڑھتے چلے جارہے ہیں اور اس کا ثبوت دہشت گردی کے واقعات میں روز افزوں اضافہ سے مل رہا ہے۔ دہشت گرد بلوچستان میں ایران اور افغانستان کی سرحدوں سے لیکر جنوب میں کراچی کے حب دریا تک کھلے بندوں دندناتے پھر رہے ہیں اور ان کو محافظوں کی نا اہلی کا ایسا کامل یقین ہے کہ وہ صوبے کے دارالحکومت، کوئٹہ کے قلب میں ریلوے اسٹیشن کو دن دہاڑے نشانہ بنارہے ہیں۔
ذرائعِ ابلاغ کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ سال کے مقابلہ میں اس سال، جس کے ختم ہونے میں اب دوماہ سے بھی کم رہ گئے ہیں، دہشت گردی کے واقعات اور سانحات میں دوگنا اضافہ ہوگیا ہے۔
دہشت گرد جن پاکستان دشمن طاقتوں کے آلہء کار بنے ہوئے ہیں وہ وہ ہیں جن کے پاکستانی جرنیل غلام ہیں۔ تو یہ غلام کوئٹہ ، مستونگ یا دکی کے حادثات پر سوائے واجبی اور روایتی بیان بازی کرنے کے اور کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ کوئٹہ کے سانحہ میں جو فوجی ہلاک ہوئے ان کی اموات پر فوج کے اس تعلقات عامہ کے شعبے نے، جو عمران خان اور تحریکِ انصاف کے خلاف محاذ کھولنے اور جاری رکھنے کیلئے دو دو گھنٹے پریس کانفرنس کرسکتا ہے اور اس کے ترجمان بیان بازی میں عمران کے متعلق وہ ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ عمران کے سیاسی حریفوں کو پسینہ آجاتا ہے، محض ایک چند سطروں کا روایتی مذمت اور تعزیت کا بیان جاری کیا اور اللہ اللہ خیر صلا کہ کے خاموشی کا روزہ رکھ لیا۔
یزید عاصم منیر، جو سیاسی اکھاڑے میں لنگوٹ باندھ کر عمران کے خلاف اترا ہوا ہے اور اپنے زہریلے پن میں سابقہ تمام طالع آزماؤں کو مات دے چکا ہے، نے بڑا دل کیا، بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا کہ وہ اگلے دن کوئٹہ میں فوجی اہلکاروں کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوگئے اور سمجھ لیا کہ ان کا فرض پورا ہوگیا!
جرنیلوں کی نااہلی اور بزدلی کا ایک سبب تو یہ ہے کہ وہ پاکستانی فوج کو ایک مافیا کی طرح سے چلا رہے ہیں اور یہ وطیرہ مشرقی پاکستان کو جبری طور پہ الگ کرنے کے بعد سے مسلسل عروج پر ہے۔
جرنیلوں کی مافیا ایسی منظم ہے کہ اٹلی اور دوسرے ممالک کی نام نہاد روایتی ہر مافیا اس کے آگے پانی بھرتی ہے۔
یہ پاکستانی طالع آزماؤں کی مافیا پاکستان کا سب سے منظم تجارتی اور صنعتی ادارہ ہے جس کی نگرانی اور سرپرستی میں کوئی 86 مختلف تجارت اور صنعت کے کاروبار چل رہے ہیں۔ پاکستان ان جرنیلوں کیلئے سونے کا انڈا دینے والی وہ مرغی ہے جسے وہ مکمل اپنی تحویل میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اربوں ڈالر، جی ہاں، امریکی ڈالر، کا سال میں لین دین ہوتا ہے اور یزید عاصم منیر اور اس کے حواری دونوں ہاتھوں سے مال بٹور رہے ہیں اور ملک کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔
تو تاجر اور بنیئے کہیں لڑسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ان کے ہاتھ بندوق پکڑنے کیلئے نہیں ہیں بلکہ انگلیاں نوٹ گننے اور مال سمیٹنے کے فن میں طاق ہوگئی ہیں۔
اس پر طرہ یہ کہ یزید عاصم منیر کے حلق کا کانٹا، عمران خان، کسی طرح اس کی جان نہیں چھوڑ رہا !
یزید اور اس کے حواری تو عادی تھے ان پیشہ ور اور جرنیلوں ہی کی طرح کرپشن کے گھناؤنے کھیل میں طاق زرداری اور چور شریف برادران جیسے سیاسی گماشتوں کے جو جرنیلوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ناچو تو ناچھ لیتے ہیں اور جب کہا جاتا ہے کہ اچھلو تو پوچھتے ہیں کہ ، سرکار کتنا اونچا؟
لیکن عمران تو نہ ان کے تابع فرمان ہے نہ ان سے خائف کہ ان کا یہ مطالبہ مان لے کہ رہائی چاہیے تو ملک سے فرار اختیار کرلو، بے غیرت فائز عیسی یا بے شرم نواز شریف کی طرح !
عمران جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی حلق کی ہڈی بنا ہوا ہے کہ جرنیلوں کے حلق سے نہ اترتی ہے نہ نگلتے بن رہی ہے۔ یزید عاصم منیرعمران سے اتنا خوفزدہ ہے کہ اس نے امریکہ کے صدارتی انتخاب سے پہلے ہی ٹرمپ کی کامیابی کے خطرہ کی بو سونگھ کر اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں سے چوروں کی طرح، رات کے اندھیرے میں اپنی مدت ملازمت میں تین سال کے بجائے پانچ سال کی حد مقرر کروالی۔ اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ سہولت بھی منوالی کہ پانچ سال کی مدت میں مزید پانچ برس کی توسیع ہوسکتی ہے۔ تو اپنی دانست میں یزید عاصم نے اپنی جاگیر کو 2032ء تک کیلئے محفوظ کرلیا ہے۔ اب کوئی یزید کو یہ یاد دلائے کہ، میاں آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا ہے کل کی خبر نہیں۔
دیکھو کہ ملک و قوم سے غداری کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ فائز عیسی جیسا رذیل اپنے منہ پر کالک ملوا کے مسندِ اقتدار سے محروم ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر ملک سے فرار ہوگیا اپنے فرنگی آقاؤں کی آغوش میں پناہ لینے کیلئے سب کچھ گوارا کیا لیکن انگلستان میں مقیم پاکستانیوں نے جس طرح اس کی پذیرائی کی اس کا حشر دیکھ کر ہر طالع آزما کے کان کھڑے ہوجانے چاہئیں لیکن ہر طالع آزما کی مانند عاصم منیر کو بھی یہی گمان ہے کہ اس کا حشر اوروں کے جیسا نہیں ہوگا !
سو بلوچستان اگر جل رہا ہے اور پاکستان دشمن طاقتوں کی دہشت گردی روز افزوں بڑھ رہی ہے تو یزید اور اس کے حواریوں کیلئے پریشانی نہیں ہے بلکہ ان کو تو اب اس کی فکر زیادہ ہوگی کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے دلیر وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جو یہ اعلان کیا ہے، صوابی کے جلسہء عام میں کہ قائدِ تحریکِ انصاف، عمران خان اسی مہینے عوامی احتجاج کی وہ کال دینگے جس کے بعد گنڈا پور دیگر قائدین اور کارکنان، سر سے کفن باندھ کر گھروں سے نکل آئینگے اور اس وقت تک گھر کی صورت نہیں دیکھیں گے جب تک عمران جیل کی سلاخوں سے باہر نہیں نکل آتے!
پاکستان دشمن بزدل جرنیلی مافیا یزید کی سربراہی میں نئے چیلنج سے نمٹنے کیلئے سر جوڑ کے بیٹھے ہونگے۔ ان کی بلا سے بلوچستان جلتا رہے، جل جائے، مشرقی پاکستان کے سقوط کی داستان پھر سے دہرائے ان کو فکر یہ ہے کہ ان کے انتقام اور دہشت گردی کا شکار عمران کہیں واقعی رہا نہ ہوجائے۔ عمران کی آزادی میں انہیں اپنی موت نظر آرہی ہے اسلئے وہ ہر ممکنہ طاغوتی اور ابلیسی کارروائی کرینگے کہ جس جن کو عمران خیبر پختون خواہ میں آزاد کرنے چلا ہے اسے باہر نہ آنے دیا جائے۔
حق و باطل کا ایک اور معرکہ ہونے کو ہے۔ خدا کرے کہ طاغوت کے ہرکارے اور غلام یزید عاصم منیر اور اس کے چیلے چاٹے اپنے طاغوتی منصوبوں میں منہ کی کھائیں اور پاکستان ان کے عذاب سے چھوٹے۔ یہ ناگزیر ہوچکا ہے اسلئے کہ یہ طاغوتی ٹولہ اور پاکستان مزید ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس یزیدی ٹولہ سے نجات پاکستانی قوم کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔
بلوچستان کے حالِ زار پر ہم جیسے صرف افسوس ہی کرسکتے ہیں اور اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ:
ہے نارسائی قوم کی تقدیر میں تو کیا
ہے طالع آزما کا مقدر عروج پر
گھر لٹ رہا ہے اور مکیں مستِ خواب ہیں
کیا ہوگا اور جب ہو محافظ خروج پر!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں