0

ڈونلڈ ٹرمپ کے دائیں کان کی سنسناہٹ !

ڈونلڈ ٹرمپ کچھ بھی کر سکتے ہیں ، یعنی کچھ بھی، وہ بھیجا اڑا دینے کے لیے فائر کی گئی سنسناتی ہوئی گولی کو بھی ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں چکمہ دے سکتے ہیں۔اگر آپ اپنے دائیں کان کے اوپری حصے کو انگلی سے چھو کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ آپ کی انگلی اور آپ کے زندہ اور مصروف و متحرک دماغ میں آدھ انچ سے بھی کم فاصلہ ہے۔تقریر کرتے ہوئے ٹرمپ کے سر کی بروقت اور قدرتی حرکت نے بالکل درست نشانے پر فائر کی گئی گولی کو ہدف تک کامیابی سے پہنچنے کے باوجود چکمہ دے ڈالا۔یعنی وہ جو کہتے ہیں کہ ٹرمپ کچھ بھی کر سکتا ہے،وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔خود ٹرمپ نے اپنے روحانی تصرفات کی پردہ پوشی کرنے کے لیے ساری ذمہ داری خدا پر ڈال کر اپنا پردہ رکھنے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے۔انہوں نے ریپبلکن پارٹی کے نیشنل کنونشن میں صدارتی نامزدگی کو قبول کرتے ہوئے اپنی تقریر میں اپنے قاتلانہ حملے سے بچ نکلنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ خدا ان کے ساتھ تھا۔ یقینی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کا خدا اس قاتل لمحے میں ٹرمپ کے ساتھ موجود و متوجہ تھا، کہ جس وجہ سے حد درجہ یقینی نشانہ خطا چلا گیا۔ٹرمپ کے خدا والے بیان سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ امریکہ کی تمام تر حرکات و سکنات کے باوجود ،خدا امریکہ کی طرف متوجہ رہتا ہے اور بعض امریکیوں ( جیسے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ)کے ساتھ خصوصی تعلقات بھی رکھتا ہے۔ ستم ظریف نے ٹرمپ پر حملے کی ویڈیوز اور بعد از حملہ ٹرمپ کا ردعمل دیکھ کر پرجوش انداز میں کہا ہے کہ؛ دیکھا خدا ہمیشہ دائیں طرف والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ چاہے وہ دائیں طرف کا کان ہی کیوں نہ ہو، اور یہی وجہ ہے کہ امریکی کیپٹلزم نے ہمیشہ بائیں بازو والوں کو ستایا اور ڈرایا دھمکایا ہے۔ ٹرمپ پر حملے کی تمام تر ویڈیوز ، رپورٹس اور قیاس آرائیوں کے باوجود ایک پاکستانی کے طور پر اپنے تجربات ، مشاہدات اور حالات کے پیش نظر میں یہاں بیٹھ کر اندازہ لگا سکتا ہوں کہ ٹرمپ کو ختم کرنے کی یہ ایک سنجیدہ کوشش تھی، جو بالآخر مزاحیہ انداز میں تمام ہوئی ۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ جائے واردات کے آس پاس ڈیوٹی پر موجود عیاں اور مخفی سکیورٹی اہلکاروں میں سے منتخب لوگ اس قاتلانہ حملے کے نگران ہوں؟ بعد از واردات گولی چلانے والی سمت موجود مبینہ حملہ آور کا قتل بالکل نئی واردات معلوم نہیں ہوتی ۔ایسے کامیاب یا ناکام حملوں میں حملہ آور کا مار دیا جانا کہانی کا لازمی حصہ ہوا کرتا ہے۔سو ٹرمپ والی واردات میں بھی یہی ہوا۔ اب اس واردات پر مکمل انکوائری اور تمام فریقین کے اتفاق رائے سے سامنے آنے والی رپورٹ کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے ۔ہاں البتہ امریکہ اگر چاہے تو یہاں پاکستان سے ایسے ایسے ماہرین دستیاب ہو سکتے ہیں کہ جو نہ صرف اس حادثے کو من پسند رخ دے کر ،یا کوئی بھی رخ دیئے بغیر ہمیشہ کے لیے داخل دفتر کر سکتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ یہاں پاکستان میں تو یہ سب کچھ انوکھا یا نیا بالکل نہیں ہے۔ اس طرح کے منظر راولپنڈی کا لیاقت باغ دیکھ اور اچھی طرح سے سمجھ چکا ہے۔ پاکستان کے ایک وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بالکل سامنے کھڑے ہو کر حد درجہ اعتماد اور پُرسکون انداز میں گولی مارنے والے قاتل کو “مشن” مکمل ہونے کے فوری بعد پولیس کی طرف سے قتل کر دیا گیا تھا۔اس کے ساتھ ہی قتل کا کیس داخل دفتر۔اسی لیاقت باغ کے کنارے سڑک پر پاکستان کی ایک اور وزیراعظم شہید بی بی بینظیر بھٹو تاک کر نشانہ مارنے والے(سنائپر) کی گولی کا شکار ہوئیں، اس کے ساتھ ہی کچھ فاصلے پر ایک خود کش دھماکہ بھی کردیا گیا۔اور تیسرا کارنامہ یہ کیا گیا کہ اس قدر اہم اور حساس قتل کی واردات کے شواہد کو جمع اور محفوظ کرنے کی بجائے جائے وقوعہ کو پانی کی تیز دھار سے دھو دیا گیا۔وہ کیا کہتے ہیں کہ نہ رہے گا بانس،نہ بجے گی بانسری ۔اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس دھلائی کو بھی ٹی وی پر لائیو نشر کیا گیا تھا۔ ریپبلکن صدارتی امیدوار پر ناکام قاتلانہ حملہ بھی ٹی وی پر لائیو ہی دکھایا گیا،اس وقت چونکہ بقول ٹرمپ خدا ان کے ساتھ تھا ،لہٰذا سنسناتی ہوئی گولی ان کے کان کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ٹرمپ اب ایک زیادہ سمجھدار،ایک زیادہ تجربہ کار اور سیاسی طور پر ایک زیادہ تیز رفتار صدارتی امیدوار ہیں ۔ صداراتی نامزدگی قبول کرتے ٹرمپ نے کان پر بندھی پٹی اور اس میں ہونے والی میٹھی میٹھی درد کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ دورانیے کی تقریر کی ۔شاید یہ صدارتی نامزدگی قبول کرنے کی طویل ترین تقریر شمار کی جا سکتی ہو۔اس طویل اور پرجوش تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کی صورت میں اپنے اقدامات اور اپنی پالیسی ترجیحات بیان کرتے ہوئے ذرہ برابر احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ ایک مہلک قاتلانہ حملے کے خوفناک تجربے سے گزرے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح مختصر اور دو ٹوک انداز میں بات کرنے کی بجائے بات کو پھیلا کر ، تفصیل در تفصیل شامل کرکے ،ایک طویل تقریر کا ریکارڈ قائم کردیا۔ستم ظریف کہتا ہے کہ ٹرمپ ہمیشہ طویل بات نہیں کرتے ، وہ گالی دینے یا مذمت کرتے وقت بڑی واضح اور دوٹوک بات کرتے ہیں۔ایسی باتوں کے دوران ان کے چہرے کے تاثرات اور ہونٹوں کا منہ نوچنے جیسا انداز آگ بھر دیتا ہے ۔نامزدگی قبول کرنے والے کنوینشن سے اپنے طویل خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی مخفی مگر متحرک” اسٹیبلشمنٹ ” کو بہلانے ، ہنسانے اور متوقع منافع بخش مصروفیت کا جھانسہ دینے کے لیے پورے امریکہ کے تحفظ کے لیے آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام بنانے کے امکان پر بھی بات کرنا ضروری خیال کیا۔انہوں نے حد درجہ معصوم مگر فکر مند سا منہ بنا کر کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کوئی بھی دشمن ملک امریکہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے ، ہم اپنا آئرن ڈوم میزائل کا دفاعی نظام خود بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کی سیکیورٹی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ کو آئرن ڈوم میزائیل سسٹم تیار کرنا ہو گا۔اگرچہ آئرن ڈوم میزائیل سسٹم کا آئیڈیا نیا اور اپنی تفصیلات و امکانات کے حوالے سے غیر متنازعہ موضوع گفتگو نہیں ہے۔ متعدد امریکی ماہرین اس مجوزہ یا مفروضہ آئرن ڈوم سسٹم کے نتائج سے وابستہ توقعات پر متفق نہیں ہو سکے ہیں ۔ نہ صرف اس پر اُٹھنے والی لاگت کے لاانتہا ہونے پر اعتراضات ہیں ،بلکہ اس کے ذریعے پورے امریکہ کے دفاع کو یکساں طور پر ممکن بنا لینے کے حوالے سے اس سسٹم پر انحصار کرنے پر اتفاق بھی مفقود ہے۔ستم ظریف اپنے علم اندازہ و قیاس کی بنیاد پر خیال کرتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اچھی طرح سے سمجھتے اور جانتے ہیں کہ ریاست امریکہ کے تحفظ کے مرکزی ذمہ دار یعنی صدر امریکہ کی جسمانی بقا کو یقینی بنانے کے لیے ریاست کے طاقتور ، حساس اداروں کو خوش اور مصروف رکھنے کے لیے ترغیبات کا اعلان بہت ضروری ہو جاتا ہے اور ٹرمپ نے یہی کچھ کیا ہے۔اس تقریر دلپذیر میں ٹرمپ نے حد سے بڑے ہوئے اعتماد اور قتل ہونے سے بال بال بچ جانے کی خوشی اور جوش میں بعض سچی باتیں بھی کیں۔انہوں میں ریاست امریکہ کو جرائم سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسے اپنی ترجیحات کا حصہ قرار دیا۔اور اسی کے ساتھ انہوں نے وہ سچ بھی بول دیا ،جس نے امریکہ کے بین الاقوامی کردار اور برتاو کا خلاصہ بیان کر دیا ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کو جرائم کی وجہ سے ایک ہولناک قتل گاہ تک قرار دے دیا ہے ۔ان کے اس اعتراف سے فوری توجہ ہیروشیما، ناگا ساکی، ویت نام ، افغانستان ، سے ہوتی ہوئی عراق، شام،لیبیا اور غزہ پر اسرائیل کی حالیہ تباہ کن نسل کشی کی پشت پناہی ، اور ان تمام بین الاقوامی جرائم کی طرف نہ بھی جائے ، اور وہ والے جرائم بھی کہ ؛جن میں سے زیادہ تر کے بارے میں دنیا کو علم ہی نہیں ہو سکا،پھر بھی یہ بات ماننی پڑے گی کہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن ڈی سی کے جملہ کمالات سے اچھی طرح سے واقف و آگاہ ہیں ۔ڈونلڈ ٹرمپ نے جوش خطابت اور امکان فتح سے سرشار لہجے میں پورے امریکہ کے تمام شہروں کو سنوارنے اور سجانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے ، امریکیوں کو ایک متحد اوریک جان قوم کی طرح سے اپنے کردار کو نمایاں کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔یہ ساری باتیں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دائیں کان پر سفید رنگ کی ننھی منی سی پٹی باندھ کر کی تھیں۔ یہ ٹرمپ کا وہی کان ہے ،جس کے آس پاس ٹرمپ کا خدا بھی رہتا ہے ۔ دماغ کا نشانہ باندھ کر فائر کی جانے والی گولی اپنا نشانہ خطا کرتے ہوئے، جس کان کی لو کو چھوتی ہوئی ، اپنی سنسناہٹ سمیت گزر گئی تھی، اس کان کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کا چہرہ اور باقی سب کچھ پایا جاتا ہے۔اس ساری گفتگو میں بڑھ چکی عمر اور حواس باختگی کے مسائل کا شکار موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف دھیان صرف اس وقت گیا تھا، جب ستم ظریف نے اس خدشے کی طرف اشارہ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے کان کو چھو کر گزرنے والی گولی جو بائیڈن کی سیاسی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں