پاکستان کی عدالتی نظام دنیا کا بد ترین نظام ہے اس پر عوام کا اعتبار تو کبھی نہیں رہا مگر سیاست دانوں ، فوج اور دہشت گردوں نے اس عدلیہ کو ننگا کرکے سرِ بازار نچایا، اور عدلیہ کو کبھی شرم نہیں آئی، جب کوئی ننگا ہوتا ہے تو اس کا معاوضہ لیتا ہے، عدلیہ کے ہر حج اور مجسٹریٹ نے جھولی بھر بھر کے معاوضہ لیا، یہاں تک کہ یہ بات سر عام کہی جانے لگی کہ وکیل کرنے کی بجائے حج کر لو، وکیل دلال بن گئے انہوں نے ججوں اور مجسٹریٹوں سے اپنے مطلب کے فیصلے لکھوائے اور مال بٹورا، ایک سیشن حج کا بیٹا کیمبرج میں پڑھتا تھا میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ خرچ کیسے برداشت کرتے ہیں فرمانے لگے اللہ مدد فرماتا ہے، ہم نے پاکستان میں ایک جعلی پرہیز گار معاشرہ بنایا ہے جو رات دن ماشا اللہ، الحمد اللہ انشا اللہ اور جزاک اللہ کہتے ہیں اور پارسائی کا نقاب چہرے پر سجا لیتے ہیں، ایک زمانہ تھا جب کسی گھر پر لکھا ہوا نظر آئے ھذا من فضل ربی تو سمجھ جائے کہ یہ رشوت کے پیسے سے بنی ہے، سیشن جج کا لندن میں ایک گھر بھی تھا اور پاکستان میں بھی دو عالیشان مکانات تھے ، یہ سب کچھ اللہ کی مدد سے ہوا، بہر حال پوری چھپتر سال کی تاریخ میں چند حج ہی ایسے ہونگے جن کو اللہ کی ایسے مدد نہیں ملی جیسے ہمارے دوست حج کو حاصل ہوئی، ایسے حج جنہوں نے بہت ایمانداری سے فیصلے کئے اور رشوت نہیں لی وہ سب کے سب غیر مسلم تھے یہ سلسلہ جسٹس منیر سے شروع ہوا اور کبھی نہیں رکا، جسٹس منیر کو ایوب خان نے وزیر قانون بھی بنا لیا تھا، یہ فراز دیکھ کر دیگر ججوں کی رال تو ٹپکی ہوگی پھر رال ٹپکتی ہی چلی گئی، مولوی مشتاق، افتخار چودھری ، ثاقب نثار ، اور کھوسہ ، یہ ہماری عدلیہ کی وہ طوائفیں تھیں جو جسٹس نسیم کی طرح سر بازار ناچیں، یہ انتخاب بھی پہلے جیسے انتخابات کی طرح ہی تھا، 2018 کے انتخاب کا نیا ورژن ، جس کو پی ٹی آئی فارم 47 کی حکومت کہتی ہے اس انتخاب کے نتیجے میں مخصوص نشستوں کی بندر بانٹ ہوئی تھی پی ٹی آئی چونکہ سنی اتحاد میں ضم ہو گئی تھی اور سنی اتحاد نے الیکشن نہیں لڑا لہٰذا اس کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں الیکشن کمیشن نے بھی نئی روایت ڈال دی کہ یہ مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دیں الیکشن کمیشن کی اس فیاضی پر جہاں دیگر جماعتوں نے اللہ کا شکر ادا کیا وہاں سنی اتحاد کونسل نے سپریم کونسل میں ایک درخواست دی کہ پی ٹی آئی کے ارکان نے سنی اتحاد میں شرکت کر لی ہے اس لئے مخصوص نشستیں اس کا حق ہے، سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد آپس میں طویل مشاورت کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جاتی ہیں، تماشا یہ ہوا کہ درخواست سنی اتحاد کونسل کی تھی مگر سیٹیں پی ٹی آئی کو مل گئیں اور ماہرین قانون ہکا بکا رہ گئے کہ یہ کون سا انصاف ہے، بہر حال یہ نیا تماشہ نہیں، اشرافیہ کے مختلف کردار مختلف تماشے کرتے رہتے ہیں جن پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں، عدلیہ کو کوئی شرم نہیں کہ یہ دنیا کی 131 نمبر کی عدلیہ ہے ایسے فیصلے کیسے ہو جاتے ہیں اس کے پیچھے ایک CONCEPT ہے یہ DEEP STATE کا CONCEPT ہے وکی پیڈیا پر ڈیپ اسٹیٹ کی تفضیلات موجود ہیں، ان کے مطابق چوری چھپے FBI/CIA کا مالی اداروں کے اعلیٰ اہل کاروں اور صنعت کاروں کے ساتھ مل کر ایک ایسا اتحاد بنانا تھا جو منتخب اراکین کے تعاون سے اقتدار میں شامل ہوں اور بڑے فیصلے کریں پہلے 1990 میں ترکی میں اپنایا گیا مگر اس کا اطلاق امریکہ میں اوباما دور میں ہو چکا تھا، مگر اس نظریئے کو اس وقت شناخت ملی جب ٹرمپ نے بتایاکہ ڈیپ اسٹیٹ اس کے سیاسی ایجنڈے اور اس کی انتظامیہ کے خلاف مصروف عمل ہے ہے وکی پیڈیا کے مطابق 1950 میں اس کی ابتدا ہو چکی تھی جب جز لز اور آرمی کانٹریکٹرز کےدرمیان ایک MILITARY INDUSTRIAL COMPLEX بن چکا تھا 2017/2018 میںجو سروے کرائے گئے ان کے مطابق آدھے امریکن ڈیپ اسٹیٹ کے حامی تھے، ترکی میں طیب اردگان 2002 میں اقتدار میں آئے خیال کیا جا سکتا ہے کہ ڈیپ اسٹیٹ کے تحت ایک ایسے معاہدے کے تحت جس کو CLANDESTINE کہا جا سکتا ہے اب تک اقتدار میں ہیں یہ بات دنیا کے دوسرے سیاست دانوں کے لئے بہت پر کشش ہے پاکستان میں سیاست دان ایک طویل اقتدار چاہتے ہیں اس کی ایک CLANDESTINE شکل ٹرائیکا کی شکل میں نظر آئی ہے جس میں جنرلز ملّائیت اور سیاست دانوں کا اتحاد رہا، بھٹو نے جب نام نہاد سوشلزم کے تحت صنعتوں کو قومیانے کا فیصلہ کیا تو بڑے صنعت کار ملک چھوڑ گئے مگر دیگر ملک سے باہر نہیں گئے ان کا لوگوں نے سیاسی جماعتوں میں جگہ بنائی بڑے بڑے DONATIONS دیئے اور پھر جماعت میں ایسی جگہ بنالی کہ جماعت کے فیصلے ان کی مرضی سے ہونے لگے ، جنر لز اپنا مال کما کر ملک سے باہر SETTLE مگر فوج کی مدد سے سیاست دانوں، تاجروں، صنعتکاروں نے ملک میں جو چاہا کیا نہ فوج نے ان کو روکا نہ قانون حرکت میں آیا میڈیا پاکستان کی CLANDISTINE ڈیپ اسٹیٹ کا حصہ رہا اور میڈیا ہاؤسز کو اپنا حصہ ملتا رہا یہاں تک کہ دودھ فروشوں نے بھی دل کھول کر من مانی کی، یہ کام عدلیہ کو ساتھ ملائے بغیر ہو نہیں سکتا تھا لہٰذا جوں کے چناؤ کے لئے پبلک سروس کمیشن کا امتحان ختم کرایا گیا، سیاست دانوں نے اپنی مرضی سے حج لگانا شروع کر دیئے پھر ان کو کرپٹ کیا گیا، اور ایک سازش کے تحت آزاد عدلیہ کے نام پر تحریک چلائی گئی جس کے نتیجے میں افتخار چودھری نے عدلیہ کو الگ کیا اور اب عدلیہ سے سے کوئی حساب نہیں لیا جا سکتا، اب ایک ڈیپ اسٹیٹ چوری چھپے پاکستان کو چلا رہی ہے جو فوج سیاست دان تاجر ، وڈیرہ شاہی ،مافیاز صنعت کار دین فروشوں اور میڈیا ہاؤسز کے تعاون سے چل رہی ہے ، یہ جو چاہیں گے وہی ہوگا، اور یہ سارے طبقات قانون سے بالاتر ہیں، اگر کوئی پکڑا جائیگا تو یہ اپنے مجرم بزور قوت چھڑا کر لے جائینگے یا پھر عدلیہ شواہد طلب کرے گی اور ملزم کو من چاہا ریلیف دے دیگی، پاکستان کے اندر اسٹیٹ کے اندر ایک ڈیپ اسٹیٹ ہے، جس کی شکل اس تھیوری سے مختلف ہے جس کی تعریف امریکہ میں کی گئی یا جو ترکی کو کنٹرول کرتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں کچھ طاقتور طبقے اس طرح نہیں جس طرح امریکہ یا ترکی میں ہیں پاکستان میں فوج کے بعد سب سے طاقتور طبقہ ملّائیت ہے جس نے وڈیرہ شاہی کو بھی پریشان کر رکھا ہے اور پاکستان کا وڈیرہ اور سرمایہ دار اس سے خوف زدہ بھی ہے اور اس کو استعمال بھی کرتا ہے میری دانست میں یہ تشدد مسلح ہجوم ہیں جو کرائے پر دستیاب ہیں، یہ ہجوم پولیس افسران کو قتل کر دیتا ہے، جائیداد کو نذرِ آتش کر دیتا ہے، کھلے عام زنا کا مرتکب ہوتا ہے اور قانون منہ دیکھتا رہ جاتا ہے ملّائیت کی اصل طاقت جہالت میں ہے عمران کو فوج اسی نظریے کے تحت
لے کر آئی اور ارادہ تھا کہ عمران حکومت پر ایک طویل عرصے تک حکمران رہیں اور کوئی ان کو چیلنج نہ کر سکے، مگر عمران کو پلانٹ کرنے والے کہیں اور تھے جن کے روابط تاجروں سرمایہ داروں ملاؤں مافیاز اور دہشت گردوں سے تھے سو فوج کے ساتھ ہاتھ ہو گیا، ڈیپ اسٹیٹ کے کرداروں نے ملک کے ہر طبقے کو اسیر بنا لیا اور سوشل میڈیا بہت منظم پروپیگنڈا کرتا ہے جس نے ان دو کروڑ چالیس لاکھ TEEN AGERS VOTERS کو متاثر کیا جن کو سیاست کی ابجد بھی نہیں آتی تھی ان ووٹرز نے پانسہ پلٹ دیا، ڈیپ اسٹیٹ کا سب سے موثر ہتھیار عدلیہ تھی جس کو یہ خوف بھی تھا کہ فیصلہ حق میں نہ دیا تو سر بھی قلم ہو سکتا خاندان کی بھی خیر نہیں ، عدلیہ کو کرپٹ کرنے میں ایس ایم ظفر اور شریف الدین پیرزادہ سکتا ہے نے بھر پور کردار ادا کیا اور آمروں کے ہاتھ مضبوط کئے ، بظاہر پاکستان اس ڈیپ اسٹیٹ کی گرفت میں ہے جس میں فوج کے جزلز ، وڈیرے، سرمایہ دار، مافیاز، تاجر، اسٹاک ایکسچینج میڈیا اور تاجر شامل ہیں جو ملک کو لوٹتے تو ہیں مگر ٹیکس دینے سے انکاری ہیں۔
0