0

ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے !

پاکستان میں پون صدی کی تاریخ اور چلن نے شکست خوردہ بے شرموں کی ایک فصل تیار کی ہے۔یہ لوگ بے بنیاد خبط عظمت کا شکار، زبان دراز ، اپنے جہل پر نازاں اور اپنے مفروضہ زہد پر متکبر رہنے والے لوگ ہیں ۔یہ اپنی نابینا بصارت کے کاذب وکیل اور وہی مفروضہ مناظر دیکھنے اور دکھانے پر مصر ہوتے ہیں ،جو امر واقعہ کے طور پر تو کوئی وجود نہیں رکھتے، لیکن وہ انہی ظہور پذیر نہ ہو سکنے والے واقعات کو ہی سچ مانتے اور اپنے اعتماد کی بنیاد جانتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایسی مخلوق کا تناسب رفتہ رفتہ بڑھتا جا رہا ہے ۔یہ فاسق تاریخ کی جلد میں پلنے والے طفیلی کیڑوں کی مانند ہیں ،جو فاسق تاریخ کے مرنے کے ساتھ ہی معدوم ہو جائیں گے۔تاریخ کے ساتھ کھیلنا اور حال کو جہالت کی چٹکیاں کاٹنا مستقبل کو مخدوش کر دیتا ہے۔ اس وقت معاشرتی حبس کو سچائی کی تازہ ہوا کی اشد ضرورت ہے۔ ستم ظریف کا گمان ہے کہ پاکستانی ریاست “اغواہ برائے تاوان” کی حالت میں قید و بند کی اذیت سے گزر رہی ہے۔اس کے شہری ریاست کی طرف سے عدم مساوات اور ناانصافی پر مبنی سلوک کو اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کرنے پر آمادہ و تیار رہتے ہیں۔لہٰذا بہتری اور نجات کا کوئی امکان ہمارے لوگوں کا منتظر نہیں ہے۔ اب مسلہ یہ ہے کہ اگر کوئی بھی شہری ریاست کے بعض کلیدی اہلکاروں ، عہدے داروں یا منصب داروں کے بعض ایسے فیصلوں پر تنقید کرنے کی جرات کر ہی لے ،کہ جن کا ملک وقوم کے لیے نقصان دہ ہونا صاف دکھائی دیتا ہو، اور جن کے لگائے زخموں کا دردآج بھی قوم محسوس کرتی ہو ، تو اس کی حب الوطنی پر سوالیہ نشانات لگانے شروع کر دیئے جاتے ہیں ۔عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے وہ دوست جو ماضی میں سسٹم کا حصہ رہے ہوں ،اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بوجوہ کثیرہ خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اپنے ادارے کے ماضی و حال کے معاملات کو قطعاً درست قرار دینے پر مصر رہتے ہوں ،وہ واقعتاً اپنے ادارے سے دوستی کی بجائے حقیقتاً دشمنی کر رہے ہوتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہلکار اور منصب دار جو کچھ کرتے رہے اور جس کا نتیجہ پوری قوم خسارے میں منافع سمیت آج تک بھگت رہی ہے ۔ان کو ایسا کرنے کا حق کس نے دیا تھا؟ اپنے پے در پے آیئنی انحرافات پرآج تک کسی اہلکار یا منصب دار نے قوم سے معافی مانگی؟ اس ملک اور قوم کی تعمیر کیسے اور کب کی جاتی ، جب پاکستان کو دنیا میں غیر جانبدار ملک بنانے کی بجائے پہلے بغداد پیکٹ ، پھر سیٹو سینٹو اور اسی سلسلے نے ملک کو سرد جنگ کا کرائے پر چلنے والا گرم ترین خچر بنا کر رکھ دیا۔یہ کام کسی پارلیمنٹ نے نہیں کیا تھا۔ یہ کام بعض اہلکاروں اور منصب داروں نے انفرادی سطح پر کیا تھا۔ ضیاء الحق کے بدترین مارشل لاء تک ملک تعلیمی میدان میں ،تمام تر نظراندازیوں کے باوجود بہترین نتائج دے رہا تھا۔پاکستان کے دونوں حصوں کے اساتذہ اور طالب علم نمایاں اور قابل تقلید کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔قوم تعمیر ہو رہی تھی کہ ایک میز پر بیٹھ کر شکست کی دستاویز پر دستخط ثبت کرنے کی تاریخ ِانسانی کی رسواکن ترین تصویر بنوا کر آدھے ملک کو بنگلہ دیش اور آدھے ملک کو ” سنگلا اور کنگلا دیش” بنا دیا گیا اور آج تک کسی ذی روح نے شرمندہ تک ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی۔یاد رہے کہ ملک میں تعلیمی انحطاط کا بانی جنرل ضیاء الحق اور اس زوال کی تکمیل کرنے والا جنرل پرویز مشرف تھا ،جس نے ایچ ای سی بنوا کر پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کا بیڑا غرق کر دیا۔دیگر محکموں کی طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان بھی کرپشن یا ٹیکنکل خردبرد کا گڑھ ہے۔اور یہ ادارہ بھی، جیساکہ ذکر ہوا، جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عطاء الرحمن کے لیے بنایا تھا ٹاسک یہ تھا کہ پاکستانیوں سے دماغ سے تعلیم کا کیڑا اور پاوں سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے شوق کا کانٹا نکال دیا جائے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ قوموں کو ہمہ قسم کے بیوروکریٹ نہیں بنایا کرتے، لیکن اگر قوم غفلت یا تساہل کا مظاہرہ کرے تو یہی ہمہ قسم بیوروکریٹ قوم کا بیڑا غرق کر سکتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی مراعات ، اپنے معاشی تصرفات اور اپنے کاذب منصب و مرتبے کے تحفظ کا سامان ضرور کر لیتے ہیں۔ سب سے خطرناک روش جو ضیاء الحق نے اختیار کی وہ معاشرے کو توڑنے اور منتشر و متفرق کرنے کے لیے ملاوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ تھا۔اس نے مذہب جیسی پیاری چیز کو فتنہ وفساد سے جوڑنے کا ناقابل معافی جرم کیا۔یاد رہے کہ مذہب کو مسلم کمیونٹی میں انتشار و افتراق لیے استعمال کرنے کا چلن انگریزوں نے ایجاد کیا تھا۔ قبل از تقسیم ہندوؤں کے برعکس مسلم کمیونٹی کے جدید انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی مخالفت یہی طبقہ کرتا تھا۔ وہ تمام ریلیجس اسکول جو انگریزوں کی مالی اور علمی معاونت سے قائم اور پھر کمیونل پالیٹکس میں متحرک ہوئے، وہ سب مسلم کمیونٹی کے جدید تعلیم حاصل کرنے کے شدید مخالف تھے۔سر سید احمد خان کو جن مشکلات اور اپنی ہی کمیونٹی کے ہاتھوں جن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ،وہ مشکلات اور رکاوٹیں راجہ رام موہن رائے کے سامنے نہیں آئیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندو کمیونٹی مسلم کمیونٹی سے قبل از تقسیم تقریباً اسی سال آ گے تھی۔اب آئیے پاکستان بننے کے بعد کا منظر ، ہندوستان کے لیے جواہر لعل نہرو کی تعریف بنتی ہے کہ اس نے ملک کو ایک سیکولر آئین دیا۔ادھر کیا ہوا؟ جناح کو قتل کر دیا گیا، ایک حلف یافتہ جعلی فیلڈ مارشل نے دھاندلی کر کے محترمہ فاطمہ جناح کو انتخابات میں شکست دے ڈالی۔اس دور میں فاطمہ جناح زندہ باد کہنے والے سیاسی کارکنوں کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں پولیس کی طرف سے جیل میں دس دس جوتے مارے جاتے تھے۔ پھر انہی اہلکاروں اور منصب داروں نے محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے ہی ایک ملازم/ چوکیدار سے قتل کروا دیا اور اس قاتل کے خاندان کو دوامی تحفظ اور معاشی کفالت کا سایہ فراہم کیا۔یہی سہولت بعد میں لیاقت علی خان کے قاتل کو بھی فراہم کی گئی۔سچ بتاییے کیا ہندوستان میں ایسا ہو سکتا تھا؟؟؟ پاکستان میں آئین کی بجائے ایک قرارداد مقاصد منظور کروائی گئی اور ملک کا اسٹیئرنگ غلط سمت گھما دیا گیا۔یہ سب تو بربادی کی تمہید تھی۔اصل تباہی ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوتی ہے ۔جس طرح مذہب جیسی پیاری چیز کو کوڑا بنا کر پورے معاشرے کی ننگی پیٹھ پر برسایا گیا۔تعلیمی اداروں میں سے جماعت اسلامی کے پروردہ اساتذہ کے علاوہ باقیوں کا قلع قمع کیا گیا۔نصابات برباد کئے گئے۔یہ سب اب تاریخ کا حصہ ہے۔اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔گویا پاکستان کے منصب داروں اور اہلکاروں نے بھی انگریزوں کی طرح مسلم کمیونٹی کو برباد اور کمزور رکھنے کے لیے مذہب اور ملا ہی کو استعمال کیا۔اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔سر تن سے جدا جیسے نعرے اور توہین مذہب جیسے الزام لگا کر ہجوم کے ہاتھوں قتل یہ سب اسی سوچ کی خاص پیش کش ہے ۔ایک ذاتی مشاہدہ بیان کرتا ہوں ۔ شاید 1985/86ء کا واقعہ ہے، ورلڈ بنک یا کسی عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے ہندوستان اور پاکستان کو پرائمری ایجوکیشن کی ترقی کے لیے میچنگ گرانٹ دی گئی تھی۔میں نیا نیا لیکچرار بنا تھا۔وائس چانسلر نے ایک اجلاس میں چند اساتذہ کو ٹاسک دیا کہ دو دن کے اندر اس گرانٹ کو خرچ کرنے کے لیے اپنی اپنی سفارشات لکھ کر دیں۔انہیں منسٹر کے ساتھ ایک اجلاس میں شرکت کرنی تھی جس کا ایجنڈا اسی گرانٹ کو استعمال کرنے کے طریقے اور سلیقے تھے۔میں نے اپنی سمجھ کے مطابق سفاشات لکھ کردیں۔خیر اس کے بعد ضیاء الحق نے اس گرانٹ سے ملک میں مسجد مکتب اسکیم شروع کی۔اس کے جانے کے بعد کسی حکومت نے وہ اسکیم بند کر دی اور تقریبا چھیاسٹھ ہزار ٹیچرز سڑکوں پر آ گئے تھے۔لیکن اصل واقعہ یہ رہا کہ ہندوستان میں راجیو گاندھی نے اسی گرانٹ سے اپنے ملک میں پرائمری سطح سے کمپیوٹر ایجوکیشن کا آغاز کر دیا ۔اور آج ہندوستان آئی ٹی میں دنیا کا شریک کار اور ساتھی ہے۔ایک اسی جرم پر اس دور کے اہلکاروں اور منصب داروں کو “کرامویل” جیسی سزا ضرور دینی چاہیئے تھی ۔چونکہ ایسا نہیں کیا گیا اس لیے آج بھی ہمارے منصب دار وہی کچھ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ہمارے ریٹائرڈ منصب دار و اہلکار دوست ملک کے ہر شعبے میں خیانت دیکھتے اور کڑھتے رہتے ہیں،لیکن یہ سجن اتنے ہوشمند ضرور ہیں کہ کرپشن کے انڈیکس میں ایک زیادہ بڑے ادارے کا ذکر کرنا ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔شاید اس لیے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ؛ ان کا کیا دھرا سب حلال ہوتا ہے اور دوسرے ان کے احتساب اور مواخذے کا اپنا ایک نظام ہے۔اس اپنے الگ نظام کے آہنی پردے کے پیچھے ہر گناہ کو ثواب میں بدل دینے کا سسٹم جاری اور موثر رہتا ہے۔آپ کو اس نیول چیف کے نام تو یاد ہی ہو گا جو پاکستان نیوی میں اربوں کی کرپشن کے بعد امریکہ میں قیدیوں والے دھاری دار کپڑوں میں ملبوس جیل میں بند تھا اور جسے پاک صاف کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف نے ملک میں نیب جیسا ادارہ قائم کیا تھا ۔اور جسے پاکستان واپس لا کر نیشنل اکاونٹیبلٹی بیورو کے ذریعے پوتر کر کے رہا کر دیا گیا تھا ۔ستم ظریف خلاف معمول بڑے تحمل سے ، بلکہ یوں کہیئے کہ نیم غنودگی کے عالم میں میری بڑبڑاہٹ سن رہا تھا۔میں نے اسے ٹہوکا دے کر کہا کہ ستم ظریف سو گئے کیا؟ ایک دم چوکس ہو کر بولا کہ پوری قوم کے برعکس میں ہی تو ہوں جو سو نہیں رہا۔ہاں مگر آپ کی باتیں سن کر منتظر تھا کہ آپ موجود حکومت اور اس کے طور طریقوں پر بھی بات کریں گے۔آپ مہنگائی کی بلند ترین شرح، بجلی کے بلوں کی معرفت منظم ڈاکہ زنی ، ہمہ قسم بیوروکریسی کی غیر مختتم مراعات ، پارلیمان کے خراٹوں کی آوازوں پر ، ملک میں دہشت گردی کے احیاء اور تدارک کے لیے شروع کئے گئے آپریشنز، ملک میں حد درجہ مہنگی ہو چکی تعلیم ، اپنے لیے کوئی کیریئر تلاش کرنے عوض کسی اچھے ملک کی تلاش میں سرگرداں پاکستانی نوجوانوں کی مایوسی پر بھی بات کریں گے۔لیکن آپ صرف ماضی کی حکومتوں ، ماضی کے اہلکاروں اور ماضی کے منصب داروں پر ہی غصہ نکال کر سمجھتے ہیں کہ میں نے حق ادا کر دیا۔میں ستم ظریف سے اس طرح کی عقلمندی اور ذہنی چوکسی کی امید نہیں رکھتا تھا۔ میں نے اسے سمجھانا شروع کیا کہ دیکھو ستم ظریف حاضر سروس اہلکار ، منصب دار اور حکومت کبھی غلط نہیں ہوتے۔وہ معیشت کو نہ سنبھال سکیں ، وہ کرپشن کو نہ روک سکیں ، وہ مہنگائی کے طوفان سے عامتہ الناس کو نہ بچا پائیں،چاہے وہ ملک میں بڑھتی ہوئی ہجوم گردی پر قابو پانے میں ناکام رہیں ،اس سب کے باوجود حکومت وقت ہمیشہ بہت ہی اچھی ، پیاری اور راج دلاری ہوا کرتی ہے۔جن قباحتوں کی طرف تم نے اشارہ کیا ہے ،ان کا تجزیہ کرنے کے لیے پانچ سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔اور سنو یہ پاکستان ہے ،یہاں یہ زندگی اسی طرح سے چلتی رہے گی۔ میرا قیاس ہے کہ؛ سو سال بعد مورخ یہاں کے حکمرانوں کو نہیں ، یہاں کے صابر و شاکر عوام کو مورد الزام ٹھہرائے گا ۔چلو اب مرزا اسد اللہ خان غالب کے شعر سنو اور سر دھنو ؛
؎چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں