پاکستانیوں! کیا ہو رہا ہے؟ پاکستان سے اچھی خبریں آئے مدتیں گذر گئی ہیں۔ابھی چند دنوں میں یہ بری خبر آئی کہ کرکٹ کی دنیا کے چیمپینز نے امریکہ کی نو زایئدہ کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں عبرتناک شکست کھا لی، پھر بھارتی ٹیم نے رہی سہی کسر نکال دی۔اور وہ ورلڈ کپ کے مقابلے سے ابتدائی مرحلہ میں ہی نکل گئے۔ ایک نا قابل یقین واقعہ ، نہایت ہی شرمناک۔پھر خبر آئی جس نے دل ہی جلا کر رکھ دیا۔ سوات میں ایک سیاح پر توہین رسالت کے الزام لگا کر ، ایک ہجوم نے اسے مارا ، پیٹا اور پھر زندہ جلا کر ہلاک کر دیا۔یہ خبر اتنی افسوسناک ہے کہ سر چھپانے کی جگہ نہیں۔ایسے واقعات ابھی تک ہو رہے ہیں، کیوں نہیں اہل اقتدار اپنی مستیوں سے نکل کر ہوش میں آتے اور ان واقعات کا سد باب کرتے؟ یہ ہجوم کا کسی پر الزام لگا کر خود فیصلہ کر نا اور پھر سزا بھی خود ہی دے دینا، کہاں کا انصاف ہے؟ مجھے یقین ہے کہ اور ایسے واقعات کی طرح کسی مُلا نے لوگوں کو اکسایا ہو گا۔ ایسےمُلا کی گرفت ہونا لازمی ہے۔اور ان لوگوں کی جنہوں نے اس گھنائونے جرم میں اس کا ساتھ دیا۔کیا ہمارے علماءاور اکابرین ِدین اس قدر بے حس ہو چکے ہیں یا وہ بھی اس گناہ کبیرہ میں ملوث ہیں؟ ایسے بھیانک جر م پر تو مولویوں کو جلوس نکال دینا چاہیے تھا۔مگر نہیں؟ وہ تو خوش ہیں کہ لوگ خواہ غلط بھی ہیں لیکن مذہب کے نام پر کیا کچھ کرنے پر تیار ہیں۔ پولیس کو تو تحریک کے بےگناہ کارکنوں کو پکڑنے سے فرصت نہیںکہ وہ ایسے جرائم پر توجہ دے۔اس کی ایک مثال عمران خان کی حکومت میں ملتی ہے۔ اس میں بھی اتفاق سے معاملہ سیالکوٹ سے ہی متعلق تھا۔ یہ قابل غور امر ہے، کہ دونوں واقعات میں سیالکوٹ شامل تھا۔بہر حال سوات والے واقعہ کی پوری چھان بین ضروری ہے اور حقائق سے پاکستانیوں کو آگاہ بھی کرنا ضروری ہے۔خیر۔ ان معاملات کو انگریزی میں کہتے ہیں بزنس حسب معمول۔اور چند روز پہلے، یہ خبر سامنے آئی کہ سانگھڑ ضلع کے ایک زمیندار ، غلام رسول شرنے ایک اونٹنی کی ٹانگ کاٹ دی اس لیے کہ وہ چرتی چرتی اس کے کھیت میں آگئی تھی۔ جس غریب کسان کی اونٹنی تھی، اس نے جب عدالت میں شکایت کی اور مجسٹریٹ کو بتایا کہ کس طرح پولیس بجائے اس کی مدد کرنے کے، زمیندار کو بچانے میں مصروف ہے۔ اوربجائے ملزموں کو پکڑنے کے، کچھ غریب ہاریوں کو پکڑ کر لے گئی ہے۔یہ خبر بھارتی اور گلف کے اخباروں نے بڑھا چڑھا کر شائع کی، جو بیرون ملک پاکستانیوں کوشرمندہ کرنے کےلیے کافی تھیں۔ ان واقعات سے بڑھ کر جو ایک نہایت ہی برا واقعہ ہے وہ پاکستان کے آیئندہ سال کے بجٹ کا ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کو کبھی یہ عار نہیں آتی کہ ہم اتنے اخراجات رکھیں جتنی ہماری آمدنی ہے۔ ہمیشہ آمدنی سے کہیں زیادہ اخراجات کا بجٹ لگایا جاتا ہے۔ اس سال بھی غور فرمایئے کہ خسارے کا بجٹ بنایا گیا ہے، اور خسارا کیسے پورا ہو گا؟ اور قرضہ لیکر یا نوٹ چھاپ کر؟ دونوں صورتیں ہی نا قابل قبول ہیں۔اگر روپئوں میں جاننا چاہیں تو نئے بجٹ کا کل حجم 14.48 کھرب روپے ہے۔ اور کل آمدن یا مالیہ 6.9 کھرب۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ خراجات کا تخمینہ آمدن سے 6.923 کھرب زیادہ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بجٹ کا نصف کے قریب حصہ صرف قرضوں پر سود کی واپسی کے لیے ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پاکستان کے شہری جو کماتے ہیںوہ تو صرف قرضوں پر سود ادا کرنے پر لگ جاتا ہے۔اب اس سے پیدا ہونے والے خسارے کا سوچیں کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے آئے گی؟ آپ کی سوچ ہے۔یا تو وزیر اعظم کا دماغ خراب ہے اور یا ان کے گلے پر انگوٹھا رکھ کر ان سے یہ بجٹ بنوایا گیا ہے۔اپنے طور پر حکومت ہر طرح سے ان ایماندار کار کنوں کا خون نچوڑنے کا سوچ رہی ہے جنکی تنخواہ سے پہلے ہی ٹیکس کاٹ لیاجاتا ہے ۔ اور عوام الناس پر نان فائلر کے نام پر طرح طرح کی سکیمیں بنائی جا رہی ہیں۔جو عوام کو آہستہ آہستہ نظر آئیں گی۔اتنا زیادہ قرضہ کیوں؟ قرضہ اس لیے کہ پہلے ہی اتنے قرضے لیے ہوئے ہیں اور اتنے بھاری سود پر کہ سود خور پٹھان بھی شرما جائے۔، بشکریہ نون لیگ اور اس کے چہیتے وزیر خزانہ اسحاق ڈار، کہ آج ان قرضوں کی واپسی اور ان پر سود کا بوجھ ہماری معیشت کو لیکر ڈوب رہا ہے۔کہتے ہیں کہ ہمارے خسارے کے بجٹ کے اگر حصے کیے جائیں ، تو اخراجات کا ایک نصف حصہ قرضوں اور ان پر سود کی واپسی کے لئے مختص ہے۔ دوسرا بڑا حصہ ہمارے دفاعی اخراجات، سرکاری ملازموں، خصوصاً سابقہ فوجیوں کی پینشن پر اور صوبوں کے اخراجات پر لگتا ہے۔اور باقی کا حصہ ملک کے دوسرے اخراجات کے لیے، جن میں ہماری پولیس، نوکر شاہی، اور حکومتی اہلکاروں کی رہائش، آمد و رفت، نو کر چاکر، گھروں کے اخراجات، بیرون ملک کے سفر، اور ظہرانے ، عشائیے، اور تنخواہوں میںاضافہ، مراعات کا کوہ گراں سب شامل ہیں۔ ہاں تھوڑی تھوڑی رقومات تعلیم، صحت کے شعبوں کے لیے بھی رکھی گئی ہیں تا کہ عملے کو تنخواہ تو ملتی رہے، کام کچھ ہو یا نہ، اس کی کوئی فکر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری دفتروں، سکولوں، اور صحت کے مراکز میں نہ صفائی ہوتی ہے اور نہ عمارتوں، فرنیچر، مشینری اور آلات کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کی جاتی ہے۔شہری سہولتیں نہ ہونے کے برابر۔ جب بارشیں ہوتی ہیں تو نالوں میں گندگی سے رکے ہوئے پانی کے بہائو ابل پڑتے ہیں اور سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں۔ شہری چوراہوں پر گندگی کے ڈھیر جا بجا نظر آتے ہیں جو مکھیوں اور دیگر حشرات الارض کی پیدائش کا باعث بنتے ہیں۔سڑکیں شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہیں جن کی مرمت نہیں ہو سکتی کیونکہ بجٹ نہیں ہوتا۔ہم نے اس مملکت خد داد پاکستان کا کیا حال کر دیا ہے؟
ملک میں تین طرح کی آبادی ہے ۔ اول تو اشرافیہ ہے جو صاف ستھرے ماحول میں رہتے ہیں۔ اور کہیں صفائی ہو نہ ہو ان کا ماحول صاف اور چمکدار رکھا جاتا ہے۔اس لیے جب وہ ایک ایسے ماحول سے نکل کر دوسرے ویسے ہی ماحول میں جاتے ہیں اور کار کے سیاہ شیشوں کے باہر انہیں کوئی دوسرا ماحول نظر نہیں آتا تو وہ قدرتاً سمجھتے ہیں کہ ہر جگہ ہرا ہی ہرا ہے۔ ان کے بچے جن سکولوں میں پڑھتے ہیں وہ انتہائی صاف اور عمدہ پڑھائی کی درسگاہیںہوتی ہیں۔ وہ جن ہسپتالوں میں جاتے ہیں انہیں کوئی کمی یا خرابی نظر نہیں آتی۔ غرضیکہ اشرافیہ حیران ہوتے ہیں کہ لوگوں کو کس چیز کی شکایت ہے؟ البتہ کبھی کبھار ٹی وی پر انہیں کوئی ایسی خبر نظر آ جائے تو ٹی وی سٹیشن کو لعنت ملامت کر دی جاتی ہے۔
دوسرا طبقہ سفید پوشوں کا ہے۔ یہ بھی کوئی زیادہ نہیں۔ حکومت کی حکمت عملی کے باعث سفید پوش آہستہ آہستہ تیسرے طبقہ میں شامل ہو رہے ہیں جو غریبوں، بے سہارا، مزدوروں اور جفا کش کسانوں کا ہے۔سفید پوش سردیاں پرانے یا لنڈے سے خریدے ـ’نئےـ‘ کپڑوں سے اپنا بھرم قائم رکھتے ہیں۔ اگر گھر میں فاقہ بھی ہو تو انہیں ہمسایوں سے بھی مانگتے شرم آتی ہے۔اگر ہمسائے خود ہی کچھ خیال کر لیں تو کتنا اچھا ہو۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ عوام الناس ہمیشہ سے محنت مزدوری کی زندگی گزارتے آئے ہیں۔ اپنی بدحالی کو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں۔کبھی حکام یا کرپشن کو الزام نہیں دیتے۔ بڑی صابر و شاکر قوم ہے۔
حکومت ایک طرف تو اپنے اخراجات پر قابو نہیں پا سکتی کیونکہ اسے ہمیشہ ڈر رہتا ہے کہ مانگے تانگے کی حکومت سے ناراض اتحادی اگر نکل گئے تو ان کا دھڑن تختہ ہونے میں کتنی دیر لگے گی؟ دوسرا انہیں اور قرض مل جائے گا تو کام چل جائے گا۔ اندرونی قرضہ لینا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اگر لوگ بینک میں اپنی بچت نہیں رکھیں گے تو بینک سے قرضہ کیسے ملے گا؟ جب بھی بینکوں میںبچت کے اکائنٹس میں رقم کم ہونے لگتی ہے، سٹیٹ بینک شرح سود بڑھا دیتا ہے تا کہ لوگ زیادہ منافع کی خاطر زیادہ سے زیادہ رقوم جمع کروائیں۔ ان رقوم سے پھر حکومت کو قرضہ دیا جاتا ہے۔ ہر سال دو سال میں شرح سود بڑھاتے بڑھاتے وہ بیس فیصد اور اس سے بھی اوپر چلی گئی تھی، جب کہ صنعت یافتہ ممالک میں یہ شرح اکثر تین سے پانچ یا ا سے بھی کم ہوتی ہے۔۔لیکن اس کا نقصان کس کو ہوا؟ عوام کو کیونکہ جب حکومت کو وہ قرضہ اتارنا پڑتا ہے تو ایک خطیر رقم اس کے خزانے سے نکل جاتی ہے۔ابھی وہ قرضے اور سود علیحدہ ہے جو بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور وہ بھی ڈالروں میں۔ ان کے علاوہ وہ رقومات ہیں جو IPPS کو زر مبادلہ میں ادا کرنی ضروری ہیں۔ یہ وہ بجلی کے پلانٹ ہیں جو ہماری اشرافیہ نے غیر ملکیوں کے ساتھ ملکر لگائے۔ان کے معاہدے ایسے بنائے گئے کہ خواہ بجلی بنے یا نہ بنے ، ان کے مالکان کو زر مبادلہ میں بھاری رقم دینی پڑتی ہے۔اور ان کے مالکان جنہوں نے یہ معاہدے بنائے وہ کون تھے؟ جی ہاں، وہی اشرافیہ جو اس ملک پر برسوں سے حکمرانی کرتی آئی ہے۔ ان میں شریف خاندان، زرداری خاندان، سر فہرست ہیں۔اب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ پاکستانی عوام کو کون لوٹ رہا ہے؟ اور لوٹ مار کا یہ ایسا طریقہ ہے کہ لوٹ کی رقم زر مبادلہ کی شکل میں با قاعدگی سے ملتی رہے۔ یہ کسی منصوبہ کی کمیشن اور نا جائزا ٓمدنی پر منحصر نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ جب حکمران ہی لٹیرے ہوں تو عوام کے مفادات کو کون دیکھے گا؟اب عوام کاکیا ہو گا جب سیاستدان ، حکمران، محافظ اور عدالتیں سب ہی پاکستان کو یرغمال بنا لیں؟ اگر ایک لیڈر ان کو بچانے کو نکلے اور اس کو جھوٹے الزامات لگا کر جیل میں ڈال دیا جائے؟ اب اگر عوام ٹس سے مس نہیں ہو نگے تو ان کے ساتھ جو سلوک ہو وہ اس کے حقدار ہوں گے۔
کم از کم وہ لیڈر، عمران خان ہے جوسرخ رو ہے۔ اس نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور رہائی نہیں مانگی۔اپنے اصولوں پر جما رہا۔ اب اگر عوام نے اپنا فرض نہیں ادا کیا تو خان پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔عوام اپنی غفلت اور بے پرواہی کی سزا بھگتے آئے ہیں اور اور بھگتے رہیں گے۔اور بجائے اپنی کو تاہیوں کے، آنے والی مصیبتوں کو اللہ کی طرف منسوب کر کے صبر شکر کرتے رہیں گے۔لیکن تاریخ میں عمران خان کا نام سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا۔
پیارے پاکستانیوں، ہمارے حکمران کسی اور ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کے فیصلے پاکستان کے مستقبل کو پیش نظر رکھ کر نہیں کیے جاتے بلکہ نہایت کوتاہ نظری سے صرف اپنے موجودہ مفادات کے پیش نظر کیے جاتے ہیں۔اگر وقتی طور پر کام چلانے کے لیے قرضہ سے کام چل سکتا ہے تو کوئی فکر نہیں۔ یہ تو بعد میں آنے والے بھگتیں گے۔اگر یہ کوئی اور ملک ہوتا جیسے کہ سنگا پور، تو حکمرانوں نے سب سے پہلے اپنے بجٹ سے وہ تمام اخراجات نکال دینے تھے جو کہ سیاستدانوں اور نوکر شاہی کو تنخواہ کے علاوہ مراعات کی شکل میں ملتے ہیں۔ان میں سرکاری گاڑیاں بمعہ ڈرائیور، پٹرول اور مرمت الائونس کے ساتھ، رہائش گاہیں جن مین نوکر چاکر، مالی، بجلی، پانی، مرمتیں، سب شامل ہوتا ہے۔سیاستدانوں کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے پر روزآنہ بھتہ ملتا ہے۔ یہ مراعات بے شمار ہیںجو بالکل غیر ضروری ہیں اور ان حضرات کو خود اپنی آمدنی سے پورے کرنا چاہییں جیسا کہ باقی کی دنیا میں رواج ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا حکومتی نظام ابھی تک انگریز آبادکاروں کے بنائے ہوئے نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہے جو خود ان کے ملک میں بھی نہیں تھا۔ پاکستانی سرکارہمارے نئے حاکم بن گئے جو بالکل آبادکاروں کی طرح کام کرتے ہیں جیسے پاکستان انکا اپنا ملک نہیں ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔پاکستان کو حقیقی آزادی کب ملے گی؟
0